سفر عشق ۔ آخری قسط

بعد از ظہر ہم راولپنڈی پہنچے اور بلآخر “توبا” مسافر خانہ کو ڈھونڈ نکالا۔ کمرہ لیا۔ گرم پانی سے اچھی طرح  نہایا اور بستر پر لیٹ گئے۔

ہم اب کافی تھک چکے تھے۔ گھر کی بہت یاد آرہی تھی۔ امی، ابو، دونوں بھائی، وہ۔ ۔ ۔ اور وہ دوسری والی بھی۔ اب ہم جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتے تھے۔ پانچ دن تک تنہا وادی کاغان میں گزار کر ساری کوفت نکل گئی تھی۔

ہم نے ٹیکسی والے کو بلایا اور کہا کہ  ریلوے   اسٹیشن لے جاؤ تا کہ ہم جلد از جلد ٹکٹ کی بکنگ کروا سکیں۔ ہماری قسمت کہ  ٹیکسی والے کو بھی معلوم نہ  تھا کہ آخر یہ بکنگ والا اسٹیشن ہے کہاں؟ عجیب و غریب اور تاریک گلیوں میں گھوم گھوم کر ہم نے ایک گھنٹہ سڑکوں کو ناپتے ہوئے گزارا۔ ٹیکسی والے بھائی پوچھ پوچھ کر تھک گئے۔ بلآخر تنگ و تاریک سڑک کے کونے پر ہم نے بکنگ ا سٹیشن دریافت کر ہی لیا۔

ٹکٹ لینے کے لیے قطار لگی ہوئی تھی۔ ہم بھی قطار میں کھڑے ہو گئے۔ا سٹیشن کا جائزہ لیا تو کافی صاف ستھرا لگا۔ کوئی پان کے نشان نہیں، کوئی چیخ و پکار نہیں، واویلا نہیں۔ یا پھر شاید اس لیے کہ ہم رات کے 8 بجے وہاں گئے تھے۔ قطار میں کھڑے ہر ایک شخص کے جانے سے پہلے مشین سے چیخنے کے آوازیں آتیں اور مشین کے منہ سے کاغذ  کا ٹکڑا  باہر نکل آتا۔ اندر بیٹھا شخص کاغذ کے دو ٹکڑے کر کے ایک خود رکھ لیتا اور دوسرا سامنے کھڑے شخص کے حوالے کردیتا۔

تھوڑی دیر بعد ہماری باری آئی۔ ہم نے کوئٹہ کے لیے ٹکٹ چاہی تواس  شخص نے ہماری طرف دیکھے بغیر کہا “4 دن بعد کا ہے”۔ ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ 4 دن؟ کیا کریں گے ہم یہاں؟

ہم نے معصومانہ انداز میں کہا “بھائی جان، اس سے جلد کی کوئی گنجائش ہے؟”

بھائی نے کہا “بھائی جان عید آنے والی ہے، ساری بوگیاں فل ہیں”

ہم نا امید قطار سے نکل گئے۔ کچھ دیر دیوار پر لٹکی بھاری بھرکم گھڑی کو گھورتے رہے۔

“دیکھو بھئی، اگر تجھے کل ہی گھر پہنچنا ہے تو “ٹو ڈی” واحد ذریعہ ہے 4 سے 5 ہزار کرایہ ہوگا۔ اس وقت اگر جہاز کا ٹکٹ لینا چاہوگے تو 10 ہزار سے کم میں نہیں ملے گا اور وہ بھی پرسوں کے لیے” الطان نے فون پر ہمیں بتایا۔

ہم نے فون بند کر دیا اور دوبارہ دیوار پر لٹکی گھڑٰی کی جانب دیکھنے لگے۔ سکوت!!۔

سلام برادر۔ آپ کا نمبر الطان نے دیا ہے۔ کیا آپ کل کوئٹہ جا رہے ہیں؟ ہاں مگر میں اب راولپنڈی میں ہوں۔ کل صبح پشاور موڑ تک 4 بجے پہنچنا بہت مشکل ہے۔ جی آج رات؟ اس وقت وہاں آجاؤں؟ ٹھیک ہے میں کوشش کرتا ہوں۔

رات کے 10 بج چکے تھے۔

ہم نے ہوٹل کے کمرے کا الوداعی دیدار کیا۔ سڑک پر خاموشی تھی۔ 2 ٹیکسی والے کھڑے تھے۔ جب ہم نے ان سے پشاور موڑ کا کہا تو انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ ہم مرکزی سڑک پر آ کھڑے ہوئے۔ ایک چھوٹی سی گاڑی ہمارے سامنے آکر رکی۔ اندر بیٹھا شخص اپنی جسامت میں بالکل اپنی گاڑی کے  موافق تھا۔ کچھ دیر بھاؤ تاؤ کرنےکے بعد ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔

اپنا بستہ گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھ دیا اور خود آگے بیٹھ گئے۔ اس ڈبے والی گاڑی کے سامنے ڈیش بورڈ پر چھوٹا سا ٹی وی بھی نصب تھا۔ ہم نے بہت چاہا مگر ہم اپنی آنکھیں اس چھوٹے سے ٹی وی سے پرے نہیں ہٹا سکے۔

ایسے واہیات قسم کے گانے نہ ہم نے دیکھے تھے نہ سنے تھے۔ ایک دیو ہیکل خاتون کبھی درختوں پر اچھل رہی تھی تو کبھی زمین پر رینگ رینگ کر آہیں بھر رہی تھی۔ دوڑنے کے دوران ان کا ہر پرزہ الگ راستے کی طرف گامزن ہوتا ۔

پھر اچانک محترمہ بھیڑ بکریوں کے درمیان کسی چست زور شکار (ایتھلیٹ) کی طرح دوڑنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے  محترمہ نے ایک بڑی بھیڑ کو بغل میں ایسے اٹھا لیا کہ ہم حیران رہ گئے۔ ہمیں لگا محترمہ تن سازی کے میدان میں صف اول میں ہوں گی ۔

“لگتا ہے آپ بہت جوان دل کے مالک ہیں”ہم نے طنزیہ انداز میں ڈرائیور سے مخاطب ہو کر کہا۔

صاحب۔ جوانی کا مزہ انہی چیزوں میں ہے۔ ورنہ بوڑھے ہو کر ان چیزوں میں مزہ نہیں رہتا۔ آپ کہتے ہیں تو آواز اونچی کرلوں؟

نہیں نہیں۔ نوش جان۔ اتنا کافی ہے۔

دوسرا گانا شروع ہو گیا۔ اس بار ایک خاتون پانی میں  ماہی کی طرح غوطہ زن تھی ۔ بالوں پر  لگے پانی کو جب جھٹکے سے پیچھے  کی جانب دھکیلتی تو پانی کے قطرے فوارے کی طرح چاروں طرف بکھر جاتے۔

آپ شادی شدہ ہو صاحب؟ اس شخص نے ہم سے پوچھا۔

ہمارے گال شرم کے مارے ٹماٹر ہو گئے۔ ہم مانتے ہیں کہ اس سوال کے منتظر، ہم پورے سفر میں تھے۔ مگر توقع یہ تھی کہ کوئی شوخ طبیعت، جوان اور دلکش حسینہ ایسی شیریں گستاخی کی مرتکب ہو۔ مگر کیا کریں۔ ایسی ہماری قسمت کہاں!؟

بہر حال، ہم نے شرماتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

ڈرائیور صاحب شروع ہو گئے۔ “دیکھو صاحب۔ یہی وقت ہے۔ کر لو۔ یہ جوانی اور یہ شباب دوبارہ نہیں آنے والا۔”

آپ کی شادی ہو گئی ہے کیا؟ ہم نے ان سے پوچھا۔

ہاں۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے 3 بچے ہیں۔ 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا۔

پھر ہماری نظر دوبارہ ٹی وی پر پڑی۔ اس بار ایک اور خاتون جس نے گاؤں والے کپڑے پہن رکھے تھے۔ سر پر مٹکا اٹھائے مٹک مٹک کر چل رہی تھی جبکہ کیمرہ کی شوخ نگاہیں نجانے کہاں کہاں آوارہ گردی میں مشغول تھیں۔

پشاور موڑ۔۔۔۔۔

یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اسلام آباد جیسےسنسان شہر میں رات کے 11 بجے تک پشاور موڑ کی دکانیں کھلی تھیں اور لوگوں کا ہجوم موجود تھا۔ جس گیسٹ ہاؤس کا پتا دیا گیا تھا ہم نے اسےبہ آسانی ڈھونڈ نکالا۔ ہم کافی تھکے ہوئے تھےاس لیے کمرہ ملتے ہی بستر پر لیٹ گئے۔ کیونکہ صبح 4 بجے ہمیں اٹھنے کو کہا گیا تھا۔ مگر یہ عاشقی بھی بڑی کمبخت چیز ہے، سونے نہیں دیتی۔ کاش یہی عاشقی ہمارے تعلیمی نصاب میں ہوتی۔ کیونکہ  نصابی کتابوں کو ہم نے کبھی افیوم سے کمتر نہیں جانا تھا۔ نصابی کتاب اٹھاؤ  اور بس نیند فوراً  حملہ آور۔

صبح صادق کے 4 بجے ہمیں اٹھایا گیا۔

سفر کے اس آخری دن بلآخر صادق سے ملاقات ہو ہی گئی۔ مگر رات 4 بجے کو صادق نہیں کہا جا سکتا۔ ہم تو صبح صادقین کا نام دیں گے اور ہمارے لیے 4 بجے صبح نہیں ہوتی آدھی رات ہوتی ہے۔ آنکھیں ملتے ہوئے ہم گاڑی کے اندر بیٹھ گئے۔ تاریکی تھی، اس لیے پیچھے کتنی خواتین اور بچے سوار ہوئے یہ ہمیں نہیں معلوم ہو سکا۔ وہ بس مسلسل کھسر پھسرکیے جا رہے تھے۔

اسلام آباد کی سڑکیں بہت دلکش ہوتی ہیں۔ خاص کر ہائی وے۔ بڑی  سڑکوں کے دونوں اطراف  درختوں کی قطاریں جو لوگوں کے استقبال کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتی ہیں، سڑک کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہیں۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ہم مسلسل اس کاخمیازہ بھگت رہے تھے۔ مگر گاڑی میں نیند کہاں آتی ہے؟

ناشتے کے لیے روکا گیا تو ہمیں بڑےزور و شور سے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ دودھ پتی پی کر ہماری جان میں جان آ تو گئی مگر وہ مزہ نہیں آیا جس کی ہم توقع کر رہے تھے۔ بہر حال طولانی سفر کا یہ آخری حصہ طے کرنے کے لیے ہم آمادہ ہو گئے۔

اب ہمیں آہستہ آہستہ معلوم ہو چکا تھا کہ  گاڑی کے عقبی حصے میں ایک خاتون اور ان کے تین بچے براجمان ہیں۔ خاتون کیا۔۔ وہ خاتون کم اور لڑکی زیادہ لگ رہی تھی۔ مگر اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری ہی عمر کی لڑکیاں زیادہ تر 2 یا 3 بچوں کی ماں بن چکی ہوتی ہیں۔ اب اس میں ہماری سستی و کاہلی کا ہاتھ ہے یا ان محترماؤں  کی تندی و تیزی ، یہ راز ہم پرآج تک کھل نہ سکا۔

سفر کے اس آخری حصے میں ایک اہم بات ہم یہ سیکھ گئے کہ کبھی بھی کسی ہزارہ خاتون سے سلام دعا نہیں کرنی چاہیے۔

کیوں؟

کیونکہ بندہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں بچوں کی جوان ماں نے بتایا کہ اس کا شوہر سویڈن میں مقیم ہے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اسلام آباد اپنے کیس کے انٹرویو کے سلسلے میں آئی تھی۔ انہیں اطمینان تھا کہ وہ ایک مہینے کے اندر سویڈن منتقل ہوجائیں گے۔

آہستہ آہستہ ان سے گفتگو ہونے لگی۔ بچوں کی جوان ماں بڑی دلچسپی سے کہنے لگی “میری بڑی بہن جو ہیں ناں، تانیہ، آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ وہ جب بھی آتی ہے میرے بچوں کے لیے آئی فون کا نیا ماڈل ضرور لاتی ہے۔ میری چھوٹی بہن ثانیہ کا منگیتر بھی آسٹریلیا میں ہے۔ اس کا کیس چل رہا ہے اور وہ جلد میری طرح یہاں سے رخصت ہوگی۔ میری سب سے چھوٹی بہن، حانیہ کے  لیے امریکہ والے خواستگار آئے تھے، مگر ہماری پہلی ترجیح آسٹریلیا ہے۔اس لیے ہم نے رد کر دیا۔ ”

ہم نے شکر ادا کیا کہ بچوں کی جوان ماں کی بس تین بہنیں تھیں۔ کیونکہ اگر 7 بہنیں ہوتیں اور ساتوں کے سات یورپی ممالک کے باشندے ہوتے تو ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔ اس گفتگو سے ہمیں اپنی جوانی کی بازاری قیمت (مارکیٹ ویلیو)کا بھی اندازہ ہوا۔ مارکیٹ کے ایسے حالات میں کوئی عاقل اور بالغ لڑکی کسی پاکستانی خواستگار کو کیوں ہاں کرے گی؟  یہ معاملہ علم و دانش رکھنے والے حضرات کے تبصرے کے لیے چھوڑدیتے ہیں۔

ہم بس سوچ میں پڑ گئے کہ ہمارا کیا ہوگا۔ سکوت۔

ڈرائیور نے پہلے بچوں کی جوان ماں سے اور پھر ہم سے پوچھا کہ ہمیں موسیقی سے کوئی بغض تو نہیں؟  پھر ہماری طرف دیکھ کر کہنے لگے “علی بھائی، آج کچھ 2006 کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ پھر انہوں نےکہیں سے ایک یو ایس بی نکال کر گاڑی کے سامنے والے حصے میں  نصب ایک سوراخ میں ڈال دی۔ جس کے بعد گاڑی میں تاجکی آواز خوان محترمہ “منیژہ دولت” کی سریلی آواز گونجنے لگی۔ ہم بہت کم ایرانی، تاجکی یا افغانی گانے سنتے ہیں مگر یقین جانیے کہ کیفیت کے اعتبار سے واقعی ہم منیژہ کے ہنر کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ محترمہ کا تقریبا ً ہر آہنگ بہت ہی سریلی اور مدھر دھنوں سے مزین تھا ۔ ہمیں تو بہت پسند آیا۔

مگر پھر معلوم پڑا کہ اب محترمہ منیژہ خانم،  دینی وجوہات کی بنا پر آواز خوانی چھوڑ چکی ہیں۔ چلیں بھائی۔ جہاں رہیں خوش رہیں۔ اگر ملنے کا موقع ملا تو ہم ضرور ان کے  ہنر کی داد دیں گے۔

راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہ کرم

ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہوجائیے ۔ ۔ ۔

20151211_152232

گاڑی چلتی رہی اور ایک کے بعد دیگر آہنگ بجتے رہے۔ ہم کچھ گھنٹوں کی مسافت کے بعد خیبر پختونخوا کی حدود میں داخل ہو گئے۔ ایک ہفتے میں ہم کافی سر سبز پہاڑ اور ہرے بھرے میدانوں کو دیکھ چکے تھے۔ اب یہ خشک   کہسار ہمیں تسکین فراہم کر رہے تھے۔ قدرت  میں عشق اور زیبائی موجود ہے۔ بس دیکھنے کی دیر ہے۔

راستے میں ہماری نظر ایک پل پر پڑی تو ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ جس پل کے بارے میں ہم بچپن سےسنتے آئے تھےاسے بلآخر ہم نے دریافت کر لیاتھا۔ جی ہاں۔ پل کا نام تھا “پل صراط”۔ واہ۔

ہم نے سوچا ہم بلا وجہ بچپن سے اب تک ثواب، اچھائی اور خوبیوں کا شمار کر رہے تھے تا کہ با آسانی پل صراط سے گزر سکیں۔  جبکہ یہ خانہ خراب تو خیبر پختونخوا میں خاموشی سے مقیم ہے۔ ہم خوش ہوئے، بلکہ بہت خوش ہوئے۔ اس سفر میں اور کیا چاہیے۔ دین بھی ہمیں نصیب ہوا اور دنیا بھی مل گئی۔

خشک، سنسان اور دلکش رستوں کو دیکھ کر ہم مبہوت ہو کر رہ گئے۔ سنگلاخ نوکیلے پہاڑوں کے بیچوں بیچ جو سڑک خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ملا رہی تھی وہ عجوبہ سے کم نہیں تھی۔ ویران وادیوں میں بل کھاتی سڑک کوبڑی نزاکت سے نکالا گیا تھا۔ پتھروں کے اتنے بڑے ٹکڑے ہم نے پہلے کہیں نہیں دیکھے تھے اور پھر ایسے سلیقے سے ان پتھروں کو کاٹ کر سڑک کے لیے جگہ بنائی گئی تھی کہ ہم انگشت بہ دندان رہ گئے۔

ہماری نشاندہی پر ڈرائیور نے کہا کہ ان سڑکوں کی تعمیر میں ہزارہ برادری کا بہت کنٹریبیوشن رہا ہے۔ یہ سن کرہم ذرا “چوڑے” ہو گئے اورسینہ تان کر بیٹھ گئے۔

مگر پھر ہمیں احساس ہوا کہ کچھ لمحہ پہلے ڈرائیور نے ہمیں ہزارہ برادری کی صف سے نکال پھینکا تھا۔ کیونکہ ہم نے اپنے سید ہونے کاذکر کیا تھا۔

تیرے خوئے برہم سے واقف تھے پھر بھی

ہوے  مفت  شرمندہ  التجا  ہم ۔ ۔ ۔

بلوچستان کے اندر داخل ہو تے ہی ہمارے مشام میں مٹی کی خوشبو آنے لگی۔ عجیب کیفیت، عجیب سماں۔ خوشی کے ساتھ ڈر کا احساس بھی غالب آنے لگا۔ کیونکہ اس خوشبو میں خون کی بو بھی شامل تھی۔ اس سرزمین میں کتنے بے گناہوں کا لہو بہایا گیا ہے یہ کون بھول سکتا ہے۔ کسی عاشق نے محبوب کے عشق میں اپنی حالت زار کو کیا خوب تشبیہ دی ہے کہ

بہت ویران ہوتا جا رہا ہوں۔

بلوچستان ہوتا جا رہا ہوں!

ژوب۔

راستوں کو عبور کرتے ہوئے ہم ژوب کے شہر پہنچ گئے۔ ژوب دیکھنے میں ہماری ذاتی دلچسپی تھی۔ کئی سال پہلے تک ایک معقول تعداد میں ہزارہ آبادی ژوب میں بھی مقیم تھی۔ ہمارے دادا بھی پاکستان بننے سے پہلے ژوب میں زندگی کے لمحات گزار چکے تھے۔ مگر ہوا یوں کہ1936 میں ہمارے دادا کے والد صاحب، سید نبی آغا کو اس کے چہیتے دوست نے قتل کردیا۔

اب شاعر کے اس شعر پر کیا تبصرہ کیا جائے کہ؛

آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا ۔ ۔ ۔

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

سید نبی آغا کو ژوب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں شیعوں اور سنیوں کے الگ الگ قبرستان نہیں ہوتے تھے۔ سب کو ایک ہی جگہ دفن کیا جاتا تھا۔ کیا سادہ طبیعت اور صاف دل لوگ تھے۔

سید نبی کے دوست(قاتل) کو گرفتار ی کے بعد عدالت نے جیل کی سزا سنا دی۔ مگر 11 سال بعد جب پاکستان کو آزادی ملی تو 1947 میں حکومت پاکستان نےبہت سارے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ان میں سید نبی آغا کا دوست بھی شامل تھا۔ایک مرتبہ ہمارے پوچھنے پر پدر بزرگوار نے بتایاتھا کہ دادا کے ابو کے قاتل آخر عمر تک کوئٹہ میں مقیم رہے اوران سے سلام دعا بھی رہی۔عجیب لوگ تھے۔ والد کے قاتل کو برا بھی نہیں مانتے۔ درگزر کرتے ہیں۔ معاف کرتے ہیں۔ خلوص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بھائی اب تو یہاں لوگ بات بات پر کاٹنے،  مارنے اورقتل کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ان 50 سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ ہم اس طرح درندےبن گئے، یہ ہمارےعقل و شعور سے بالاتر ہے۔

ابو کا کہنا ہے کہ ژوب میں ایک بہت ہی بڑی امام بارگاہ اب بھی موجود ہے اورحیدر نامی شخص اب بھی اس امام بارگاہ کی رکھوالی کرتا ہے۔ ابو کہتے ہیں کہ حالات کی وجہ سے اب شاید ژوب میں حیدر کے علاوہ کوئی ہزارہ یا شیعہ مقیم نہ ہو۔ سکوت!!۔

ژوب سے گزرتے ہوے ہمارا دل تو بہت چاہ رہا تھا کہ گاڑی سے اتر کر ہم چہل قدمی کر کے اپنے آبا ؤ  اجداد کی یادوں کی آبیاری کریں۔ مگر ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ گاڑی سے اترے بغیر ہی فاتحہ پڑھ کر سید نبی آغا کی روح کوشاد کریں۔ یہ گمان بھی تھا کہ ہم فاتحہ پڑھنے گاڑی سے اتریں اور جلد ہماری  ہی فاتحہ پڑھوانے کی نوبت آجائے۔

راستہ اب طویل لگ رہا تھا۔

ایک ہی اندازمیں مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اب ہمیں بے چینی ہو رہی تھی۔ کمر میں بھی ہلکا سا درد شروع ہو گیا تھا۔ ہم ہر پانچ دقیقہ بعد کروٹ بدلنے لگےتھے۔ اب ہمیں کافی بھوک بھی لگ رہی تھی۔ بچوں کی جوان ماں کے اسرار پر ہم نے ان سے کچھ بسکٹ لے لیے۔ بسکٹ کھانے پر بھی ہماری بھوک اپنی سرکشی میں مشغول رہی۔ اسی بھوک کی حالت میں ہی ہم نے سید نبی آغا کے شہر کو الودا ع کہا۔

کچھ دیر بعد ہم ایک ہوٹل پہنچے۔ اندرگئے توایک اپنائیت کا ماحول تھاجہاں سب اس انداز سے بڑے بڑے گاؤ تکیوں پر کمر جمائےبیٹھے تھے جیسے کسی عزیز دوست کے گھر “شب یلدا” منانے آئے ہوں۔ بچوں کی جوان ماں کو ان کے بچوں کے ساتھ ایک الگ کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ ہم سے پوچھا گیا کہ کیا منگوایا جائے۔ ہم نے ہمیشہ کی  طرح یہی کہا “ہر چہ صلاح بزرگان باشد”۔

ڈرائیور نے تنبیہ کی کہ آگے  راستے میں رکنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے جو کچھ کرنا ہے یہیں  کر لو۔ ہم سمجھ گئے۔

کھانے کے بعد ہم فورا ً باہر آگئے تاکہ رفع حاجت کے لیے کوئی جگہ ڈھونڈ سکیں۔ ہماری نظر میں بلوچستان میں سفر کرنے کا سب سے مشکل مرحلہ صاف اور ستھرا ٹوائلٹ یعنی پائی خانہ ڈھونڈنا ہے۔

اول تو یہ کہ رستے میں کہیں بھی یہ سہولت موجود نہیں اس لیے آپ کو سیدھا دشت میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

دوسری بات، اگر بمشکل کوئی ٹوائلٹ مل بھی جائے، تب بھی وہاں نظافت اور پانی کا ملنا بہت مشکل ہے۔ مگر خدا کا شکرہے  کہ وہاں ہمیں تینوں چیزیں میسر آئیں۔ پائی خانہ بھی خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

ہم نے یہ بات نوٹ کی کہ ژوب کے بعد ہماری گاڑی کسی برگِ خزاںرسیدہ کے موافق اس سرعت سے بھگائی جا رہی تھی جیسے ہم میٹرک کے امتحان کے لیے گھر سے دیر سے نکلے ہوں۔ پیچھے بیٹھے ہوئے بچوں کی جوان ماں مسلسل دعائیں پڑھ کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر پھونک رہی تھی۔ ہم بھی گھبرا گئے۔ شاید دوبارہ خدائے  متعال کو یاد کرنے کا موقع آگیا تھا۔

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگ جب یاد آتے  ہیں  تو  اکثر  یاد  آتے ہیں

IMG_0569

کوئٹہ۔

شب کی تاریکی کوئٹہ میں مکمل ڈیرا ڈال چکی تھی۔ ہم جب داخل ہوئے تو نہ جانے سڑکوں پر کیوں رش تھا۔ شہر کی سڑکوں پر گدھا گاڑیاں دیکھ کر ہم بہت خوش ہوئے۔

میرا پیارا شہر۔

پھرجب اسپینی روڈ میں داخل ہوئے تو دوبارہ ہمیں خون کی مہک آنے لگی۔ اماں  کے بقول اسپنی روڈ پر ہزارہ برادری پر ہی اب تک کم از کم 90 قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ تقریباً  6 منٹ کی یہ سڑک شاید سریاب روڈ کی طرح شہر کی خونی  ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔ حالانکہ اس سڑک پر کم از کم تین (ایف سی) چیک پوسٹیں صبح شام اور چوبیس گھنٹے موجود رہتی ہیں۔سکوت!!۔

ہم تیزی سےخونی سڑک سے گزر تےگئے۔ کیا کریں۔ کوئٹہ خونی ہونے کے باوجود عزیز ہے۔ ابو کہتے ہیں جب انگلی میں زخم ہوتا ہے تو ہم سارا ہاتھ کاٹ کر نہیں پھینکتے۔ زخم کتنا بھی تکلیف دہ کیوں نہ ہو، ہاتھ سب کو عزیز رہتا ہے۔

ویسے بھی کوئٹہ سے ہمارے تعلقات ہمیشہ نفرت اور محبت کے بیچ میں غلطاں رہتے ہیں۔

ہماری مادری زبان میں ایک ضرب المثل مشہورہے کہ “دور نرو گرگ موخرہ، نزدیک نیو بوئی میدی” جس کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا کہ “دور مت جاؤ ورنہ گرگ(بھیڑیا)تجھے کھا جائے  گا، اور نزدیک بھی مت آنا،کیوں کہ تم سے بو آتی ہے۔”

نہ کوئٹہ میں ہم کو چین آتا ہے، نہ اس سے دور رہ کر ہم بے فکر رہ سکتے ہیں۔ فیض صاحب فرماتے ہیں:

نے تاب ہجر میں ہے نہ آرام وصل میں،

کمبخت دل کو چین نہیں ہے کسی طرح

گھر کا دروازہ۔

اس چھوٹے سے سبز رنگ اور سنگین آہنی دروازہ کو ہم بچپن سے عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں۔

گھر کی گھنٹی بجائی۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم اطلاع دیے بغیر گھر پہنچے تھے۔ امی کی آنکھوں میں بے ساختہ، تعجب اور خوشی دیکھ کر ہمیں بہت لطف آتا ہے۔

عجیب احساس تھا۔دروازہ کھولتے ہی امی گلے لگا کر ایسے زار و قطار رونے لگیں  جیسے ہم جہاد کے لیے گئے تھے۔ ہم نے بھی گلے لگا کر خوب فیض پایا۔ امی۔ خدا کا خلق کیا ہوا عجیب ترین عجوبہ۔کچھ دیر میں ابو دکان سے تھکے ہارے گھر پہنچے تو انہوں نے بھی خوش ہو کر ہماری آنکھوں کو بوسہ دیا۔ ہم نے بھی ان کا ہاتھ چوم کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔

ہماراگھر چھوٹا اورخستہ حال ہونے کے باوجود بہت پر سکون ہے۔ صرف دو کمروں کا یہ گھر ہر طرح کی خوشی اور ہم دلی سے مالامال ہے۔ نمی کی وجہ سے دوسرے کمرے کی دیوار ٹپکتی رہتی ہے۔ الماری کے پیچھے کا حصہ تو بالکل گل سڑ گیا ہے ۔ ہمارے گھر کی آہنی چھت بھی باقی سب جدید گھروں سے ہمیں الگ اورنمایاں رکھتی ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود کبھی دوسرے کے گھر کی خوشی پر دھیان نہیں گیا۔

یہ گھر نہیں۔ عشق ہے۔

گھر میں تھا کیا جو تیرا غم اسے غارت کرتا

ایک جو رکھتے تھے ہم حسرت ِ تعمیر سو ہے

مگر اب جو بڑے ہوئے ہیں تو احساس ذمہ داری بن رہا  ہے کہ گھر پر بھی توجہ دیں۔

گھر۔

جلد نہا دھو کر ہم کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ ساری رات امی اور ابو سے بہت ساری باتیں کیں۔ بھائی بھی ہماری باتوں کو غور سے سن رہا تھا۔ ہم نے اپنے طویل سفر کے بارے میں جو یاد آیا ان کو سنایا۔ امی اور ابو بھی اس ایک ہفتےکے دوران کوئٹہ میں گزری روداد  سنا رہے تھے۔ اس ایک ہفتے میں چاچا غلام دین فوت ہو گئے تھے، 90 بسیں جو زیارت کے لیے گئی تھیں بہ خیریت واپس پہنچ گئی تھیں،  پانی ایک ہفتے سے نہیں آرہا تھا اور کل سے سردی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے گیس کا پریشر بھی بہت کم آرہا تھا۔

پھر ہم نے ابو کو سر جی کا قصہ سنایا جو ٹرین میں ملے تھے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ جب سر جی نے یہ سنا کہ ہم اکیلے ہی اس سفر پر گامزن ہیں تو انہوں نے ایک فارسی شعر کہنا چاہا مگر وہ ٹھیک طرح سے یاد نہیں کر پا رہے تھے۔ ہم نے اس بارے میں ابو سے رجوع کیا۔

ابو کسی فارسی دان سے کم نہیں۔ فارسی کے اشعار ان کو رموزعشق کی طرح یاد ہیں۔ ہم نے ان کو پہلا مصرعہ سنایا جس کا دوسرا مصرعہ ابو نے یوں ادا کیا:

جگر شیر نداری ،  سفر عشق مرو ۔ ۔ ۔

کہ در این راہ بسی خون جگر باید خورد

مگرجب ساری باتیں ختم ہوئیں تو پھر ہمیں سب سے سنسنی خیز خبر سنائی گئی۔

جی ہاں۔

اس ایک ہفتے میں اچانک بلقیس کی منگنی ہو گئی تھی۔

ہم افسردہ ہو گئے۔ اور پھر جب یہ سنا کہ حضرت ِداماد ناروے کے باشندے ہیں تو ہم آگ بگولہ ہو گئے۔ یقین جانیے ہمیں اتنا دکھ ایشوریا رائے کی شادی پر بھی نہیں ہوا تھا۔

ناصر کاظمی صاحب نے بہت پہلے کہہ دیا تھا :

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی صحیح،

اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں ۔ ۔ ۔

اگلے دن ہم گلی کوچوں کی سیر کو نکلے۔ کچھ نہیں بدلا تھا۔ مگر ہم بدل گئے تھے۔ اس ایک ہفتے کے سفر نے ہمیں شاید اور زیادہ مضبوط کر دیا تھا۔ ہماری دید اب بدل گئی تھی۔ ایک خاتون کو دیکھا جو اپنے گھر کے سامنے والے گلی کے حصے کو پانی سے دھو رہی تھی۔ کس بے دردی سے پانی بہہ رہا تھا۔ پانی۔ معدنی پانی۔ ہم چاہ تو بہت رہے تھے مگر ہم سے ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا۔ کیسے بولتے۔ بقول ان کے۔ آخر ہماری بھی ماں بہنیں ہیں۔

کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

Advertisements
julia rana solicitors london

رحمان فارس!

Facebook Comments

علی زیدی
علی زیدی تھرڈ ڈویژنر ہیں اور بد قسمتی سے اکاؤنٹنگ کے طالبعلم ہیں۔ افسانہ، غزل اور نظم بھی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kafandooz@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply