ایک ماں کا بیرنگ خط

سنو !
میں ہمیشہ تمہیں کہتی تھی نا کہ ناشتہ ختم کر کے گھر سے نکلا کرو پر تم میری بات کبھی نہیں مانتے اب دیکھو تمارا چائے کا آدھا بچا کپ ابھی تک کچن میں رکھا ہے دو سال ہونے کو آئے یہ ویسے ہی پڑا جسے تم چھوڑ کر گئے تھے۔ پہلے اس پر پپڑی جمی پھرآہستہ آہستہ پھپھوندی نے پوری چائے کو نگل لیا اب تو بس پیندے میں اک چاند سا نشان باقی رہ گیا ہے۔ جو آدھی روٹی تم چھوڑ کر گئے تھے وہ اب سوکھ کر اک نوالہ ہو گئی ہے کبھی اس میں سے اک چٹکی توڑ کر میں اپنے منہ میں ڈال لیتی ہوں ،جیسا ہمیشہ تمھارے جانے کے بعد کرتی تھی پر اب تھوڑی کنجوسی کرتی ہوں ۔ڈر ہے کہیں یہ ختم ہی نہ ہو جائے تمہارے کمرے کی بیڈ شیٹ ، سائیڈ ٹیبل پر اوندھی رکھی کتاب اور وہ بے ترتیب کمبل سب ایسے ہی رکھا ہے ۔میں تو بس مٹی جھاڑتی ہوں تمہارے کمرے کی چیزوں سے۔ سوچا ہے جب تم آو گے تو دوبارہ پینٹ کرواؤں گی اور ہاں تمہارے جانے کے بعد تمہارا ہرا سویٹر گھر آیا تھا وہ جو اس میں چار چھید ہیں نا وہ میں سارا سال بنتی ہوں پر وہ ویسے کے ویسے ہی ہیں-
جتنا بنتی ہوں وہ اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں- کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتی – تمہارے جوتے بہت تلاش کیے وہ نہیں ملے- گئی تھی تمارے اسکول ڈھونڈنے پر وہاں ایک ڈھیر تھا جوتوں کا شائد بھیڑ میں کہیں کھو گئے اور ہاں سویٹر کے ساتھ تمہارا اسکول یونیفارم بھی آیا تھا ایک بڑا لال نشان تھا تمہاری شرٹ پر ، رکھی ہے ابھی تک تماری الماری میں جب تم آو گے تو تم سے پوچھوں گی بلکہ ڈانٹوں گی تمیں پتا ہے نا ایسے داغ کبھی نہیں جاتے ۔شرٹ ہی نئی لینی پڑتی ہے — خیر تمھاری تو ازل سے یہ عادت ہے ہمیشہ شرٹ پر داغ لگا کر لاتے ہو پر اب مجھے لگتا ہے یہ داغ نہیں جائے گا کبھی پچھلے دو سال سے آنکھوں میں بہت تکلیف ہے ۔پانی بہت بہتا ہے پر میں پھر بھی تمہاری کتابیں نکال کر پڑھتی ہوں اور پھر انھیں ترتیب سے دوبارہ تمارے اسکول بیگ میں لگا دیتی ہوں، آخری بار جب تمہارا بیگ اسکول سے آیا تھا تو تمہاری کتابیں بہت بے ترتیب تھیں، اور بیگ میں سے بھی عجیب بو آ رہی تھی جو کتابوں کاپیوں کی معمول کی خوشبو سے الگ تھی کچھ بارود جیسی ،پر بارود سے تمھارا کیا کام – کئی دن تک تمھارے بیگ کو دھوپ میں رکھا پر وہ بو نہیں گئی اس سال گرمیوں کی دھوپ میں چھت پر رکھوں گی چھت سے یاد آیا — چھت پر رکھا پنجرہ اب خالی ہے پرندے میں نے اڑا دیے ہیں تمیں تو پتا ہے مجھے پرندے آزاد پسند ہیں، ہوا میں اڑتے اپنے گھروں کو جاتے –
کیا خبر تم بھی اسی طرح کبھی گھر کوآو – گھر آنے سے یاد آیا پچھلے سال کی طرح آج بھی تمارے بابا تمارے اسکول گئے ہیں جو بچے ابھی تک گھر نہیں آئے انکے لئے کوئی تقریب تھی پر میں گھر پر ہی ہوں- پچھلے سال گئی تھی میں بھی،- پر وہاں جا کر یوں لگتا ہے جسے یہ بچے کبھی گھرواپس ہی نہیں آئیں گے اسی لئے میں اس سال گئی ہی نہیں پتہ نہیں کیوں وہاں جا کر دل اداس سا ہو جاتا ہے اور ویسے بھی کیا خبر میں وہاں ہوں اور پیچھے سے تم آ جاؤ تو ایسے میں گھر پر کسی کا ہونا تو ضروری ہے نا؟ میں پچھلے سال تمہیں لکھ نہیں سکی اس سال سوچا لکھ کر تم سے بات کر لوں شاید تم تک میری بات پہنچ جائے
آج پھر سولہ دسمبر ہے آج کے دن میں ٹی وی کم ہی دیکھتی ہوں ویسے بھی کم ہی دیکھتی ہوں پر آج کے دن تو بلکل ہی نہیں دیکھتی- سارا دن تماری تصویر دکھاتے ہیں یہ موے ٹی- وی والے کہتے ہیں تم شہید ہو شہید کیسے ہو گئے تم تمہیں کون سا میں نے کسی جنگ پہ بیھجا تھا جو تم شہید ہوے تمیں میں نے اسکول بیجھا تھا اسکول جانے والے کیسے شہید ہو گئے؟ مجھے تو اتنا پتا ہےبس کہ تم اسکول گئے اور پھر گھر واپس نہیں آئے – خط لکھ رہی ہوں کہ شائد تم تک پہنچ جائے اور تم لوٹ آؤ
فقط
تمہاری ماں

Facebook Comments

عدیل احمد عامر
عدیل احمد عامر پندرہ سالوں سے پاکستانی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہیں- ایف –سی کالج میں جرنلزم پڑھاتے ہیں اور میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں - لکھنے لکھانے کو کتھارسس کا ذریعہ سمجھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply