توبہ طلسم چون و چند۔۔(قسط 1)علی محسن رضا

زندگی کے وہ لمحے بہت پُر سکون تھے،اپنا آپ خوش نصیب لگتا ۔۔ سکول، اکیڈمی اور ٹیوشن پڑھا کر اچھے خاصے پیسے بن جاتے تھے۔ پیسوں سے بڑھ کر یہ کہ سرِشام ایک جو  فرصت میسر آتی،اس میں   ، مَیں کبھی پیدل تو کبھی سائیکل پر لاہور سے باہر نکلتا اور دریائے راوی کی اُداسی میں ہَوا پر جھولتی مست چیلوں کی چیخیں سُنتا۔ چیل کی ایسی چیخ صرف راوی کے کنارے سُنی جاسکتی ہے خاموشی میں گھاس پر لیٹے ہوئے۔

مجھے اپنا علاقہ، دوست اور کاروبار چھوڑے ہوئے تین سال ہوچکے تھے۔ لاہور میں کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے نے میری بہت بڑی زندگی کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔ دوستی، محبت، بھروسہ ان سب جذبات سے خالی میں لاہور کی بھری گلیوں، چوراہوں، سڑکوں میں ایک بے وقعت تِنکے کی طرح اُڑتا تھا۔ یہی وہ زندگی تھی جو میں جینا چاہتا تھا، خاموش، گُمنام، تنہا۔۔۔

لیکن  ایک  فون کال نے اس زندگی کا نقشہ ہی  بدل کر رکھ  دیا۔ میں اجنبی لوگوں سے بات نہیں کرتا خاص کر فون پر۔ مینارِ پاکستان سے پرے ستمبر کا آخری سورج گُلابی دُھول اُڑاتا ستاروں کے نقاب نوچتا، مغرب کو اور میں پرندوں کے شور میں زندگی کی خاموش دُھن سُننے روح کی وادیوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ فون بجا تو فوراً کاٹ دیا۔ دوبارہ کال آئی تو بلاک والے آپشن پر انگلی رکھ دی لیکن اسی لمحے  نجانے کیسے اور کیوں کسی اَن دیکھی طاقت  نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔

اب ایک شدید خواہش بیدار ہوئی فُون سُننے کی، یہ جاننے کی کہ اُس پار کون ہے اور اِس وقت کال کیوں کر رہا ہے۔ یہ خواہش عجیب تھی اور میں اس پر زور زور سے ہنس رہا تھا۔ ایک فون کال پر ایسی کیفیت۔۔ پر شاید وہ خواہش نہیں قسمت تھی، قسمت جو میری زندگی بدلنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ موبائل فون ہاتھ میں پکڑے کال کے انتظار میں، میں فاؤنٹین لیک کے گرد چکر لگاتا رہا۔ رنگ برنگی روشنیوں کے سَنگ جھومتا پانی مجھے ہمیشہ بور کرتا ہے لیکن آج اس تماشے سے طبعیت کچھ زیادہ ہی اُکتا چلی تھی۔

جب پندرہ منٹ انتظار میں گزرگئے اور کال نہ آئی تو میں نے خود نمبر ڈائل کیا لیکن اب دوسری جانب  سے سوئچ آف کی اطلاع موصول ہوئی۔ یہ کون تھا اور اب اس کا نمبر بند کیوں ہے۔۔۔۔ کہیں کوئی ایمرجنسی نہ ہو۔ گھر فون کرکے  اہلِ خانہ کی خیریت دریافت کی، ہر طرح سے اطمینان کیا، لیکن اس کال کا خیال ذہن سے اوجھل نہ ہوتا تھا۔ شیشے میں خود پر ہنسا، دونوں ہاتھوں سے سر پیٹا ،پر ذہن پھر بھی وہیں کا وہیں پریشان منہ بنائے کھڑا رہا۔ یاخدا کیا مصیبت ہے دن بھر میں دسیوں ایسے اجنبی نمبر فون کرتے ہیں، میں سب کو ریجیکٹ کرتا ہوں کبھی ایسی بے چینی نہیں ہوئی جیسی اب ہے آخر یہ معاملہ کیا ہے۔

کاش میں اس معاملے سے کبھی آگاہ نہ ہوتا، یہ جاننے کی خواہش ہمیشہ ادھوری رہتی۔۔۔۔۔ آنے والے مہینوں میں ایسے بے شمار لمحے آئے جب میں نے اس گھڑی کو کوسا جس میں، میں نے وہ کال رسیو کی تھی، ان دنوں میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کاش کہیں سے کوئی ٹائم مشین مل جائے یا قدرت اِصلاحِ ماضی کا ایک موقع عطا کردے تو میں واپس اس لمحے میں جا کر اس نمبر کو بلاک کر دوں تاکہ یہ سب مصیبتیں جن میں، میں اس کال کی وجہ سے گرفتار ہوں مجھ سے دور ہوجائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

علی محسن رضا
دین و دنیا کی سرحدوں پر آوارہ گردی کرتا ایک قصہ گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply