• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اردو ادب کے ہمہ جہت ا سکالر کی رخصتی۔۔سعدیہ قریشی

اردو ادب کے ہمہ جہت ا سکالر کی رخصتی۔۔سعدیہ قریشی

امریکی ریاست کیرولینا میں گوپی چند نارنگ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں۔ گوپی چند نارنگ کی وفات کی خبر اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں نہایت افسوس کے ساتھ سنی گئی وہ عہد حاضر میں اردو ادب میں تحقیق اور تنقید کا سب سے ممتاز اور معتبر حوالہ تھے۔وہ ماہرلسانیات تھے دنیاکی کئی جامعات میں اردو ادب کے وزیٹنگ پروفیسر تھے جامعہ ملیہ دہلی کے پروفیسر امریٹس کا درجہ حاصل کر چکے تھے ۔ گوپی چند نارنگ نے صحیح معنوں میں اپنی زندگی اردو کے عشق میں گزار دی۔ اردو کے عاشق صادق کی رخصتی پر تعزیت کے لیے محترم افتخار عارف سے بہتر کون ہوسکتا ہے ۔گوپی چند نارنگ کا برسوں پرانا تعلق تھا، اس زمانے کا جب وہ برطانیہ میں اردو مرکز لندن میں تقریبات منعقد کرتے تھے تو گوپی چند نارنگ ان تقریبات کا حصہ بنتے۔ اردو ادب کے کے دامن کو اپنے شاندار کام سے ثروتمند کرنے والے گوپی چند نارنگ کی وفات پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے ،ان کی علمی وتحقیقی خدمات کا احاطہ کا کسی ایک کالم میں کیا کسی ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں۔ان کی علمی اور ادبی خدمات پر مضامین شائع ہو رہے ہیں مگر میں ان کی شخصیت کو کسی اور حوالے سے جاننا چاہ رہی تھی سو جناب افتخار عارف سب سے گزارش کی کی کچھ ان کی شخصیت پر روشنی ڈالیں۔ افتخار عارف اپنے دوست کی وفات پر فطر ی طور پر اداس تھے کہنے لگے ۔” چند ہی مہینوں کے وقفے سے برصغیر کی اردو تنقید کا طبقہ اول خالی ہوگیا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے تین بہت بڑے آدمی چلے گئے۔شمس الرحمٰن فاروقی شمیم حنفی اور گوپی چند نارنگ بھی چل بسے ۔نارنگ کا جانا اردو ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ میرا تو ان سے بہت پرانا تعلق تھا، میری پہلی کتاب مہردونیم میں ان کا مضمون ہندوستان میں میرے تعارف کا باعث بنا۔ ا بھی ایک ہفتہ پہلے ان سے فون پر بات ہوئی وہ بیمار تھے ،اسپتال سے آئے کچھ بہتر ہوئے تو اپنی کتاب کے کام میں مصروف ہوگئے بیماری اور کمزوری کے باوجود انہیں اپنے کام کی فکر تھی۔وہ فیض کی شاعری پر کوئی کام کررہے تھے ،انہیں حقوق اشاعت کے سلسلے میں کام تھا ۔منیزہ ہاشمی سے کاپی رائٹ کے کاغذات چاہیں تھے۔ میں نے منیزہ ہاشمی سے بات کی انہوں جوابی ای میل بھی کردی فورا ہی وہ کام ہو گیا۔ لیکن ایک ہفتے کے بعد ہی نارنگ کے جانے کی خبر آگئی ۔ میں حیران ہوا کہ ہسپتال سے آیا ہے طبیعت خراب ہے مگر اس کو اپنے کام کی لگن ایسی ہے کہ بیماری میں بس یہی فکر تھی نارنگ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ (محترم افتخار دوستانہ بے تکلفی میں کبھی گوپی چند نارنگ کا تذکرہ نارنگ ہی کہ کر کرتے رہے ) “آپ کی تو ان سے بہت ملاقاتیں رہیں جب اردو مرکز لندن میں وہ آیا کرتے تھے اس زمانے میں آپ کے گھر میں بھی قیام ہوتا تھا ان کے بارے میں کچھ بتائیے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کئی جہتوں میں گزاری کیسی بھر پور گذاری۔ یونیورسٹی میں پروفیسری ساہتیہ اکادمی کی صدارت پھر وقت اردو ادب سے متعلق تحقیق اور تدوین کے کاموں کی مصروفیت ان کا ہر کام وقیع اور سنجیدہ نوعیت کا ہے۔پھر ان کی ایک پبلک لائف تھی اور تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔ اردو کے سفیر کی حیثیت سے دنیا بھر میں اردو ادب سے متعلقہ تقریبات میں بطور خاص بلائے جاتے اتنی مصروفیات کے باوجود 64 کتابوں کے مصنف تھے کچھ کتابیں اردو میں ہیں کچھ انگریزی میں کچھ کتابیں ہندی میں بھی مرتب کیں۔آپ کو ان کے شب و روز قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کچھ اس پر روشنی ڈالئے۔؟” “میں جب برطانیہ میں تھا تو نارنگ جب برطانیہ آتے اپنی بیگم اور بچوں کے ہمراہ میرے گھر میں قیام فرماتے اور میں جب دلی گیا تو مجھے ان کے مہمان بننے کا شرف بھی حاصل ہوا وہ بہت ہی منظم زندگی گزارتے تھے۔جب میرے ہاں ٹھہرتے تھے تو میں خود دیکھا کہ رات رات بھر کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔دن میں بھی ان کا پورا وقت لائبریریوں اور کتابخانوں میں گزرتا تھا۔وہ اپنے کام کو بہت سنجیدہ لیتے تھے چھوٹی چھوٹی تقریبات کے لیے اتنی سنجیدگی سے تیاری کرتے کئی کتابیں پڑھتے ریفرنس لکھتے۔ان کے ساتھ کی بڑی یادیں ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک روز میں نماز کے وقت اٹھا ہوں۔دیکھا ڈرائنگ روم کی بتی جل رہی ہے نارنگ صاحب پاجامہ قمیض پہنے ہوئے فرش پر بیٹھے کتابیں پڑھ رہے ہیں۔۔بیڈ روم میں ان کی بیگم اور بیٹا سو رہے تھے تو اس لیے بتی نہیں جلائی کہ وہ ڈسٹرب نہ ہو ں۔وہ ہمہ وقت علمی کاموں میں مصروف رہتے تھے بے حد منظم تھے انہوں نے موضوع کے اعتبار سے الگ الگ فائلیں بنا رکھی تھیں۔ میر انیس کی شاعری پر انہوں نے جس طرح کا کام کیا اس سے پہلے ہوا نہ اس کے بعد آئے گا۔ کربلا کا شعری استعارہ ان کی ایسی کتاب ہے جس سے پہلے نہ لکھی گئی نا اب کوئی لکھے گا۔ امیر خسرو سے لے کر غالب تک اور غالب سے لے کر جدید دور کے جدید دور کے شعرا تک ان کا تنقیدی کام موجود ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے پاکستان میں اردو ادب کے ارتقا پر انہوں نے گہری نظر رکھی تعلقات کی کشیدگی کے باوجود انہوں نے پاکستان میں اردو ادب کی ترویج کو ہمیشہ سراہا۔میں نے 50 سال کا زیادہ عرصہ ادبی اداروں میں گزارا ہے میں یہ کہتا ہوں کہ گوپی چند نارنگ سے اچھی گفتگو کرنے والے میں نے بہت کم کسی کو دیکھا ہے۔ مطالعہ کی وسعت اور طلاقت لسانی ان کی گفتگو میں ایسا حسن پیدا کرتی دور دور کا تک ان کا کوئی ثانی دکھائی دیتا سن کاجانا اردو کو بہت بڑا نقصان ہے۔ اردو ادب کے صف اول کے ہمہ جہت سکالر گوپی چند نارنگ کے حوالے سے کئی باتیں ہوئی مگر کالم میں یہی کچھ سما سکا باقی باتیں پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply