ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

سوال یہ نہیں کہ کس کا عقیدہ درست اور کس کا غلط ہے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے ہی عقیدے کو صحیح اور دوسروں کے عقیدے کو باطل سمجھتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا زور زبردستی، تشدد، دہشت گردی اور قتل عام کے ذریعے کسی شخص یا طبقے کو عقیدہ بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ جواب یقیناَ نفی میں ہوگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا میں یہودیوں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا جن کی دو تہائی یعنی ساٹھ لاکھ آبادی کوہٹلر کے کہنے پر بڑی بے رحمی سے تہ تیغ کیا گیا۔ اس قتل عام کے دوران، جسے ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لگ بھگ پندرہ لاکھ یہودی بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
اگر دہشت اور خوف کے بل بوتے پر کسی کو اپنا عقیدہ یا شناخت بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا تو بوسنیا کے مسلمان کب کا قصہ پارینہ بن چکے ہوتے جن کا سربوں نے 1990کی دہائی میں بڑی بے دردی سے قتل عام کیاتھا۔ اس دوران نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں ان کے گھر جلادیے گئے تھے بلکہ انہیں عورتوں اور بچوں سمیت چن چن کر قتل بھی کردیا گیاتھا۔اگر زور زبردستی کے ذریعے کسی سے اس کا عقیدہ چھینا جاسکتا تو برما کے روہنگیا مسلمان بھی اب تک اپنا عقیدہ چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر چکے ہوتے جو ایک طویل عرصے سے بدترین ظلم، بربریت اور قتل عام کاشکار ہیں۔ اب تک ان کی متعدد بستیاں جلائی جا چکی ہیں، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا چکا ہے، انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی نہیں، ان کی عورتوں پر جنسی تشدد کی مثالیں عام ہیں اور انہیں بھوکے پیاسے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورکردیا گیا ہے۔
اگر قتل و غارت کا بازار گرم کرکے اور مخالفین کے گلے کاٹ کر انہیں ان کی شناخت اور عقیدے سے تائب کیا جاسکتا تو شام اور عراق کے مسیحی اور ایزدی کب کا اپنا دین دھرم چھوڑ کر داعش کے ہاتھوں بیعت کر چکے ہوتے ،جن کے مردوں کو بیچ چوراہے ذبح کرنے کے بعد ان کی عورتوں اور بچوں کو بھرے بازار میں نیلام کیا گیا تاکہ " مجاہدین" جی بھر ان کا جنسی استحصال کر سکیں۔ اگر ڈر اور خوف کسی کے دل سے اس کا عقیدہ نکال پھینک سکتا تو پاکستان کے احمدی بھی کب کے اپنے عقائد سے توبہ کرچکے ہوتے جنہیں پہلے تو کافر قراردے کر ان کے قتل کی راہیں ہموار کی گئیں پھر ان کے قرآن پڑھنے اور اذان دینے پر بھی پابندی لگادی گئی۔
اگر ڈرا دھمکا کر کسی کو اپنا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تو پاکستان کے مسیحی، ہندو، کیلاش اور ذکری بھی کب کا اپنا عقیدہ چھوڑ کر"مشرف بہ اسلام" ہوچکے ہوتے جن کے سروں پر نہ صرف ہمیشہ توہین مذہب کی ننگی تلوار لٹکتی رہتی ہے بلکہ ان کے عبادت خانے بھی آئے روز حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ہندو اور کیلاش کے لوگ تو اس لحاظ سے بھی زیادہ قابل رحم ہیں کہ بعض اوقات ثواب دارین کے حصول کی خاطر ان کی بچیوں کی "مومنین" سے زبردستی شادیاں کروائی جاتی ہیں۔ جبکہ مسیحیوں کو بھی ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے لیے نہ صرف گاہے بگاہے ان کی پوری کی پوری بستیاں جلائی جاتی ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر ان کو اینٹوں کے بھٹے میں بھی ڈال دیا جاتا ہے۔
اگر اللہ اکبر کا نعرہ لگاکرمعصوم لوگوں کے چھیتڑے اڑانے سے انہیں اپنا عقیدہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تو آج ملک بھر میں مزاروں پر عقیدت مندوں کی اتنی بھیڑ نہ ہوتی۔ کیونکہ ملک کا کوئی بھی ایسا کونہ باقی نہیں بچا جہاں مزارات پر حملے کرکے لاتعداد مردوں، عورتوں اور بچوں کو خون میں نہلایا نہ گیا ہو۔ اور اگر ریاستی دباؤ، توہین و تحقیر اور زبان بندی سے کسی کا عقیدہ تبدیل کیا جاسکتا تو آج چین میں مسلمانوں، سعودی عرب میں شیعوں اور ایران میں سنیوں کا کوئی نام و نشان بھی نہ ملتا۔
الغرض، اگر تشدد، زور زبردستی، قتل و غارت اور نسل کشی کے بدترین واقعات کے باوجود یہودیوں سے ان کی شناخت یا ان کا عقیدہ نہیں چھینا جا سکا، بوسنیا کے مسلمانوں کو اپنا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکا، عراق اور شام کے مسیحی اور ایزدی تمام تر مظالم کے باوجود آج بھی اپنے عقائد پر چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں، بھوکے پیاسے در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود برما کے لٹے پٹے مسلمان آج بھی اپنے عقیدے اور پہچان پر سختی سے کاربند ہیں، پاکستان میں صوفیاء کرام کے عقیدت مندوں نے ان کے مزارات پر جانا ترک نہیں کیا اور نہ ہی "مملکت خداداد" میں بسنے والے احمدیوں، مسیحیوں، ہندوؤں، کیلاشیوں اور ذکریوں نے خوفزدہ ہوکر اپنے عقیدے میں کسی تبدیلی کا عندیہ دیا۔ تو پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے شیعہ کئی دہائیوں سے جاری اپنے پیاروں کے قتل عام سے ڈر کر یا ہزارہ اپنی منظم نسل کشی سے تنگ آکر اپنا عقیدہ اور اپنی شناخت بھول جائیں اور چھپ سادھ لیں؟
ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے اور ہو بھی رہا ہے کہ ان کی مساجد، امام بارگاہوں اور مذہبی اجتماعات پر خودکش حملے کرواکے ان کے چھیتڑے اڑائے جائیں، انہیں تاک تاک کر قتل کرکے ان کے گھروں میں ماتم کی صفیں بچھائی جائیں، ان کی باقاعدہ شناخت کرکے ان کے سروں میں گولیاں اتاری جائیں، ان کے گھروں کے کفیل مار کر انہیں نان شبینہ کا محتاج بنایا جائے، ان کی خواتین اور بچوں پر بہیمانہ حملے کیے جائیں، ان پر روزگار اور تعلیم کے دروازے بند کردیے جائیں، انہیں اونچی دیواروں میں قید کیا جائے، ان کے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ بنادی جائیں اور ان کی ایک بڑی تعداد کو ملک اور شہر چھوڑنے، جبکہ باقیوں کو سنگینوں کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جائے! لیکن ایک بات طے ہے کہ ان تمام مظالم کے باوجود بھی انہیں اپنا عقیدہ اور شناخت ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
ظاہر ہے کہ اس حقیقت سے وہ مولوی بھی واقف ہے جو مخالفین پر کفر کے فتوے صادر کرتا ہے اور وہ دہشت گرد بھی جو نادان نوجوانوں اور بچوں کو جنت کی حوروں کا لالچ دے کر خود کش دھماکوں کے لیے تیار کرتا ہے۔ اس سچائی سے ان مدرسوں کے منتظمین بھی باخبر ہیں جو بیرونی ممالک سے سالانہ کروڑں کی امداد وصول کر تے ہیں تاکہ ان کی پراکسی جنگ کو شعلہ ور کر سکیں اور وہ مولوی اور ذاکر بھی جو منبر پر بیٹھ کر نفرت اور حقارت کی تبلیغ کرتے ہیں تاکہ اپنے مربیوں کے سامنے سرخ رو ہوں۔ یہ بات اس مولوی پر بھی روز روشن کی طرح آشکار ہے جو خود تو اپنی اولاد کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لئے بھیجتا ہے لیکن دوسروں کے بچوں کو جہاد پر اکساتا ہے اور اس حجتہ الاسلام پر بھی جو معصوم نوجوانوں سے تو شہادت سعادت کے نعرے لگواتا ہے لیکن خود درجن بھر محافظین اور بلٹ پروف گاڑیوں کے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہیں نکالتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام بھی اب ایک دوسرے کو کافر، مرتد اور ملعون قرار دینے کے بجائےیہ حقیقت اچھی طرح جان لیں کہ ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر نفرت کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کی وجہ بعض خارجی طاقتوں بالخصوص "برادر اسلامی ممالک" کی پراکسی جنگ ہے ۔ جس کا مقصد عوام کو آپس میں دست و گریبان کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا ہے۔ جبکہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس پراکسی جنگ کو طول دینے میں حکومت اور اداروں میں شامل بعض ایسے حلقوں کا بھی ہاتھ ہے جو اپنے خارجی "دوستوں"کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ عوام کو اس بات کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ فتنہ پرور مولویوں کے بہکاوے میں آکر روز کسی کو شہید یا کسی کو مردار اور کسی کو جنتی تو کسی کو دوزخی قرار دے کر دنیا کو جہنم میں تبدیل تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس طرح جنت کی حوروں کا حصول کسی طرح بھی ممکن نہیں۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply