مکالمہ کانفرنس کا کامیاب انعقاد

مکالمہ کانفرنس کا کامیاب انعقاد
طاہر یاسین طاہر
دنیا کا دستور یہی ہے کہ باہم مکالمہ کیا جائے،جو قومیں ،معاشرے اور ممالک مکالمے کے بجائے مباحثے،مناظرے اور اضداد و انا کے خول میں بند ہو جاتے ہیں ان کا مقدر دائمی حسرت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔انسان کی اولین ضرورتوں میں سے ایک مکالمہ بھی ہے۔انسان نے جب باہمی رابطوں کے لیے طریقے تلاش کیے تو ان طریقوں کے نتیجے میں جو توانا اور زندہ چیز سامنے آئی وہ مکالمہ ہی ہے۔ اسی رویے سے معاشروں اور قوموں کو دوام ہے۔انسانیت نام ہے ایک دوسرے کے جذبات اور افکار کے احترام کا۔ اگر مکالمہ نہ ہوتو معاشروں اور تہذیبوں کا ارتقائی سفر ہی رک جائے۔دنیا کی خونخوار ترین جنگوں کی شروعات تو مباحثے اور ہٹ دھرمی سے ہوتی ہیں مگر ان کا انجام بالآخر مکالمہ ہی ہے۔
ہر معاشرے کی ذہنی استعداد وہاں کے مخصوص حالات کی آئینہ دار بھی ہوتی ہے۔ہمارے ہاں البتہ گروہی تعصبات توانا ہیں،اس پس منظر میں ہمارے معاشرے اور نئی نسل کو گروہی اور سطحی رویوں کے بجائے باہم مکالمہ اور سوشل رویوں کی زیادہ ضرورت ہے۔اسی ضروت کو دیکھتے ہوئے بیرسٹر انعام رانا نے اپنی توانا اور ذہین ٹیم کے ساتھ مکالمہ ویب سائٹ کا اجرا کیا،حیرت انگیز طور پر اس ویب سائٹ نے کم عرصہ میں زیادہ ترقی کی اور نئے رحجانات متعارف کروائے۔ یہ سائٹ ابھی تک نہ تو کسی فرقے کی ترجمان بنی،نہ کسی مذہبی و لسانی یا صوبائی تعصب کی گرد سے آلودہ ہوئی۔اس سائٹ کا مثبت پہلو یہی ہے کہ اس نے معاشرے کے تمام بالغ فکر افراد کو متاثر کیا۔محققین،علما،ڈاکٹرز،پروفیسرز اور نامور صحافی اس سائٹ کے لیے لکھتے ہیں اور ہر موضوع پہ مکالمہ کیا جاتا ہے۔خود کو ترقی پسند کہنے والے بھی اسی جگہ” خیمہ زن “ہو رہے ہیں ،تو دائیں بازو والوں کی “مکالمہ گاہ “بھی یہی ہے۔سائٹ کے چیف ایگزیکٹو نے جب معاشرے کے بیدار مغز اور صاحب الرائے افراد کو اپنی جانب متوجہ دیکھا تو اپنی ایڈیٹوریل ٹیم کے سامنے یہ خیال رکھا کہ کیونکہ مکالمہ کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ اس خیال کو پذیرائی ملی اور تاریخ و جگہ طے پا گئی۔بیرسٹر انعام رانا اس کانفرنس کی میزبانی کرنے لندن سے سیدھے لاہور سدھارے،جبکہ ان کی آمد سے پہلے،مکالمہ کی ایگزیکٹو باڈی اور ایڈیٹوریل ٹیم انتظامات کو قریب قریب حتمی شکل دے چکی تھی۔
قذافی سٹیڈیم لاہور کے پنجابی کمپلیکس میں 17 دسمبر کی سہ پہر دو بجے سے کچھ دیر بعد کانفرنس کا آغاز ہوا۔ حیرت انگیز طور پر کانفرنس ہال صاحبانِ ہنر سے بھرا ہوا تھا،حالانکہ کسی ویب سائٹ کی طرف سے کسی مکالمے،یا سیمینار کا انعقاد کم از کم ہمارے معاشرے کا رواج بالکل نہیں۔ کیونکہ ہم جدید دور کی ضروریات ،تعلیمات اور تفکرات سے قدرے آزاد معاشرہ ہیں۔ہمارے ہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ہی دھوم مچائی ہوئی ہے۔مگر مکالمہ ٹیم کی محنت رنگ لائی اور معاشرےکی اثر پذیر اور قابل تعظیم شخصیات نے مکالمہ کانفرنس سے خطاب کیا۔ژاں سارتر اور عائشہ اذان نے اس کانفرنس کی سٹیج میزبانی کا فریضہ عمدگی سے ادا کیا۔ڈاکٹر شہباز منج،مفتی زاہد،معروف مذہبی سکالر اور اینکر پرسن سید بلال قطب،سینئیر کالم نگار و دانش ور عامر خاکوانی،پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی سمیت ترقی پسند دانشور خالد محمود نے بھی مکالمہ کانفرنس سے خطاب کیا ،مقررین نے معاشرے میں مکالمہ،سوال،اور برداشت کو گفتگو کا مرکز بنایا۔مکالمہ کانفرنس کے شرکا نے دانشوروں کی گفتگو کو بے حد سراہا۔کانفرنس کے دوسرے سیشن میں،انٹرویو اور حاضرین کے سوال و جواب ہوئے، سوشل میڈیا کے بند ڈبے میں گفتگو کرنے والے آمنے سامنے مکالمہ کرتے ہر آنکھ اور دل کو بھا رہے تھے،آخری سیشن میں مکالمہ کانفرنس کے روح رواں اور سائٹ کے چیف ایگزیکٹو بیرسٹر انعام رانا نے اپنی ایڈیٹوریل ٹیم اور ایگزیکٹو ممبرز کا کشادہ دلی سے تعارف کرایا اور سائٹ کی کامیابیوں کو ٹیم ورک قرار دیا،ان کے اس رویے نے جہاں ٹیم میں نیا ولولہ پیدا کیا وہاں حاضرین نے بھی دل کھول کر مکالمہ ٹیم اور بیرسٹرانعام رانا کو داد دی۔اس کانفرنس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی سٹیشن میں آن لائن “مکالمہ کانفرنس” دیکھنے والوں نے اصرار کیا کہ ایسی ہی مکالمہ کانفرنس کراچی میں بھی کی جائے اور اب انشا اللہ25دسمبر کو کراچی میں مکالمہ کانفرنس ہو گی۔
یہ پاکستان میں کسی بھی سائٹ یا تنظیم کا کم ترین عرصے میں دو بڑے شہروں میں علمی سیمینارز کرانے کا ایک ریکارڈ بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مکالمہ ہی کی طرح معروف ویب سائٹس کے ایڈیٹوریل بورڈز کو بھی معاشرے میں ایسی مثبت سرگرمیوں کے فروغ کے لیے مکالمہ کا حصہ بننا چاہیے۔معاشرےکا جو بھی فرد،فتویٰ بازی اور مناظرے کے بجائے مکالمے پر یقین رکھتا ہے اسے اپنے اس یقین کے فروغ کے لیے عملی طور پر کام کرنا چاہیے۔ ہم بے شک زندہ معاشرے کے اہل درد انسان ہیں، ہمیں انسانیت کی عملی خدمت کے لیے ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیے۔ بے شک مکالمہ ٹیم سماج میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply