حسرتوں کی کوکھ سے جنم لیتی انسانی سمگلنگ

خوب سے خوب تر کی تلاش انسانی جبلت کا حصہ ہے دنیا کی تمام تر ایجادات اسی خواہش کی مرہون منت ہیں ۔ انسان کی ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف ہجرت کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود حضرت انسان کی ۔ پہلے پہل جب اس کرہ ارض کی آبادی مختصر ہو گی تو حضرت انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنی ضروریات کے تابع آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر سکتا ہوگا ۔ مگر جوں جوں ریاستی نظام تشکیل پاتا گیا تو یہ ہجرت کچھ حدود و قیود کی پابند ہوتی گئی ۔ نتیجتاً آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اپنے آبائی ملک سے کسی دوسرے ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنا یا کسب معاش کے لئے عارضی طور پر قیام کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔
گو کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں دوسرے ممالک جانے کا کام قیام پاکستان کے فورا بعد ہی شروع ہو گیا تھا تاہم ملکی معیشت کے اتار چڑھاو کے ساتھ اس رجحان میں بھی کمی بیشی آتی رہی ۔ سمندرپارپاکستانیوں کی وزارت، ورلڈ بینک، ویکیپیڈیا اور دیگر اداروں کی ویب سائٹس پر موجود اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اس رجحان میں شدید اضافہ ہوا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 80 لاکھ سے زائد پاکستانی دوسرے ممالک میں مقیم ہیں اور ان کی طرف سے اہل خانہ کو بھیجی جانے والی رقومات ایکسپورٹ کے بعد زر مبادلہ کا دوسرا بڑا ذریعہ ہیں۔
اب آتے ہیں تمہید سے جڑے ایک اہم مسئلے کی طرف جسے ہیومن ٹریفکنگ ، انسانی سمگلنگ یا عرف عام میں ڈنکی لگانا کہتے ہیں ۔ ویسے تو یہ لفظ جبری مزدوری، انسانی اعضاء کی پیوندکاری، جسم فروشی اور جبری غلامی جیسے مکروہ عزائم کے لئے افراد کو ایک ملک یا علاقے سے دوسرے ملک یا علاقے میں منتقل کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن اس مضمون میں ہم اس کے اس پہلو کو ڈسکس کریں گے جس میں ایجنٹ کا کسی فرد سے طے شدہ رقم لے کر اسے بغیر ویزہ، غیر قانونی طریقے سے اس کی مرضی کے کسی دوسرے ملک پہچانا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ کام صرف اس صورت میں ہوتا تھا کہ پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات پر نام اور تصویر وغیرہ کی تبدیلی یا جعلی ویزہ کی مدد سے دستاویزات تیار کی جاتی تھیں اور بیرون ملک جانے والے افراد کو ائیر پورٹ سے فلائی کروایا جاتا تھا اس طرح زیادہ تر لوگ دوسرے ملک پہنچ جاتے تھے جو پکڑے جاتے تھے انہیں اس ملک کے قوانین کے مطابق سزا دی جاتی تھی یا ڈی پورٹ کر کے واپس پاکستان بھجوا دیا جاتا تھا ۔ ایسے ناکام افراد کو مالی نقصان تو برداشت کرنا پڑتا تھا تاہم کسی جانی نقصان کا خطرہ نہیں ہوتا تھا مگر کچھ عرصہ سے انسانی سمگلنگ ایک ایسے کالے دھندے کی شکل اختیار کر گئی ہے جو آج تک سینکڑوں قیمتی جانیں نگل چکا ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ ایجنٹ بیرون ملک خصوصاً یونان اور دیگر یورپی ممالک جانے کے خواہشمند نوجوانوں سے فیس طے کر لیتا ہے اور گروپ کی شکل میں طویل اور خطرات سے بھرپور زمینی و سمندری روٹس استعمال کرتا ہوا ایک سے دوسرے ملک لے جاتا ہے اور بالاخر یورپ پہنچا دیتا ہے ۔ اس دوران پر خطر پہاڑی راستوں پر پیدل چلانے سے لے کر، گاڑی کی ڈگی میں بند کرنے، بھیڑ بکریوں کی طرح کینٹینرز میں پیک کرنے اور اوور لوڈڈ واٹر بوٹس کے ذریعے سمندری حدود پار کرنے کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ان غیر محفوظ طریقوں سے سفر کرتے ہوئے دم گھٹنے، سرحدی محافظین کی فائرنگ، موسم کی شدت، بیماری اور کشتی الٹنے کے واقعات سے اب تک سینکڑوں نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی گروپ میں دو سگے بھائی اکھٹے سفر کر رہے تھے ان میں سے ایک فائرنگ یا بیماری سے ہلاک ہوا تو دوسرا اس کی لاش کو بے گور و کفن چھوڑ کر آگے بڑھنے پر مجبور ہوگیا ۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو کسی ان دیکھے راستے پر موت کو گلے لگا چکے ہیں لیکن ان کے گھر والے ان کی زندگی و موت سے بے خبر آج تک ان کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ ان نوجوانوں کے ورثاء کس کرب سے گزرتے ہیں اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
یہ ایجنٹ عموماً بلوچستان کے راستے ایران، ایران سے ترکی اور ترکی سے یونان کے مختلف روٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ سارا عمل چیک پوسٹوں کے عملہ کی ملی بھگت سے ممکن ہوتا ہے ۔ انسانی سمگلنگ ایک بہت بڑے مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے اور ہر علاقے کو پار کروانے کے لئے الگ الگ ایجنٹ کام کرتے ہیں جو ایک مربوط نیٹ ورک کی شکل میں گروپ کو ایک سے وصول کر کے دوسرے ایجنٹ تک پہنچاتے ہیں اور اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں ۔ پاکستان میں اس دھندے نے اس وقت شدت اختیار کر لی تھی جب شام میں خانہ جنگی کے بعد شامی پناہ گزینوں نے یورپ کا رخ کیا ۔ خصوصاً جب ستمبر 2015 کے اوائل میں ایک شامی بچے کی لاش ترکی کے ساحل پر ملی جس کی فیملی ترکی سے کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے کوس جانے کی کوشش میں حادثے کا شکار ہو گئی تھی ۔ ساحل پر اوندھے پڑے بچے کی لاش نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور ہر آنکھ اشکبار ہوئی، یورپ نے شامی مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں نرم کر دیں، مہاجرین کیمپ لگائے گئے اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے مہاجرین کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے ۔ لیکن یہ صورتحال پاکستانی ایجنٹوں اور غیر قانونی تارکین وطن کے لئے گولڈن چانس ثابت ہوئی چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی نوجوان شامی تارکین وطن کے ساتھ یورپ پہنچ گئے ۔ کامیابی سے یورپ کے مہاجرین کیمپوں میں پہنچنے والوں نے جب سوشل میڈیا کے ذریعے مہاجرین کارڈز، مفت کھانوں، ماہانہ جیب خرچ، لینگوئج کورسز،اسائلم اور چکا چوند ترقی کی داستانیں شئیر کیں تو مزیدکئی گنا زیادہ نوجوان یورپ کے سپنے دیکھنے لگے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
ویسے تو پورے پاکستان میں ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے موجود ہیں لیکن گجرات، منڈی بہاوالدین، گوجرانوالہ اور جہلم کے نوجوانوں نے اس کام میں خاصا نام پیدا کیا ہے، زیادہ تر ایجنٹس کا تعلق بھی انہی اضلاع سے ہے ۔ آج کل سوشل میڈیا پر "تاریخ کا انتقام" کے عنوان سے ایک لطیفہ خاصہ وائرل ہے کہتے ہیں کہ جن جن راستوں پر سفر کرتے ہوئے سکندر اعظم پنجاب آیا تھا انہی راستوں سے گجرات اور منڈی بہاوالدین کے نوجوان یونان پہنچ کر یونانیوں سے انتقام لے رہے ہیں ۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ خوب سے خوب تر کی تلاش انسان کی فطرت ہے، پاکستان کے روز افزوں بگڑتے حالات، بے روزگاری، لاقانونیت، رشوت ستانی، دہشت گردی و بدامنی اور مہنگائی سے تنگ نوجوان اگر اپنے بہتر مستقبل کے لئے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرنے کی ٹھان لیں تو یہ خواہش ناجائز نہیں، اور اس خواہش کو مہمیز دیتی ہیں وہ کوٹھیاں، کاریں اور چمک دمک جو انہی کے ہم جولی، کزنز اور محلے دار ڈالر ،پاونڈ اور یورو کے سر پر قائم کرتے ہیں ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان منہ زور حسرتوں کو بے لگام ہونے سے بچایا جائے اور غیر قانونی اور خطرناک ذرائع اختیار کرنے کی روک تھام کی جائے تاکہ بوڑھے والدین کے سہاروں کو کوئی آنچ نہ آ سکے ۔
چند گزارشات حکومت پاکستان سے کہ ایک طرف مزید موثر قانون سازی اور قانون کی عمل داری سے اس کام کو کنٹرول کریں دوسری طرف دوست ممالک کی حکومتوں سے معاہدوں، ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ، مناسب راہنمائی، بیرون ملک جانے کے اخراجات کے لئے آسان قرضوں کی فراہمی، بیرون ملک ملازمت کے مواقع کی تشہیر جیسے نہائت آسان اقدامات سے قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ موجودہ حالات میں تربیت یافتہ نوجوانوں کا ترقی یافتہ ممالک میں کام کرنا نہ صرف ان کے خاندان کے لئے خوشخالی کا باعث ہو گا بلکہ ملک کے لئے بھی مفید ہوگا۔ آخری بات یہ کہ جہاں والدین اور معاشرے کا کام ہے کہ وہ گرم خون کو اس انتہائی اقدام سے روکیں وہیں قومی و بین الاقوامی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ایجنٹوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالیں ان کو قرار واقعی سزا دیں اور اس خطرناک دھندے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
ڈنکی کے ذریعے جانے والے اپنے کئی دوستوں سے ہونے والی گپ شپ کی روشنی میں یہ گروپ کن کن مراحل سے ہو کر منزل مقصود تک پہنچتے ہیں اس کا احوال پھر کسی نشست میں ۔ ان شاء اللہ

Facebook Comments

توصیف احمد
گزشتہ آٹھ سال سے مختلف تعلیمی اور رفاہی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ آج کل پاکستان کی ملک گیر این جی او الخدمت فائونڈیشن کے سینئیر پروگرام مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بچوں اور یوتھ کی کردار سازی کے لئے ٹرینر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور سیر و سیاحت اور دوستیاں بنانے کے فن کے ماہر ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply