• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی پانامہ لیکس اورسسلین مافیا کا جنم۔۔ارشد غزالی

پاکستانی پانامہ لیکس اورسسلین مافیا کا جنم۔۔ارشد غزالی

پاکستانی پانامہ لیکس اورسسلین مافیا کا جنم۔۔ارشد غزالی/پاکستان میں سسلین مافیا اور گاڈ فادر کےالفاظ اس وقت زبان زدِ  عام ہوئے جب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق اپنا فیصلہ سنایا، جس کی ابتداء پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ سے کی گئی, اس نوٹ کی ابتدائی لائن ہی سنہ 1969 میں ماریو پوزو کے مشہور زمانہ ناول ‘گارڈ فادر’ میں بالزاک کے اس مشہور فقرے  پر مشتمل تھی کہ ‘ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔

درحقیقت گاڈ فادر تخیلاتی کرداروں پر مشتمل ایک ناول تھا مگر اس ناول میں گاڈ فادر ویٹو کارلیونی کے کردار سمیت اکثریت کردار اور ناول کی کہانی حقیقی زندگی کے مافیا سربراہوں اور امریکہ میں موجود مافیا کی پانچ فیملیز یا خاندانوں سے مماثلت رکھتی ہے, اس ناول پر شہرہ آفاق فلم گاڈ فادر بنائی گئی جس میں مارلن برانڈو اور الپچینو نے لازوال اداکاری کے جوہر دکھائے۔

کیا پاکستان کے سیاسی خاندانوں کے اور گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے درمیان کوئی مماثلت موجود ہے؟اس سوال کا جواب جاننے کے لئے جب ہم ماضی کی پرتیں کھنگالتے ہیں تو ہمیں دنیا کے مشہور گینگسٹر الکپون اور مافیا کی گمبینو فیملی کے باس جان گوٹی سمیت بہت سوں کی مثالیں نظر آتی ہیں، اگرچہ جو جوئے خانے، شراب اور منشیات کی فراہمی، غنڈوں کی سرپرستی، قاتلوں کی پشت پناہی,کرپشن اور بھتہ خوری سمیت ہر جرم میں ملوث تھے مگر قانون ان کے سامنے بے بس تھا, گواہان ان کے خلاف گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتے تھے اور قانون نافذ کرنے والوں کے پاس ایسے شواہد اورثبوت موجود نہیں تھے جن کی رو سے انھیں مجرم ٹھہرا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جا سکے, ایسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انھیں ٹیکس اور ناجائز اثاثوں کے معاملات میں گھیرنے کا منصوبہ بنایا ،لہٰذا اب ان اداروں کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ ان کی ناجائز دولت یا جائیداد کا سراغ لگائیں اور ان سے اس دولت اور جائیداد کا حساب مانگیں یعنی ان سے اس ساری دولت اور جائیداد, اثاثوں کی ”رسیدیں‘‘ اور “منی ٹریل” وغیرہ کے ثبوت مانگیں۔ ایسے کیس میں یہ ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی امدن, اثاثوں اور ٹیکس شدہ دولت میں توازن ثابت کرے جو کہ کرپشن اور ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن میں ممکن نہیں ہوتا ،یہی ان دونوں کے ساتھ بھی ہوا ،اور تاریخ کے طاقتور ترین مافیا سربراہوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔

یہی پاکستان پر ماضی میں حکمرانی کرنے والے سیاسی خاندانوں اور دیگر سیاستدانوں کے ساتھ ہوا ،پراپرٹیز کیسے خریدی گئیں؟ رقم کہاں سے آئی؟ پیسے دوسرے ملکوں میں کیسے پہنچے؟ بینکوں سے لین دین کیسے ہوا؟ آف شور کمپنیاں کس پیسے سے بنیں اور پیسہ کس نے ٹرانسفر کیا؟ پیسہ بینک کے ذریعے گیا یا ہنڈی کے ذریعے؟ جس سال رقم باہر بھیجی گئی اس سال بھیجنے والے نے ٹیکس کتنا دیا اور باہر بھجوائی جانے والی رقم کتنی تھی؟ یہ سب کچھ ثابت کرنا, صفائی دینا، ثبوت فراہم کرنا اور منی ٹریل ثابت کرنا ملزمان کے ذمے ڈالا گیا مگر یہ امریکہ نہیں تھا اس لئے ان مقدمات کے نتائج عوام کے سامنے ہیں, یہاں ہمیں سسلین مافیا کی مثال بھی نظر آتی ہے, دہائیوں سے اس ملک پر چند خاندان اور مخصوص سیاستدان حکومت کر رہے ہیں انھوں نے اپنے اپنے ادوار میں پولیس, میڈیا, بیوروکریسی اور عدلیہ سمیت ہر محکمے میں اپنے لوگ بھرتی کئے جو وقت کے ساتھ ترقی کرتے کرتے اہم انتظامی عہدوں تک پہنچے اور وہی لوگ  آج  ان کے سہولت کار ہیں ،خواہ سیاستدانوں کا مافیا ہو, شوگر مافیا ہو کار مافیا ہو یا کوئی بھی گورنمنٹ ادارہ، ہر جگہ محکموں اور ان مافیاؤں کے مفادات ایک دوسرے کے باہمی تعاون سے چلتے رہے ہیں اور آج تک چلتے چلے آرہے ہیں, ہم پر مسلط حکمران, بیوروکریسی, صحافی, پولیس حتٰی  کہ ہر سرکاری محکمے میں موجود لوگ اسی ملک کے شہری اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ من حیث القوم ہمارا معاشرہ اور ہماری قوم زوال کا شکار ہوچکی ہے۔

ہمارے ملک میں ہر طرف مختلف مافیاؤں کا راج نظر آتا ہے مگر حقیقی جرائم پیشہ مافیا کی تاریخ اور نظام بہت قدیم ہے، پندرہویں صدی سے لے کر سترھویں صدی کے آخر تک سمندر  میں لمبے اور دور دراز کا سفر کرنے والے لاکھوں مسافروں کی جان لینے کا سبب بنتا رہا جو سکروی بیماری میں مبتلا ہوجاتے تھے جس سے تھکاوٹ, تکلیف اور مسوڑھوں سے خون بہنے لگتا تھا حتی کی اس کی انتہائی حالت میں مسافر موت کے گھاٹ اتر جاتے تھے مگر دنیا اس کی وجہ جاننے سے قاصر رہی حتی کہ سترھویں صدی کے وسط رائل نیوی کے ایک اسکاٹش فزیشن جیمز  نے اس سلسلے میں کچھ تجربات کئے اور اپنے مشاہدات قلم بند کئے, مگر اس کی تحقیق کو قابل اعتناء نہیں سمجھا گیا، جب تک 1790 میں رائل نیوی کے سک اور ہرٹ کمشنرز نے جہازوں کے عملے کے لئے لیموں کا رس لازم قرار دیا, جیسے جیسے اس کے فوائد اور اثرات کے بارے میں معلومات یورپ اورباقی دنیا تک پھیلیں، لیموں کی فصل کی اہمیت بڑھتی چلی گئی، اس مقصد کے لئے مخصوص زمین اور درکار درجہ حرارت اٹلی کے جزیرے سسلی میں موجود تھے, اگلی کئی دہائیوں تک سسلی لیموں کی بے انتہا ڈیمانڈ کی وجہ سے سپلائی کا ایک بڑا مرکز بنا رہا, اس فصل کو چوروں اور لٹیروں سے بچانے کے لئے مقامی کسان اور زمینداروں نے مخصوص رقم کے عوض اپنی فصلوں اور اس سے حاصل ہونے والے پھلوں کی حفاظت کے لئے جنوبی شام, روم, عرب, فرانس اور اسپین وغیرہ سے  آکر یہاں بسنے والے مقامی جرائم پیشہ گروہوں کی مدد لینی شروع کردی اور اس طرح لیموں کے باغات اور اس کی تجارت کے بطن سے کوسانوسٹرا یعنی سسلین مافیا نے جنم لیا۔ جس نے جرائم کو باقاعدہ سائنس بنا دیا، انھوں نے آنے والے وقتوں میں ہر محکمے, ادارے اور زندگی کے ہر شعبے میں اپنے لوگوں کو بھرتی کرنے اور خریدنے پر سرمایہ کاری کی اور ریاست کے متوازی ایک ریاست قائم کی، جس کا سربراہ مافیا کا ڈان ہوتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی کچھ اس وطن عزیر میں ہوا ،فرق صرف اتنا ہے یہاں ہر طاقتور شخص مافیا ڈان ہے اور اس نے اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق اپنی سلطنت تخلیق کی ہوئی ہے, اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہو اور عوام میں شعور بیدار ہو، تاکہ ہم بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکیں۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply