سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ اور نیشنل ایکشن پلان

سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ اور نیشنل ایکشن پلان
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد حکومت ،سول و عسکری اعلیٰ عہدیداران دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا بیان جاری کرتے ہیں،مگر یہ امر بھی سچ ہے کہ ضرب عضب کی ابھی تک کی کامیابیوں کے باوجود ہم ریاستی سطح پر دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیاں سمیٹنے میں ناکام ہوئے ہیں، جس کی بنیادی وجہ سول حکومت کی دہشت گردوں اور ان کے سر پرستوں یعنی کالعدم تنظیموں کے حوالے سے دوغلی پالیسی ہے۔یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جس ملک کی فوج دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں ہو اسی ملک کی حکومت کا وزیر داخلہ کالعدم تنظیموں کے سربراہوں سے دارالحکومت میں ملاقاتیں بھی کر رہا ہو۔ پشاور و کراچی اور پورے ملک سمیت کوئٹہ بھی دہشت گردوں کے خاص نشانے پر ہے۔سول حکومت کن کن کمزوریوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور اسے دہشت گردی کے خلاف کیا اقدامات اٹھانے چاہیے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے ایک رکنی کمیشن نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد جو رپورٹ مرتب کی ہے اور حکومت کے لیے جو سفارشات ترتیب دی ہیں وہ لائق توجہ ہیں۔
ہمیں یہ امر تسلیم کرنےمیں باک نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو سکا، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹارمنٹ کے فوراً بعد حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمان نے بر ملا کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو ختم کر دیا جائے، ہم سب جانتے ہیں کہ طالبان اور اسی قبیل کے دیگر شدت پسندوں کا ہمدرد کون ہے اور کالعدم جماعتوں کے یہ ہمدرد کیا چاہتے ہیں۔سول حکومت کو اس حوالے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
یاد رہے کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے کے سلسلے میں بنائے گئے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت انسدادِ دہشت گردی کے قانون پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے دہشت گردوں اور اُن کی تنظیموں پر فوری طور پر پابندی عائد کرے۔اگست میں ہونے والے اس خودکش حملے میں 70 افرادجاں بحق ہوئے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ کے کمیشن نے اس واقعے کی تحقیقات کے بعد تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی پر مبنی پروپیگنڈا روکنے میں ناکام رہی ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو مناسب طریقے سے ترتیب دیا جائے اور اس کے اہداف واضح ہوں۔کمیشن نے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی اور تجویز دی کہ نیکٹا کو فعال بنایا جائے۔تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ حکومت شدت پسند تنظیموں کو عوامی اجتماعات کرنے سے روکے اور کالعدم جماعتوں کی فہرست کو وزراتِ داخلہ کی ویب سائٹ، نیکٹا اور تمام صوبوں کو جاری کرے۔
کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست کو عوام کے لیے بھی عام کیا جائےاور اُس میں کی جانے والی تبدیلی سے بھی سب کو آگاہ کیا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا اطلاق تمام سرکاری افراد پر بھی ہو اور اسے صرف کالعدم جماعتوں کے لیے ہی استعمال نہ کیا جائے۔کمیشن نے تجویز دی ہے کہ اس معاملے میں برتی جانے والی ریاکاری کو ختم کیا جائے اور قومی سطح پر رائج پالیسی کو مربوط بنایا جائے، جس کے تحت تمام سرکاری ملازم اپنے فرائض صحیح طریقےسے انجام دیں، نہیں تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2012 میں دہشت گردی کے ایک مقدمے کے فیصلے میں بلوچستان ہائی کورٹ نے حکومتِ پاکستان اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ جامع معلومات پر مبنی ایک ڈیٹا بیس بنایا جائے، جس میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد اور مشتبہ افراد، دہشت گرد تنظیموں کے کوائف اُن میں شامل افراد کی تفصیلات، ہتھیاروں کی تفصیل، وہ کون کون سا دھماکہ خیز مواد استعمال کرتی ہیں اور اُن کے حملے کا طریقہ کار کیا ہے، کی معلومات ہوں۔چار سال گذرنے کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا اور قانون کے تحت بھی تین سال اور نو ماہ گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ نیکٹا کے قانون کے تحت بھی تمام معلومات جمع کر کے اُسے متعلقہ اداروں کو دینا ضروری ہے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔کمیشن نے اپنی تجاویز میں مزید کہا ہے کہ میڈیا بھی اگر دہشت گردوں کے موقف کو نشر کرے تو اُن کے خلاف بھی متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے علاوہ کسی اور دوسرے صوبے میں خطیر اخراجات کے باوجود بھی فورینزک لیبارٹری نہیں بنائی گئی اور تجویز کیا گیا ہے کہ باقی صوبے بھی اسی طرز کی لیبارٹری بنائیں جس کا سربراہ پولیس کے ماتحت نہ ہو۔جائے وقوعہ کو فورینزک معلومات کے لیے پیشہ ورانہ انداز میں محفوظ بنایا جائے اور تحقیقاتی افسر اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو اُس کے خلاف کارروائی کی جائے۔کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت اپنا بیانیہ عام کرے اور اپنی ذمے درایوں کو پورے نہ کرنے والے افراد کا احتساب کیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف نیکٹا کو فعال اور قابل اعتماد ادارہ بنایا جائے بلکہ کالعدم تنظیموں کی فہرست ،ان کے سربراہوں اور پھر نئے نام سے ان کے کام کرنے کی حربوں کی تفصیلات بھی اسی طرح میڈیا میں شائع کی جائیں جس طرح حکومتیں اپنی سیاسی کارناموں کا تذکرہ کرتی ہیں۔عوامی سطح پر یہ شعور دینا بہت ضروری ہے کہ کالعدم تنظیمیں آخر کیوں نئے ناموں کے ساتھ مصروف ہو جاتی ہیں اور ان کا تفہیم دین کیا ہے۔ ابھی تک تو حکومت ان ہی علما سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مدد مانگ رہی ہے جو بجائے خود شدت پسندی کا ماسٹر مائنڈ ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے حقیقی داخلی خطرات اور محرکات کے بارے ریاستی بیانیہ تشکیل دیا جائے ۔ سپریم کورٹ کے یک رکنی کمیشن کی رپورٹ جس کے اہم حصے ہم نے سطور بالا میں درج کیے ہیں،ہمارے قومی مستقبل کے لیے ایک آئینی لائحہ عمل ہے، اس پر عمل کرنا حکومت اور دیگر ذمہ دارا اداروں پر فرض ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply