نذرِ غالب— نظمِ آنند ۱۲

؂
حسن چہ کام دل دہد چوں طلب از حریف نیست
خست نگاہ گر جگر خستہ ز لب نمک نہ خواست
۰۰۰

پیشتر اس کے کہ ہم یہ شعر سمجھیں
کیوں نہ ہم سب
دیکھ ہی لیں کچھ ذرا سا مختلف
(اور کچھ مساوی)
ٰٰٓٓغالبِ آشفتہ سر کے ایک اردو شعر کو ، جوٖٖ
ٖٖ ہم قراں، جڑواں سا ہی لگتا ہے اس کا!
’’غیر کی منت نہ کھینچوں گا پئے توقیرِ درد
زخم مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک!‘‘

زخمِ تازہ پر نمک پاشی کی خاطر
غیر کا احسان کیوں لے شاعرِ ِ خود بین آخر
زخم تو پہلے سے قاتل کی کھلی باچھوں ساخود ہی
خندہ زن ہے !

فرق دو اشعار میں اتنا روا رکھا گیا ہے …
یہ طلب جو ’’غیر کی منّت پئے توقیر درد ‘ ‘اردو میں تھی
معنی بدل کر
فارسی میں
اپنے ’جڑواں بھائی‘ ، پہلے شعر سے کچھ کٹ گئی ہے۔..
درد کی توقیر کی خاطر نہیں…
اب’’ دل دہد‘ ‘ ہی رہ گئی ہے!

آئیے، اب حاضر و ناظر کی اس تجسیم کو
تثلیث کی اک باصری صورت میں دیکھیں

لاڈلا دلدار … حاضر
شاعرِ مفتون … حاضر…
اور رقیبِ رو سیہ بھی حاضرو ناظر برابر
استغاثہ کی ذرا شنوائی کر لیں۔

چاہ کا مارا ہوا ہے شاعرِ مفتون ، اور یہ چاہتا ہے
کاش اک نظرِ کرم سے، اس کا پیارا
(شاہد و دلدار ) اس کی سمت دیکھے
شاہد و دلدار الیکن ،جب غلط انداز سی
مایوس کن، ترچھی نظر سے
اس کی جانب دیکھتا ہے
تو رقیبِ رو سیہ سے کیا گلہ؟ ہنس دے اگر وہ
’چوں طلب از ….‘
وہ تو دیکھے ہی گا اک ایسی نظر سے
جس سے طنز و عیب گیری
ریشخندی ہی نمایاں ہو گی غالبؔ !

عامیانہ شرع کے الجھے ہوئے اس سلسلے میں
سہ جہت (تثلیث ) ہی کافی نہیں ہے
اور بھی پہلو ہیں …جن کو در گذر کرنا خلافِ مصلحت ہے
آؤ، دیکھیں!

Advertisements
julia rana solicitors

فرض کر لیں
عاشق مہجور خوگر ہو چکا ہے
اب اسے نظر کرم کی بھیک کی خواہش نہیں ہے
حسن کی اب کارسازی کیا کرے گی!
حسن کی بیگانگی نے کل اگرعاشق کے دل کوخستگی سے بھر دیا تھا
تو اُسے اب خندۂ معشوق کی حاجت نہیں ہے
زخم تو پہلے ہی سر تا سر نمک ہے
ِ خندۂ قاتل کا اب احسان اٹھانا رائگاں ہے!
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
نوٹ۔ راقم الحروف نے غالب کے اردو اور فارسی دواوین میں اس مضمون کے حامل گیارہ اشعار کی نشاندہی کی ہے۔ (س۔پ۔آ)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply