ٹارگٹ ،ٹارگٹ،ٹارگٹ۔قسط9

ایس آئی کیو
(Sick in Quarters)
کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اس کی تاثیر پورے مضمون سے بڑھ کر ہے۔ فوجی زندگی میں کبھی کبھار ایسا وقت بھی آ جاتا ہے جب طبیعت کی ناسازی اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ سی ایم ایچ تشریف لے جا کر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔اگر صحت کی صورتحال کچھ اچھی نہ ہو تو معالج دوا کے ساتھ ساتھ آرام فرمانے کی بھی تلقین کرتا ہے اور یہ ہدایت ایک چٹ پر لکھ کر مریض کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ایس آئی کیو عموماً تین دن پر محیط ہوتی ہے۔ مریض یہ چٹ یونٹ میں جمع کروا دیتا ہے اور اس کے بعد تین دن تک کمرے میں رہ کر آرام کرتا ہے۔ معاملہ یہاں تک ہو تو ٹھیک ہے لیکن بعض اوقات یار لوگ کسی ایگزام ، ٹیسٹ یا آؤٹ ڈور ایکسرسائز سے بچنے کے لیے اس رعایت کا بے جا استعمال بھی کرڈالتے ہیں۔

یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہمیں پاس آؤٹ ہوئے کوئی تین سال کا عرصہ ہو چلا تھا اور ہم یونٹ میں بحیثیت ایڈجوٹنٹ ’’عسکری خدمات‘‘ سر انجام دے رہے تھے۔ یونٹ کو ایک ہفتے کے لیے آؤٹ ڈور ایکسرسائز پر جانا تھا۔ سب تیاریاں مکمل تھیں۔ اچانک ایک دن میجر امجد ہمارے آفس میں تشریف لائے اور فرمانے لگے ’’میری طبیعت سخت ناساز ہے اور ڈاکٹر نے مجھے تین دن کی ایس آئی کیو دے دی ہے۔ میں گھر جا رہا ہوں تم یہ چٹ سی او کو دکھا دینا‘‘ ہم نے ان کی ایس آئی کیو کی چٹ ایک ہاتھ سے وصول کی اور دوسرے سے سی او کے پاس بھجوا دی ۔ تھوڑی دیر کے بعد انٹر کام پر سی او کی طیش بھری آواز سنائی دی اور ہمیں فوراً اپنے آفس میں بلایا گیا۔ ہم بھاگ کر سی او کے آفس میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ غصے سے آگ بگولا ہو رہے تھے۔
’’یہ امجد نے ایس آئی کیو کہاں سے لی ہے؟‘‘ہم سے پوچھا گیا۔
’’سر!شاید سی ایم ایچ سے‘‘ہم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
’’ تم نے یہ چٹ پڑھی ہے؟‘‘
’’ یس سر‘‘
’’ آنکھیں کھول کر دیکھو اس پر کس کی مہر لگی ہوئی ہے۔‘‘
ہم نے ایس آئی کیو کی چٹ پر گہری نظر ڈالی تو بے اختیار ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا۔ چٹ پر گائنا کالوجسٹ کی مہر لگی ہوئی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ہمارے ٹو آئی سی کی بیگم سی ایم ایچ میں گائناکالوجسٹ تھیں۔ میجر صاحب نے ایس آئی کیو لینے کے لیے ان سے سفارش کروائی تھی اور بھابھی نے بھی چٹ پر اپنی مہر لگا کر دستخط کر دیے تھے۔

فوج کے چوہدری!
ہمارے ایک یونٹ افسر بال گرنے کی وجہ سے بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے انواع و اقسام کے تیل استعمال کیے۔ دو ایک مرتبہ ٹنڈ بھی کروا دیکھی لیکن معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔ آخر کسی دوست نے مشورہ دیا کہ راولپنڈی سی ایم ایچ میں ایک سکن سپیشلسٹ بریگیڈئیر ڈاکٹر تعینات ہیں ، اگر ان کو دکھایا جائے تو ضرور کچھ افاقہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے فوراً بریگیڈئیر صاحب سے ملاقات کا وقت طے کیا اور بس پکڑ کر لاہور سے راولپنڈی روانہ ہو گئے۔ وقت مقررہ پر سی ایم ایچ پہنچے اور ڈاکٹر صاحب کے حضور پیش ہو کر اپنی بیماری کی تفصیلات بیان کیں ۔ سب کچھ سن کر بریگیڈئیر صاحب نے سر پر ہاتھ پھیرا اور وگ اتار کر میز پر رکھ دی ۔ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ہمارے یونٹ افسر نے سلیوٹ کیا اور واپس ہولیے۔ اس کے بعد انہوں نے کسی قسم کے علاج کا ترددنہیں کیا۔ بہت عرصے کے بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ہمارے حساب سے تو اب تک انہیں الف گنجا ہوجانا چاہیے تھا لیکن ان کے سر پر کافی بال دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے حیران ہو کر اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ بال گرنے کی اصل وجہ ٹینشن لینا تھی۔ میں نے جس دن سے ٹینشن لینا چھوڑ ی ہے میرے بال گرنا رک گئے ہیں۔

ہم نے زیادہ تر لوگوں کے بال کمانڈ کے دوران گرتے اور سفید ہوتے دیکھے۔ اچھا بھلا سمارٹ میجر جیسے ہی لیفٹیننٹ کرنل پروموٹ ہو کرخوشی خوشی یونٹ کی کمانڈ سنبھالتا ہے اس پر پریشانیوں کا کوہ ہمالیہ ٹوٹ پڑتا ہے۔ دو سال کی کمانڈ کے اختتام پر یہ نوبت آ جاتی ہے کہ سر میں سیاہ بال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ صبح کا آغاز بڑے شاندار انداز میں صوبیدار میجر صاحب کی رپورٹ سے ہوتا ہے۔ ’’سر سب خیر خیریت ہے !بس رات ایک سپاہی یونٹ سے بھاگ گیا تھا، ہم نے اس کی تلاش میں بندے روانہ کیے ہوئے ہیں۔ ایک گاڑی کا کینٹ کے مین چوک پر ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ گاڑی مرمت کے لیے ورکشاپ روانہ کر دی ہے۔ لنگر پر آگ بھڑک اٹھی تھی۔ بڑی مشکل سے بجھائی ہے ۔ دو کک زخمی ہوئے جن کو ہسپتال میں داخل کروا دیا ہے۔کبڈی کے مقابلوں میں ہماری ٹیم نے آٹھویں پوزیشن لی ہے (کل ٹیمیں بھی آٹھ ہی تھیں۔)آڈٹ ٹیم نے اٹھارہ آڈٹ آبجیکشن نوٹ کر لے ہیں۔ میری نانی فوت ہو گئی ہے اور میں دس دن کی چھٹی جانا چاہتا ہوں۔آپ پریشان نہ ہوں، باقی سب خیریت ہے۔‘‘ اب آپ ہی بتائیں اس قسم کی خبریں سننے کے بعد سو پچاس بال تو فوراً ہی سفید ہو جاتے ہیں اور باقی ان بلاؤں سے نمٹنے میں ۔


ڈاک میں موجود تند و تیز خطوط کا جواب تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے کہ کمانڈر کا بلاوا آ جاتا ہے۔ کمانڈر انہی چیزوں کو اپنے انداز میں دہراتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ ’’آپ کی یونٹ سے مجھے بہت شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ اگر معاملہ اسی طرح رہا تو مجھے سخت ایکشن لینا پڑے گا۔‘‘پسینہ پونچھتے ہوئے دوبارہ یونٹ میں آتے ہیں ۔ کام کا آغاز ہوتا ہے تو گھر سے بیگم کا فون آ جاتا ہے۔ ’’آپ گھر کو بالکل وقت نہیں دیتے۔ بیٹے کی طبیعت سخت خراب ہے اسے سی ایم ایچ لے کر جانا ہے اور ہاں آج ذرا جلدی گھر آ جائیے گا، شام کو آپ کے سسرال والے تشریف لا رہے ہیں۔‘‘ سی او صاحب جب سارے معاملات نمٹا کر گھر پہنچتے ہیں تو شام ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد گھر والوں کی تند و تیز باتیں سن کر بالوں کی سفیدی کا عمل مزید تیز ہو جاتا ہے۔
یہاں ہمیں وہ لطیفہ یاد آ گیا جس میں ایک چوہدری سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کہاں کے چوہدری ہیں ،تو وہ جواب دیتا ہے۔ ’’معلوم نہیں۔۔۔۔ گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ تم چوہدری ہو گے تو باہر ہو گے اور باہر والے کہتے ہیں کہ تم چوہدری ہو گے تو اپنے گھر میں ہو گے۔‘‘

پرانا چھاپہ!
جیساکہ چچا غالب نے فرمایا تھا

’گرچہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو،

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘

ویسے ہی فوج میں پرانے چھاپے کے بغیر بھی کوئی بات نہیں بنتی۔ جب بھی کسی کو کوئی کام ملتا ہے اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ پرانا چھاپہ تلاش کیا جائے۔ اس کی تین وجوہات ہوتی ہیں ایک تو اس سے وقت کی خاصی بچت ہو جاتی ہے دوسرا یہ کہ سینئرز کی جانب سے تنقید اور ملامت کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے اور تیسری اور سب سے خاص افادیت یہ کہ دماغ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تروتازہ رہتاہے اورخشکی اور گنج پن جیسی بیماریاں نزدیک بھی نہیں پھٹکتیں۔

چھاپے کی کارفرمائیاں کورسز کے دوران عروج پر ہوتی ہیں۔ اگرچہ سٹوڈنٹس کو کورس کے شروع میں سمجھا دیا جاتا ہے کہ پرانے چھاپے استعمال کرنے کی بجائے جینوئین ایفرٹ کی جائے لیکن سٹوڈنٹس بھی اس ہدایت کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے ہیں۔ اوروں کا کیا ذکر کریں خود ہم نے بھی جب جب چھاپے سے ہٹ کر اپنا دماغ استعمال کرنے کی کوشش کی تو ہمیشہ منہ کی کھائی۔ سٹاف کالج میں بھی ہم ان معدودے چند افسران میں شامل تھے جو ہر اسائنمنٹ خود سے تیار کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے ایسا کرنے میں وقت بھی زیادہ لگتا تھا اور کلاس میں اکثر اوقات انسٹرکٹر سے اختلاف بھی ہو جایا کرتا تھا کیونکہ عموماً وہ بھی پرانے چھاپوں سے استفادہ فرما کر ہی کلاس میں تشریف لاتے تھے۔
صرف ایک مرتبہ یہ کفر ٹوٹا اور ہمارے انسٹرکٹر نے خوب کھل کر ہماری تعریف کی جب ہم نے بیس صفحات پر مشتمل آپریشن آرڈر کو صرف ایک صفحے پر تحریر کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے بعد ہم کئی روز تک شدید بخار میں مبتلا رہے۔ سنتے ہیں کہ گئے وقتوں میں صاحبزادہ یعقوب علی خان مرحوم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا اور مرتے مرتے بچے تھے۔ یقیناًاس کے بعد انہوں نے اس بھاری پتھر کو چومنے سے گریز ہی کیا ہوگا اسی لئے طویل عمر پائی۔

بہرحال اکثر حضرات کا گزارہ چھاپے پر ہی ہوا کرتا تھا۔ وہ شام کو انتظار کیا کرتے تھے کہ جوں ہی کوئی مردِ میدان اگلے دن کی اسائمنٹ(چھاپہ) تیار کرے تو فوراً اس سے لے کر سکون کی نیند سو جائیں اور اگلے دن جوں کی توں اپنے نام سے پیش کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ سلائیڈز کا بیک گرانڈ کلر چینج کردیا جاتا۔ لوگ کوشش یہ کرتے تھے کہ چھاپہ کسی دوسرے سینڈیکیٹ کے افسر سے لیا جائے۔میجر شاہد افسروں کی مذکورہ کیٹٹگری کے سرخیل تھے۔ایک شام کوئی پانچ بجے کے قریب ہم اگلی صبح کی اسائنمنٹ تیار کرنے میں مصروف تھے کہ موصوف آن دھمکے اور چھاپے کا مطالبہ داغ دیا۔ چونکہ چھاپہ ابھی تیاری کے مراحل میں تھا اس لیے ہم نے ان سے تھوڑا اور وقت مانگ لیا اور ایک گھنٹے کے بعد تشریف لانے کی درخواست کی۔ موصوف ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد آن دھمکے اورہم سے چھاپے کا مطالبہ کیا۔ ہم نے مزید ایک گھنٹے کی مہلت کی درخواست کی جو انہوں نے تھوڑی سی بحث و تکرارکے بعد عنایت کر دی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس مرتبہ بھی جب وہ پہنچے تو چھاپہ تیار نہ تھا جس پر موصوف باقاعدہ طیش میں آ گئے ۔ انہوں نے اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے پر ہمیں خوب جلی کٹی سنائیں ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ اسائنمنٹ مکمل کرنے کے بعد ہم خود دینے کے لیے ان کے گھر گئے ۔ موصوف نے فائل اپنے کمپیوٹر میں کاپی کی اور یو ایس بی ہمارے حوالے کر دی۔ صبح جب کلاس میں پریزینٹیشن کی باری آئی تو ہم نے اپنی یو ایس بی کمپیوٹر کے ساتھ لگائی لیکن اس میں ہمیں مذکورہ فائل کہیں دکھائی نہیں دی۔ نتیجتاً انسٹرکٹر کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ میجر صاحب نے ہماری یو ایس بی سے اپنے کمپیوٹر میں کاپی کرتے ہوئے، کاپی پیسٹ کی بجائے کٹ پیسٹ کی کمانڈ دے دی تھی۔اب آپ کو کیا بتائیں کہ کورس کے اختتام پر وہی میجر صاحب سب سے اعلی گریڈ لے کر فارغ التحصیل ہوئے ۔

بیٹ مین رے بیٹ مین!
وہ بھی کیا دن تھے جب پاس آؤٹ ہوتے ہی افسروں کو فوجی بیٹ مین مہیا کیے جاتے تھے۔ فوجی بیٹ مین کی شخصیت میں وفاداری کا عنصر جس قدر زیادہ ہوتا تھا اتنی ہی سمجھداری کی کمی بھی ہوا کرتی تھی۔ یوں تو اکثر بیٹ مین سالہا سال سے یہ ڈیوٹی سر انجام دے دے کراپنے تئیں بہت چالاک ہو چکے ہوتے تھے لیکن عمومی طور پر یہ ہوشیاری روٹین کے کاموں تک ہی محدود ہوا کرتی تھی۔ ذرا معمول سے ہٹ کر کوئی کام بتادیا جاتا تو ان کی بدحواسیاں بھی دیکھنے کے قابل ہوا کرتی تھیں۔ ہم نے بھی اپنی سروس کے دوران بہت سے باغ و بہار بیٹ مین براہ راست بھگتائے اور بہت سوں سے بالواسطہ طور پر بھی پالا پڑا لہٰذا اس سلسلے میں اپنے وسیع تجربے کو استعمال میں لا کر ہم علیحدہ سے ایک عدد کتاب لکھ سکتے ہیں۔

ایک مرتبہ آفس پہنچے تو معلوم ہوا کہ بریف کیس ساتھ لانا بھول گئے ہیں۔ وہیں سے بیٹ مین کو پیغام پہنچایا کہ جلدی سے بریف کیس لے کر دفتر پہنچ جائے۔ کافی دیر انتظار کے بعد موصوف کی شکل دکھائی دی ۔ آفس میں داخل ہوکر کہنے لگا کہ سر بڑی مشکل سے ’باریک کھیس‘ ڈھونڈ کر لایا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیں یہ بات سن کر ہم اپنا سر نہ پیٹتے تو اور کیا کرتے۔ ان دنوں ہم نئے نئے پاس آؤٹ ہو کر پشاور میں تعینات ہوئے تھے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ اس سے پیشتر کہ کسی دن ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہوئے ہماری قلفی جم جائے، پانی گرم کرنے کے لیے ایک عدد ہیٹنگ راڈ خرید ہی لیا جائے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بازار کا رخ کیا اور خوب دیکھ بھال کر ایک عدد ہیٹنگ راڈ لے آئے اور اسے اپنے بیٹ مین بشیر کے حوالے کر دیا۔ صبح کو اٹھتے ہی طبیعت کو اس خیال سے خوش کیا کہ آج خوب گرم پانی سے غسل کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن ایسی ہماری قسمت کہاں۔ بیٹ مین نے خوش خبری سنائی کہ راڈ کام نہیں کر رہا۔ طبیعت بہت جز بز ہوئی لیکن خود پر جبر کر کے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور مارننگ پی ٹی کے لیے روانہ ہو گئے۔ ساتھ میں ناکارہ راڈ بھی رکھ لیا کہ واپسی میں دوکاندار سے تبدیل کروا ئیں گے۔ دوکاندار نے کچھ کہے سنے بغیر راڈ تبدیل کردیا اور ہم نے اسے دوبارہ بیٹ مین کے حوالے کر دیا ۔

اگلے دن وہی معاملہ دوبارہ پیش آیا۔ بیٹ مین نے راڈ کے کام نہ کرنے کی خبر دی اور ہمیں حسبِ معمول ٹھنڈے پانی سے ہی غسل کرنا پڑا۔ اس مرتبہ ہم نے راڈ تبدیل کرنے کے لیے اپنے میس حوالدار کو بھیجا۔ دکاندار نے راڈ تبدیل کرنے میں کافی لیت و لعل سے کام لیا لیکن بہرحال کافی بحث مباحثہ کے بعد راضی ہوگیا۔نیا راڈ بیٹ مین کے حوالے کیا گیا۔ اس سب کے باوجود اگلے دن بھی معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔یعنی راڈ پھر سے خراب اور ٹھنڈے پانی سے غسل۔ اب کی بار ہم دفتر جانے کی بجائے سیدھا دوکاندار کے پاس پہنچے اور تمام معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے بہت بحث و تکرار کے بعدخراب راڈ واپس کر کے نیا راڈ ہمارے حوالے کیا۔ہم کمرے میں واپس پہنچے تو دیکھا کہ بیٹ مین سگریٹ کے کش پر کش لگا رہا تھا۔ ہم نے اسے پانی کی بالٹی بھر کے لانے کے لیے کہا جو وہ فوراً لے آیا۔ ہم نے سکھلائے گئے طریقے کے مطابق راڈ کو پانی میں ڈالا اور پلگ کو ساکٹ میں لگا کر سوئچ آن کر دیا۔ پانی گرم ہونا شروع ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دیکھ کر بیٹ مین کے چہرے پر حیرت کے آثار نمودار ہوئے ۔ کہنے لگا ’’سر! اب پتہ چلا کہ پانی ایسے گرم ہوتا ہے، میں تو بالٹی کو اینٹوں پر رکھتا تھا اور راڈ کو اینٹوں کے درمیان فرش پر رکھ کر سوئچ آن کر دیتا تھا جس سے راڈ پھٹ جاتا تھا۔‘‘ بیٹ مین کی بات سن کر ہم اس کی سادگی پر سوائے مسکرانے اور جھنجھلانے کے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply