دانش گردوں کی خود لذتی

 گاؤں میں ہمارےایک رشتہ دار ہوا کرتے تھے۔ کمزور صحت،بڑھی ہوئی شیو اور دُبلی پتلی جسامت لیے ہوئے۔نام نہیں لوں گاُ،کہ کافی سارے رشتہ دار ایڈ ہیں ساتھ۔پرچلیں اسے صدیقی ماما کا نام دے دیتے ہیں۔ ہر وقت غوروفکر اور سوچوں و خیالوں میں غلطاں و پیچاں رہنےوالے۔۔۔۔ جیسے ساری دنیا کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہو۔ اگر موصوف کو سلام کرتے،تو جواب پانچ منٹ بعد ملتا تھا۔ دانش گرد صدیقی کٹر مارکسسٹ تھے۔ داس کیپٹل اُن کو ازبر تھی گویا۔ ہر بات یا حوالے میں مارکس کو ضرور شامل کرتے تھے۔

ایک دن جُمعہ کے خطبہ میں مولانا صاحب زکوٰۃ کے بارے میں وعظ فرما رہے تھے۔ یہ جھٹ سے مسجد میں داخل ہوگئے،اور وعظ کے بیچ اعلان فرما دیا،کہ اگر مارکس کی تعلیمات کو آپ لوگوں نے پڑھا اور سمجھاہوتا،تو آج پورا گاؤں مُسلمان ہو چُکا ہوتا۔ شکر ہے کہ اس وقت پشتون سیکولر تھے زیادہ سے زیادہ موصُوف کا مسجد میں داخلہ بند ہوگیا۔ حجروں میں تو پہلے ہی بند ہوچکا تھا۔ کابل کے سابقہ پرچمی اور خلقی لوگوں سے روابط بڑھائے۔کہ خوشال کاکاجی کے نام چندہ مل جائے۔مگر دروغ بہ گردن راوی خوشال کاکاجی کا پوتا سارا چندہ غائب کرگیا۔

موصوف کو نظریاتی جھٹکا نظریات کے ہی منبع سے لگ گیا۔سو کنفیوزڈ ہوگئے۔ لوگوں کے طعنے تھے۔جو بڑھتے ہی چلےجارہے تھے۔بالآخر ان کے بڑے بھائی نے اس کی شادی کروا دی۔ دو سال تک بیگم خودکشی کی حد تک لانے والی جیسی فاقہ کشی والی زندگی برداشت کرتی رہی۔بالآخر فرموداتِ مارکس سے تنگ آکر باپ کے گھر بیٹھ گئی۔ اور بات طلاق تک جاپہنچی۔ مگر بدقسمتی یا خوش قسمتی سے طلاق کی چڑیا مارکس کے سر پر آکر بیٹھ گئی۔اور بالآخر مارکس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

آج آلحمداللہ موصوف صوم و صلوٰۃ کا پابند اور سرمایہ دارانہ نظام کا زبردست حامی ہے۔ گھر پر لہراتا سیاسی جھنڈا سال کے چار موسموں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور آج کل جمعیت کا جھنڈا لہلہا رہا ہے۔ سُنا ہے،ضلعی زکوٰۃ کمیٹی کا ممبر بھی ہے  اور روزانہ سفید عمامہ سر پر باندھ کر 660  سی سی کی گاڑی میں غریبوں کو ڈھونڈنے نکل جاتا ہے۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ اتنی بڑا تغیر کیسے وقوع پذیر ہوا،تو نمناک آنکھوں سے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ۔۔۔ “سب اُوپر والے کا کرم ہے”.

Advertisements
julia rana solicitors london

تو قارئین اس کہانی کو نیچے سے اُوپر کی طرف پڑھ لیں۔۔کہ کتنے دانش گرد جامعہ بنوریہ سے نکل کر پیٹ کی خاطر دوسروں کے نظریات آپ پر ٹھونستے ہوئے معاشرتی مشت زنی میں پیش پیش ہیں۔ اور آج ہمیں لبرل ازم کے ساتھ ساتھ دین و ملت کا اصل چہرہ بتا، دکھا اور سکھا رہے ہیں،اور سیاست پر بھی پیشن گوئیاں فرما رہے ہیں۔یقیناً مُجھے نام لینے کی ضرورت نہیں۔ ان سے کہو ذرا اپنا میٹرک کا سرٹیفکیٹ تو دکھا دیں۔ دس کلو وزنی سر میں چھٹانک بھر دماغ بھی اللہ کی  دین ہے ۔ سو اسے استعمال کرنے کی تکلیف کرلیجئیے گا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دانش گردوں کی خود لذتی

Leave a Reply