“سیاسی کلچر اور ریاستی بے توقیری”

سیاسی کلچر کسی بھی ریاست میں پائے جانے والے ان اعتقادات، احساسات، اور سیاسی رویوں کے مجمو عے کا نام ہے جو ریاست میں (کسی بھی ) نظام کو متشکل کرنے کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہ مبنی بر بقاے باہمی، مفاہمت، اور برداشت بھی ہو سکتا ہے جو اپنی ہیئت میں مجموعی قومی مفاد کا متقاضی ہوا کرتا ہے، جبکہ اپنی دوسری شکل میں اس کی اساس دھوکہ دہی فریب کاری، تصادم ، عدم تعاون، اور مکاری پر بھی قائم ہو سکتی ہے جو اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد کا محکوم بنانے پر منتج ہوتا ہے۔

پاکستاں میں مؤ خرالذکرکلچر متوارث چلا آ رہا ہے جو قومی سیاست میں طاقت کے حریص لوگوں کو اپنے اندر سمو ئے ہوے ہے جو شخصی طاقت کے ارتکاز اور مفاد خویش کو ہی مطمع نظر سمجھتے ہیں۔ سیاست میں مروجہ اس روش نے وطن عزیز کو نظریات کا قبرستان بنا کر رکھ دیا ہے اور نظام سے منسلک لوگ ہر منفی رویے کو سیاست کا نام دے کر قانونی جواز تراشتے دکھائی دیتے ہیں۔ میکیاولی کے پیروکار رسہ کشی اور اپنی پر فریب چالوں سے اپنے سیاسی حریفوں کو مات دینے کے لئے ریاستی ڈھانچے کے بخیے ا د ھیڑ نے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اپنے ذاتی مفاد کو آگے بڑھانے کے لئے ریاستی طاقت استمال کرنے کے خواھشمند یہ “اکابرین قوم” کسی سیاسی اخلاقی ضابطے کو مانتے دکھائی نہیں دیتے، پیش پا افتادہ مفادات کے حصول میں ہمہ وقت جتے چشم کور اعلی سیاسی قدروں “احساس جوابدہی” اور “احساس ذمہ داری” سے بھی نا بلد دکھائی دیتے ہیں جو جمہوریت کے ستون ہوتے ہیں۔

مسند اقتدار پر فائز ہونے کے بعد قومی قیادت یہی رونے جب باہر کی دنیا کے ساتھ روا رکھنے کوشش کرتی ہے جس میں قومی مفاد کے حصول جیسی مقصدیت کم اور مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف پوا ئنٹ سکورنگ کا عنصر زیاده پیش نظر ہوتا ہے تو ریاست اور قوم کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

حالیه دنوں میں چار واقعات ا یسے ہوئے جنہوں نے ہمارے سیاسی کلچر کو (جو consensual نہیں conflictual ہے) بری طرح بے نقاب کر دیا۔

پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستاں میاں محمد نواز شریف کے دفتر کی طرف سے منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کی جانے والی ٹیلفونک گفتگو کو پانامہ کرپشن سکینڈل کے تناظر میں شریف خاندان پر آنے والے شدید دباؤ کو کم کرنے کی سعی لا حاصل کےطور پر استعمال کیا گیا. لیکن … نا شد! ڈونلڈ ٹرمپ کے عملے کی جانب سے آنے والے وضاحتی بیان کے بعد حکومت کو چپ سادھنا پڑی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیراعظم نواز شریف کی توصیف اور توثیق سے وزیر اعظم صاحب کی ساکھ پر کوئی مثبت اثر تو نہ پڑا کیونکه پانامہ سکینڈل کی بازگشت ابھی کم نہیں ہوئی تھی، ہاں پاکستان کی شہرت پر منفی اثر ضرور ہوا۔

ہمارے کئی وزرا خزانہ بھی اس معاملے میں شعبدہ باز واقع ہوے ہیں، وہ سابقه حکومتوں سے اپنی حکومت کو ممتاز کرنے کے چکر میں یا پھر اپوزیشن جما عتوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کے لئے بین الاقوامی امداد دہنده اداروں کے سامنے معاشی نمو کی شرح اور اعشارئیے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، لیکن دروغ گوؤں کے دروغ کی قلعی جلدی کھل جاتی ہے، جعلی اعداد و شمار سے حکومتی وزرا کو تو شاید پارٹی کی طرف سے داد و تحسین ملتی ہو لیکن باہر کی دنیا میں وطن عزیز کے وقار کو ضرور ٹھیس پہنچتی ہے۔

قریباً تین ہفتے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی ایک کارکن سمیعہ چودھری چمبہ ہاؤس لاھور میں مرده پائی گئیں۔ ابتدائی تفتیش سے منکشف ہوا کہ کوکین کا زیاده مقدار میں استعمال موصوفہ کی موت کا باعث بنا۔ ٹی وی اور اخباری نمائندوں کے ساتھ گفتگو میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ جب یہ حقائق سامنے لے کر آئے تو ساتھ ہی موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے سیاسی حریف پاکستان تحریک اںصاف کے چئیرمین عمران خان پر بھی سنگ زنی کرتے ہوئے کہا کہ اس فرانزک رپورٹ کی ایک نقل عمران خان کو بھی بھیجی جاے گی…. چہ معنی دارد .. اشاره کافی ہے صاحب دانش کو؟

ہمارے سیاسی کلچر کی تازه ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب وزیر اعظم کے وکیل کا زیر سماعت پانامہ کیس کی جرح کے دوران عدالت عالیه کے معزز جج صاحبان کے رو برو بیان آیا کہ "وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے ایوان میں جو کچھ بھی کہا تھا ا س کی حیثیت محض ایک سیاسی تقریر سے زیاده نہ تھی". قول و فعل میں یہ تفاوت طمانچہ ہے کروڑوں پاکستانیوں کے منہ پر جو اپنے اعتماد کی امانت ان کے سپرد کر کے قانون سازی کے لیے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں ۔ کیا یہی ہے ہمارے سیاسی اکابرین کے نزدیک سیاست، جو پر فریب حیلہ سازی، عدم تعاون، تصادم، دغا، اور دھوکے جیسی "اعلی اخلاقیات" سے اپنے وجود کی سیاہی لیتی ہے اور جس کے نتیجے میں سیاست نام ره جاتا ہے حکومتیں بنانے کا، اپنی ذاتی طاقت بڑھانے کے لئے ریاستی اداروں کے استعمال کی دوڑ کا، اور اپنے سیاسی حریفوں کو مستقل پیچھے دھکیلنے کا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سوچ اور طرز سیاست کو بدلنے کی ضرورت ہے وگرنه اس کلچر کے پروان چڑھے لوگوں کے ہاتھوں میں جب بھی زمام اقتدار آئے گی تو قومی مفاد ذاتی مفاد کے تابع چلا جائے گا، شناخت کے بحران کا شکار مزید سنگین شکل اختیار کرے گا، ہمارا نوجوان ملک اور اس کے اداروں سے مایوس ہوگا، قوموں کی برادری میں تنہائی وطن عزیز کا مقدر ٹھہرے گی، اور دھرتی نظریات کا مدفن ثابت ہوگی۔

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply