ساس ،بہو اور بکرا۔۔۔زبیر حسن شیخ

شیفتہ اور بقراط چمن میں بے حد پریشان نظر آئے …. شیفتہ فرما رہے تھے…. چند برسوں سے عید قرباں کا اصل مقصد فوت ہوتا دکھائی دے رہا ہے….. اب اہل ایمان کے نزدیک عید پر قربانی کے معنی اللہ کی خوشنودی کا حصول نہیں رہا…. اب لوگوں میں نمائش کا جذبہ غالب رہتا ہے اور اللہ کی خوشنودی کا کم…اب لوگوں کو عید قرباں پر قربانی کی یہ اہمیت یاد نہیں کہ اس نیکی کا کوئی متبادل نہیں…. لوگ اب حیلے بہانوں اور بخل سے کام لیتے ہیں….. قربانی کے گوشت کی تقسیم میں انصاف نہیں کرتے…. جیسے تیسے قربانی کے جانور کا انتخاب کرتے ہیں اور “تسرالناظرین” کی اصطلاح سے افادہ نہیں کرتے …. جبکہ قربانی کے جانور ایسے ہونے چاہیے کہ جنہیں دیکھ کر پیار آئے، ان سے انسیت ہوجا ئے… جن کی خوبصورتی، جسامت رنگ و روپ دیکھ کر دل عش عش کر اٹھے…اس میں کوئی جسمانی عیب یا کوئی نقص نہ ہو..

پوچھا.. میاں بقراط آپ نے عید قرباں پر قربانی کا کچھ انتظام کیا ہے؟…. اگر کیا ہے تو پھر یاد سے ہمارے حصے میں دستی کا گوشت بھجوانا … بقراط نے کہا، جی ہا ں کل ہی ابا جان کے ساتھ جا کر قربانی کے جانور لے آئے ہیں…فرمایا… چلیے اچھا ہوا بر وقت آسانی سے قربا نی کے جانور خرید لا ئے…. کہا حضور آسانی سے کہاں؟ اس سے پہلے دو روز قبل بی بی جان اور امی جان کے ساتھ بکرا منڈی جانا ہوا تھا…. اس گرانی میں والد صاحب تو قربانی میں حصہ لینے پر بضد تھے، لیکن پتہ نہیں زنانہ میں کیا کھچڑی پکائی گئی کہ پرسوں ہمارے امتحان کی گھڑی آگئی…… شریف آدمی کے لیے اکثر دو جنتوں کے درمیان فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے… ساس بہو کو لے کر جا پہنچے بکرا منڈی… شیفتہ نے بے چینی سے پوچھا پھر وہاں کیا ہوا ؟…ذرا تفصیل سے بتائیے…ایک عرصہ ہوا بکرا منڈی کی سیر کیے…

بقراط نے کہا، حضور ساس بہو اور پھر عید قرباں پر بکرا منڈی….اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یا تو بکرا خریدا جائے گا یا بنایا جائے گا….قربانی تو بہر حال دو بکروں کی ہی ہونی تھی….ہم پیچھے پیچھے اور آگے آگے دو دو جنتیں، بس دونوں کے نقش پا پکڑ کر چلتے رہے کہ دو میں سے کوئی ایک تو ملے….شیفتہ نے ٹوک کر پوچھا دونوں میں سے کیا کوئی ایک بھی ملتی ہے کبھی …بقراط نے کہا حضور …جہاں ساس بہو رک جاتی ہیں بس وہیں ہم بھی پیچھے رک جاتے… منڈی میں تاجرگریز پا، بکرے زنجیر پا اور خریدار بے دست و پا ……پچھلے برسوں خوب آوازیں لگاتے اور ترغیب دیتے نظر آئے تھے … بکروں کی نسلوں پر اگر کسی ماہر حیوانات کو تحقیق کرنا ہوتی تو اسے کسی اور جگہ عمر کھپانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، وہ عید قرباں پر بکرا منڈی آ کر مفت میں اور آسانی سے تحقیق کرسکتے تھے …

کہا، لیکن آج حالات ایسے ہوئے کہ بس کیا کہیں….بکرا تاجر ایسے گم صم گاہک کو دیکھ رہے تھے کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں قوت خرید کا اندازہ لگا رہے ہوں… وہ بھی کیا کرتے تاجر جو ٹھہرے…ایک تاجر کے پاس دو لحیم شحیم بکرے دیکھ کر امی جان کے قدم رک گئے….بیگم جو امی کا پلو پکڑ کر چل رہی تھی، جس سے بظاہر دیکھنے والوں کو بہو کی فرما نبرداری کا احساس ہوتا ، لیکن حقیقت جسے صرف ہم جانتے تھے کہ بہو نے ساس کا پلو لگام سمجھ کر پکڑ رکھا ہے….امی جان کے رکتے ہی ہولے ہولے سے کھینچنے لگی.. ہم نے اپنی جیب کی سلامتی کا اندازہ لگایا اور اسے تھپتھپایا …..امی جان نے ایک جھٹکے سے پلو چھڑایا… ایسا کرتے ہوئے دونوں نے اپنی آنکھوں کے کناروں سے ہمارے جگر پر تیر برسانے میں کوئی مروت نہیں کی….

کمبخت ہمارے دانتوں کو بھی کچھ ایسی عادت ہوگئی تھی کے وہ اس صورتحال کے پیش آتے ہی چمک جاتے… آنکھیں بیچاری صرف پلکیں جھپکا کر رہ جا تیں..امی نے ہماری طرف دیکھ کر کہا کس قدر خوبصورت بکرا ہے، بیگم نے ہماری طرف دیکھ کر کہا امی جان اس جانور میں، میں ہمیں تو نقص نظر آتا ہے.. آپ خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرتی کو نہ بھولیں … یہ بکروں کے تاجر نقص کبھی بتاتے نہیں ہیں…. امی نے کہا بہو تمھاری آنکھوں میں نقص ہے، اور تاجر سے پوچھا … اے ہے بھیا کیا نسل ہے ان کی؟ ….. ابھی تاجر نے آنکھوں ہی آنکھوں میں قوت خرید کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہی تھی کہ بیگم نے پوچھا ….. ارے بھیا کتنے کا ہوگا ایک بکرا….امی جان نے غصے سے بیگم کو پسکارا اور کہا.. ارے بٹیا مول تول بعد میں کر لیں گے، پہلے یہ دیکھو کہ اس میں گوشت کتنا نکلے گا … ہمارا خاندان بڑا ہے… تمھارے خاندان کی طرح نہیں ہے نا ،کہ مرغے نما بکروں کی قربا نی دیں …

بقراط نے کہا، ہم خوف زدہ تھے کہ پتہ نہیں کب تو تو میں میں کا بازار بکروں کے بازار سے زیادہ گرم ہو جائے… ہم نے بیگم کو ڈرتے ڈرتے گھورا .. جسے دیکھ امی ہمیشہ کہتی کہ گھورتے ہوئے ڈرتا ہے…بیگم کہنے لگی… امی جان آپ کو یاد ہے نا پچھلے برس میرے مائیکے سے 20۔25 کلو قربانی کا گوشت آیا تھا … آپ نے چپکے سے وہ سارا گوشت اپنی بیٹیوں کے سسرال بھجوا دیا تھا…. ساس بہو دونوں بدستور کنکھیوں سے ہمارا جگر چھلنی کر رہی تھیں … شکر ہے، ورنہ دونوں مل کر ہماری خشک آنکھوں میں غصہ سے آنکھیں ڈال دیتیں، اور امی کہتیں میری ممتا پر ظلم ہوتے دیکھ کر ذرا ترس نہیں آتا تم کو ، اور بیگم کہتی آپ بڑے سخت دل اور مطلب پرست ہیں میرا کوئی خیال نہیں کرتے …. تب دل یہی گنگناتا کہ….اجی خشک آنکھوں میں کیا جھانکیے گا… بہت خون دل ہم رلائے ہوئے ہیں…..شیفتہ نے پوچھا، اور وہ تاجر سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوگا….. تاجربھی مرزا سے کچھ کم کہاں ہوتے ہیں .. کہہ رہا ہوگا … ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے…. بقراط نے کہا، حضور بکرا تاجر یونہی خاموش کھڑا دیکھ رہا تھا…

شیفتہ نے فرمایا.. خیر.. آپ اپنا قصہ غم جا ری رکھیں… کہا، حضور، ہم نے ایک گوشے میں رکھی شکستہ کرسی پر بیٹھ کر دونوں جنتوں سے پیچھا چھڑانے کا موقع غنیمت جانا…. اور سر نگوں ہوکر سوچا کہ زندگی میں سکون بھی ایک عجیب نعمت ہے اور انسان اسے دو دو جنتوں کے عوض میں حاصل کرنے سے بھی نہیں کتراتا … کسی نے خوب کہا تھا کہ جنت کے لیے پہلے مرنا پڑتا ہے…. صحیح کہا.. چاہے جیتے جی مرے یا مر کر مرے…کہا، ابھی انہیں خیالوں میں گم تھے کہ کانوں میں آوز آئی ….کوئی کہہ رہا تھا ….
محبت میں کیا کچھ لٹائے ہوئے ہیں…..
جو بیٹھے یوں سر کو جھکائے ہوئے ہیں….

نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی بکرا تاجر تھا…کہنے لگا … حضور ایک لاکھ کی جوڑی ہے …بیگم صاحبہ اور بہو بیگم صاحبہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ90ہزار میں طے کرلیں گے … اب آپ بتائیے کیش لائے ہیں یا کریڈٹ کارڈ….شیفتہ نے تعجب سے کہا میاں بقراط یہ تو انتہائی نا معقول بات ہوئی … بقراط نے کہا ہم نے بھی تعجب سے اس کی طرف دیکھا تھا…اور پوچھا کریڈٹ کارڈ؟ … اس نے کہا .. اس میں حیرت کی کیا بات ہے ….. بکرے بھی اب ” آئی ایم آئی” پر بک رہے ہیں اور خریدے بھی جا رہے ہیں … گاہک کو ادائیگی میں اور ہمیں قیمت بتانے میں آسا نی ہوتی ہے…. ہم نے کہا اسی لیے دیگر اشیاؤں کی طرح قربانی کے بکروں کی قیمت بھی آسمان پر جا پہنچی ہے…تاجر کہنے لگا صحیح تو ہے نا حضور… آسمان کی چیز، آسمان کی خاطر، آسمانی قیمت پر…. ہم نے کہا بھیا ہم اپنی استطاعت کے حساب سے صاحب نصاب ہونا چاہتے ہیں….. اور جوڑی کا40ہزار ہی دے سکتے ہیں…

کہنے لگا…حضور دونوں بکروں کو ملا کر120کلو سے کم گوشت نہیں ہوگا…..ستر اسی کلو غیر ضروری اعضا اور جلد وغیرہ میں لگ جاتے ہیں، جسے قربانی کے گوشت کی تقسیم میں آپ جیسے شرفا و امرا نہیں لیتے، اورغریبوں کا حصہ بتا کر دینی جماعتوں کے حوالے کر جاتے ہیں ….حضور 120 کلو خالص مصفا گوشت خریدوگے تو 500 فی کلو کے حساب سے 60ہزار بنتے ہیں، یعنی اب صرف30ہزار زائد رقم اللہ کی خاطر قربانی کے نام پر دینے میں بھی آپ لوگوں کی استطاعت نہیں رہی…شیفتہ نے کہا میاں عجیب منطق بتا ئی اس نے…. بقراط نے کہا حضور اس کی بے تکی منطق سن کر ہم نے کہا بھیا ہماری استطاعت نہیں ہے اور خالص حلال کے مال سے قربا نی کرتے ہیں….

کہنے لگا استطاعت وستطاعت چھوڑو اور آہستہ بولو، ساس بہو نے ساری منڈی کو بتا دیا ہے کہ آپ بہت بڑے خاندان سے ہیں …اور یہ بھی کہ پچھلے برس آپ لوگوں نے سیاستدانوں اور فلمی ہستیوں کے ساتھ اسی منڈی سے بکرے خریدے تھے….. بقراط نے کہا ، ہم نے تاجر سے پوچھا سیاستدانوں کے ساتھ؟….کیا وہ بھی بکروں کی قربانی دینے لگے ہیں! کہا ہاں جی حضور.. اب پبلک بہت سیانی ہوگئی ہے.. بکرا نہیں بنتی…..ہم نے پوچھا اور فلمی ہستیاں؟…کہا، قربانی تو دراصل یہی لوگ دیتے ہیں…طوائفوں اور ناچنے گانے والوں کی قربانی کا مقابلہ آج کے دور میں کوئی نہیں کرسکتا…بے چارے ناچ کر ،گا گا کر پسینہ بہا کر پیسے کماتے ہیں اور پھر غریبوں میں اور کار خیر میں اور اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے ہیں ..اگلے برسوں میں ان کے لیے اور آپ جیسوں کے لیے ایئر کنڈیشنڈ بکرا شو روم کھولا جائے گا …..ابھی آپ پیسے کی بات کیجیے ساس بہو کے آنے سے پہلے پہلے….وہ دونوں وہاں سامنے کباب تکے نوش فرمانے گئی ہیں….

Advertisements
julia rana solicitors london

بقراط نے کہا.. حضور جیسے تیسے اس بکرا تاجر سے پیچھا چھڑیا اور جا پہنچے امی اور بیگم کے ساتھ عید سے پہلے ہی کباب تکے کھانے… ہماری دونوں جانیں سر جھکا ئے مشغول تھیں ….ساس بہو ہمیشہ کی طرح اکل و طعام میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں …. ہمیں ان کی یہ یکجہتی ایک آنکھ نہیں بھا ئی….خاص کر ایسے وقت میں جب ان کا لڑنا ہی ایک لاکھ کے نمائشی بکروں سے نجات کا ذریعہ تھا… ہم نے بھی آخر کہہ دیا کہ… امی جان چلیے چل کر وہ دونوں بکرے آپ کی پسند کے خرید لیتے ہیں، کیونکہ انہیں ابھی ابھی ہمارے سسرال والے کچھ نقص نکال کر رد کر گئے ہیں…..امی جان کے چہرے پر غصہ کے آثار، بلکہ لڑائی کے آثار صاف نظرآنے لگے… ادھر بیگم کے چہرے کے تیور بھی تیاری کرنے لگے….. امی کہنے لگی ہم لوگ گئے گزرے نہیں ہیں کہ تمھارے سسرالیوں کے ٹھکرا ئے ہوئے بکروں کی قربانی دیں… بلکہ ہم لوگ تو ایسی منڈیوں میں بھی نہیں جاتے جہاں وہ لوگ آتے ہیں… ہمارا ان کا…. بہو نے بھی پانی کا گلاس خا لی کر کے ٹیبل پر پٹخا اور ساس کے منہ سے جملہ چھین کر کہا…ہاں ہمارا ان کا کیا مقابلہ … کہاں وہ لوگ اور کہاں آپ لوگ… ہم نے بیرے کو بلا کر بل ادا کیا اور واپسی کے لیے چل پڑے…. سارے راستے ساس بہو نے کباب تکے ہضم کرنے میں خوب زور آزما ئی کی….اور ہم دوسرے روز ابا کے ساتھ جا کر اپنی استطاعت کے مطابق بکرے لے آئے..

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply