• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس اور وزیر خارجہ کا خطاب۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس اور وزیر خارجہ کا خطاب۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیائی پالیسی،اور پاکستان کے خلاف جارحانہ بیان کے بعد پاکستان دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے جبکہ غیر جانبدار تجزیہ کار امریکہ کے اس رویے پر حیرت افروز ہیں کہ وہ ملک جس کی دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں ہیں،اورجو خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے، وہ کس طرح دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی پشت بانی کر سکتا ہے۔پاکستان چونکہ گذشتہ چار برسوں سے کسی وزیر خارجہ کے بغیر ہی صرف ایک عمر رسیدہ مشیر خارجہ کے ذریعے سے اپنے معاملات عالمی برادری سے چلا رہا تھا، سو اسے بھی پاکستانی کی ایک سفارتی کمزوری اورپسپائی تصور کیا جا رہا ہے، جس کے باعث دنیا کو پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کا موقع ملا۔
یاد رہے کہ دنیا کے بدلتے رویے ،بالخصوص امریکی صدر کے جارحانہ انداز اور دیگر علاقائی وبین الاقوامی ممالک سے تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کواجاگر کرنے کے لیے حکومت نے دنیا کے اہم ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کی ایک تین روزہ کانفرنس اسلام آباد میں بلائی تھی جس کا اختتامی سیشن وزیر خارجہ کے خطاب پر منتج ہوا۔اسلام آباد میں ہونے وا لی پاکستانی سفراء کی تین روزہ کانفرنس، میں خارجہ پالیسی سے متعلق اہم معاملات پر غور کیا گیاہے۔کانفرنس میں امریکا، روس، چین، سعودی عرب ،قطر، افغانستان، ایران اور بھارت سمیت مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفیر شریک ہوئے۔کانفرنس کے شرکا نے جغرافیائی سیاسی اور علاقائی صورتحال کے تناظر میں خارجہ پالیسی کی اہمیت اور اس میں مزید بہتری کے امکانات کا جائزہ لیا۔ یاد رہے کہ ابتدائی سیشن میں امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے شرکا، کو امریکی پالیسی پر بریفنگ دی اور تجاویز بھی طلب کی تھیں۔کانفرنس کے شرکاء نے پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق امریکی الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کیے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے جبکہ افغان مفاہمتی عمل کے لیے سیاسی طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔شرکاء نے امریکا کی جانب سے افغانستان میں بھارت کو کردار دینے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتامی سیشن کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات ختم نہیں ہوئے لیکن دونوں ملکوں کے روابط کو ملکی مفادات کی نظر سے دیکھا جائے گا جبکہ اب امریکا پر پاکستان کا انحصار کم ہوگیا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان، امریکا سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو باہمی احترام پر مبنی دیکھنا چاہتا ہے۔خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک خود دار قوم ہے، اسے قربانی کا بکرا نہیں بننے دیں گے اور اس سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں بہت تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور ہمیں بھی پاکستان کے لیے دنیا کے رویے کو تبدیل کرنا ہوگا۔عالمی دہشت گردی کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ صرف پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کی۔
انہوں نے واضح پیغام دیا کہ پاکستانی عوام، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہیں۔وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہم نے کھویا ہی ہے پایا کچھ نہیں، اب ہمیں بھی نئی اور درست سمت کا تعین کرنا ہوگا۔یہ امر واقعی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اپنا، معاشرتی، معاشی اور جانی نقصان کیا ہے۔ مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا پاکستان کے کردار کو اس طرح تسلیم نہیں کر پا رہی جس طرح کا کردار پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں، ادا کرتا آ رہا ہے۔ابھی حال ہی میں دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم برکس نے بھی خطے، اور عالمی امن کے لیے خطرہ بنی جن تنظیموں کا اپنے اعلامیےمیں ذکر کیا ان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد بھی شامل ہیں۔ یوں امریکہ کے بعد برکس اعلامیہ میں بھی پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار پر شک کرنا لا محالہ ہماری سفارتی ناکامی ہی ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ اب دنیا ڈو مور کرے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سفیروں کی موجودہ کانفرنس میں نئی سفارتی حکمت عملی طے کر لی گئی ہو گی، اور جمعہ کو وزیر خارجہ چین کے ہنگامی دورے پر بھی جا رہے ہیں، جہاں وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی پالیسیوں اور قربانیوں پر دوست ملک کو اعتماد میں لیں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply