مہاسبائی سیاست, چانکیائی جمہوریت اور بھاجپائی سفارت کا مرکز پاکستان دشمنی اور اقوام عالم کا امن سبوتاژ کرنا ہے۔
منوجی سمرتی اور چانکیا کوٹیلہ کو تو ساری دنیا پڑھ اور سمجھ چکی پر اب سے مودی وہ تیسرا کردار ہوگا برصغیر ہند و پاک میں آج سے لیکر اگلی نسلوں کی تاریخ میں جس کو امن عالم کا دشمن اور جدید شیطانی سیاست کا بانی بلامقابلہ تسلیم کیا جائے گا۔
پاک بھارت کشیدگی ویسے تو تقسیم ہند کے فوراً بعد شروع ہوچکی تھی اور کشمیر بطور مسئلہ ان دو نوزائیدہ ریاستوں میں تسلیم کرلیا گیا اور کشیدگی کو تقویت مل گئی تھی پر مودی سرکار نے حلف اٹھاتے ہی اس کشیدگی اور مسئلہ کشمیر کو عذاب میں تبدیل کردیا اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے خاتمے سے پہلے پہلے۔
مودی سرکار بنی بھی مسلمانوں پر تشدد اور انکے قتل وغارت پر, چلی بھی مسلمانوں پر تشدد اور انکے قتل وغارت پر اور اب مودی اگلی سرکار کے لیئے بھی مسلمانوں پر تشدد اور انکے قتل وغارت کا کارڈ استعمال کررہا ہے۔
انتہا پسندی بلکہ مذہبی و نسلی انتہا پسندی کو متعارف کروانے والی جماعت بے جے پی اور پھر اس کے کرتا دھرتا کسی صورت بھارت نہیں بلکہ پورے خطہ برصغیر کو مسلمانوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے ملک میں تو لاٹھی بھی انکی اور بھینس بھی لیکن جہاں ان کا بس نہیں چل رہا وہاں وہ جنگی جنون مسلط کرکے اپنی عوام اور فوج کے ذریعے دھاوا بولنا چاہتے ہیں۔
پاک بھارت کشیدگی کو ہمیشہ کم کرنے میں پہل پاکستان نے کی ہے جبکہ جنگ کا طبل ہمیشہ بھارت نے بجایا ہے۔
ہم سینتالیس سے آج تک تاریخ کھنگال لیں ہمیں چانکیائی سیاست کی سب نشانیاں ملیں گی جس میں براہمن راج اور پڑوسیوں کے امن کو داؤ پر لگانا سر فہرست ہیں۔
موجودہ صورتحال ہی دیکھ لیں کہ بھارت میں یہ سال الیکشن کا سال ہے تو بے جے پی اور بطور خاص مودی کھل کر بے نقاب ہوگیا ہے کہ وہ خطے ہی کیا بلکہ دنیا کے امن سے بھی خوش نہیں۔
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کا بغور جائزہ لیں تو;
چودہ فروری کو پلوامہ میں ایک خودکش حملہ سامنے آتا ہے جس میں 50 بھارتی فوجی مارے جاتے ہیں, بھارت اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے جنگ کی دھمکی دیتا ہے۔
انیس فروری کو پاکستان ردعمل دیتا, پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھارت کو تحقیقات میں مدد کی آفر دیتے ہیں, جنگ کو خطے کے لیئے خطرناک قرار دیتے ہیں اور مذاکرات کی دعوت دیکر جنگ ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بائیس فروری کو پاکستان امن اور سلامتی بنائے رکھنے کی خاطر سفارتی محاذ پر سرگرم ہوتا ہے اور دنیا کو باور کرواتا ہے کہ خطے میں جنگ کے بادل مودی جی کی مہربانی سے منڈلا رہے ہیں۔
تیئس فروری کو پاکستانی وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کو خط لکھتے ہیں کشمیر کی دگرگوں صورتحال اور بھارتی جنگی جنون کے بابت۔
پچیس فروری کو چائنہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہتا اور دنیا کو باور کرواتا ہے۔
چھبیس فروری کو بھارتی فضائیہ بالا کوٹ سیکٹر کشمیر میں سرحدی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہے جبکہ بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی ہے پر اس کے شواہد وہ دینے میں تاحال ناکام ہے۔
ستائیں فروری کو بھارت دوبارہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے جس میں پاکستانی فضائیہ اس کو کاؤنٹر کرتی ہے اور دو بھارتی طیارے گراتی ہے, مگ 21 اور ایس یو 30 سخوئی, ایک پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن زندہ گرفتار ہوتا ہے۔
ستائیس فروری کو ہی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بیان دیتی ہیں کہ ہم مزید کشیدگی نہیں چاہتے۔
ستائیس فروری کو ہی پاکستانی وزیر اعظم دوبارہ خطاب کرتے ہیں اور بھارت کو امن مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔
ستائیس اور اٹھائیس فروری کی شب بھارت پاکستان پر اسرائیل کی مدد سے میزائیل حملے کا منصوبہ بناتا ہے جو قبل ازوقت پاکستان کو معلوم پڑتا ہے اور پاکستان تیسرے ملک کی مدد سے بھارت کو واضح پیغام پہنچا دیتا ہے کہ وہ خطے کے امن کو داؤ پر لگانے سے گریز کرے۔
اٹھائیس فروری کو امریکی صدر ٹرمپ پاک بھارت کشیدگی میں کمی کا اشارہ دیتے ہیں۔
یکم مارچ کو پاکستان ونگ کمانڈر ابھینندن کو بھارتی حکام کے سپرد کرتا ہے جذبہ خیر سگالی کے تحت اور امن کو ایک اور موقع دینے والے موقف کی تجدید کرتا ہے۔
یکم مارچ کو بھارتی میڈیا بدستور وار ہسٹریا بھڑکاتا رہتا ہے پر بھارتی عوام امن کو ترجیح دینے والی صلاح اور ابھینندن کو رہا کرنے پر عمران خان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور بھارت سے کئی مضبوط آوازیں عمران خان کو امن کا نوبل انعام دینے پر اٹھتی ہیں
یکم مارچ کو ہی بھارت شدید گولا باری کرکے سیالکوٹ اور جموں سیکٹر میں شہری آبادی کو نشانہ بناتا ہے اور پاک فوج کے جوانوں کو شہید کرتا ہے۔
تین مارچ کو او آئی سی کے اجلاس میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے شرکاء پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں کو سراہتے اور بھارتی جارحیت کے جواب میں امن کو ترجیح دینے پر بھارتی رویے پر تنقید کرتے ہیں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھارت کو بدمعاش اور دہشتگرد ریاست جیسے الفاظ میں تنقید کرتے ہیں۔
پانچ مارچ کو بھارتی نیوی کی آبدوز سمندری راستے سے پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتی ہے جسے پاک نیوی وارننگ دیکر واپس پلٹنے پر مجبور کردیتی ہے۔
الغرض ابتک خطے میں امن قائم ہے تو اس کا سہرا پاکستان کے سر ہے ورنہ بھارت نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی جنگ اور تباہی کی۔
بھارت ہتھیاروں پر خرچ کر کر کے اپنی عوام کو بھوکا ننگا مارنے پر تلا ہے نا کہ اس سے پاکستان کو ختم کرنے والا ایجنڈا تکمیل پاسکے گا۔
بھارتی فوج میں نہ تو دم خم ہے اور نہ وہ جنگ چاہتی ہے لہذا ایسے میں مودی کا دفاعی اخراجات پر اندھا دھند خرچہ اور پڑوسی اور پر امن ملک پاکستان کو جنگ کی دعوت دینا سراسر امن دشمنی اور ذاتی مفادات مطلب سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں تو اور کیا ہے؟
مودی خطے کے ہی نہیں دنیا کے امن کے لیئے ایک خطرہ ہے لہذا اس پر اقوام عالم کو سخت ایکشن لینا چاہیئے۔
پاکستان کی امن دوستی کی مثالیں پہلے بھی دنیا کی نظر میں تھیں اور اب موجودہ صورتحال میں اور واضح ہوکر آگئیں۔
پاکستان ایک امن پسند ملک ہے لیکن بھارتی پراپیگنڈے نے اس کی ساکھ اتنی متاثر کی ہے کہ دنیا باوجود ہماری امن پسندی کے ہمیں کلین چٹ دینے کو فوری تیار نہیں جس کی زد میں ہماری پر امن تنظیمیں بھی آئی پر یاد رہے ہر کالی رات کا اختتام روشن صبح پر ہوتا ہے اور وہ صبح اب قریب ہے جو پاکستان کو روشن, اجلا اور صاف دکھائے گی دنیا میں, ان شاء ﷲ۔
اور بھارت میں جلد ہی وہ کالی رات چھانے والی ہے جس میں اس نے پاکستان کو دھکیلا تھا۔
بھارت اور مودی کو الگ کردیں تو شاید خطے کے امن کو کچھ دوام مل سکے ورنہ بھارت اور مودی ملکر خطے کی بے گناہ زندگیوں اور امن کو داؤ پر لگا دینگے۔
جب تک مودی برسراقتدار ہے تب تک ہمیں یہ مان کر چلنا ہوگا کہ ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں اور کسی بھی وقت مودی اس بارود کو تیلی دکھا کر دنیا کو خس وخاشاک کا ڈھیر بناسکتا ہے۔
مودی کے سر پر دھن سوار ہے کہ وہ منوجی سمرتی اور کوٹیلہ چانکیا سے بڑا سیاسی اور جنگی پنڈت کہلایا جائے اور مانا جائے۔
مودی, امن دشمنی اور بلا جواز جنگ کا دوسرا نام ہے۔
لیکن ہمیں بطور ہندو مسلم اور پاکستان بھارت نہیں بلکہ بطور انسان یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں اور بھرپور جنگ لڑنے کا ہمارے پاس بس ایک ہی موقع ہے لیکن انسانیت کی خاطر ہم امن کو موقع دیں تو ہم اربوں انسانوں کی خوشیوں کے محافظ اور ضامن بن سکتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں عمران خان اور جنرل آصف غفور نے بہت ہی زبردست جملے ادا کیئے گفتگو کے دوران جن کو سونے کے پانی سے لکھا جانا چاہیئے کہ
“Can we afford to miscalculate and escalate this war”, (PM Imran Khan asks India.)
اور
There are no winners in wars, only humanity loses: (DG ISPR)
لہذا جب ہوش و ہواس سلامت ہیں تو امن کو ترجیح دینے والے کام کرنا ہی دانشمندی ہے نا کہ کھلی جنگ اور طاقت کا بے لاگ مظاہرہ کرنا عقل مندی ہوگی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں