جمائی آنے کا سبب معلوم ہوا۔۔۔۔رضا علی عابدی

جمائی کیا ہے؟ کیا بڑا سا منہ کھولنے کا نام جمائی ہے؟ کیا یہ ہماری روزمرہ زندگی میں ہم پر اس طرح طاری ہوتی ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جماہی لے رہے ہیں یا ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آج ہم نے کتنی بار جمائی لی۔ بس آجاتی ہے، کبھی بلا سبب اور کبھی اسباب کے ساتھ۔ ایک عام خیال ہے کہ رات نیند پوری نہ ہوئی ہو تو جمائیاں آتی ہیں۔ دوسری عام رائے یہ ہے کہ اگر ہم پر سخت اکتانے والی کیفیت طاری ہو یا روز مرہ گفتگو میں ہم بری طر ح بور ہو رہے ہوں تو دو چار بار نہیں آتی بلکہ جماہیوں کا تانتا بندھ سکتا ہے لیکن میں نے احباب سے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کہ اکثر بلا سبب آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رات لمبی تان کر سوئے اور کوئی اکتاہٹ نہیں تھی پھر بھی آئے چلی جاتی ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ زیادہ سونے سے وہ کیفیت ہوتی ہے جسے الکسی کہتے ہیں۔ آسان زبان میں اس کو سستی اور کاہلی کہہ سکتے ہیں، اس حالت میں بار بار جماہی آنا عام بات ہے۔ خصوصاً جب کوئی کام کرنے کو دل نہ چاہ رہا ہو یا کوئی ناپسندیدہ کام آن پڑے تو انسان بڑا سا منہ کھول کر زیادہ مقدار میں آکسیجن اندر لے رہا ہوتا ہے۔

اب تو خیر وہ زمانے گئے جب ہمارے بڑے بوڑھے بچوں پر نظر رکھا کرتے تھے اور روک ٹوک کیا کرتے تھے۔ میرے زمانے تک منہ پھاڑ کر جمائی لینا بے حد معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بزرگ ٹوکا کرتے تھے کہ منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی لیا کرو۔ جن دنوں میں اور تجسس کے مارے ہوئے میرے ہم عمر ساتھی دنیا کے ہر موضوع کا مطالعہ کیا کرتے تھے ان دنوں طب کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ زیادہ منہ کھول کر جمائی لیتے ہوئے دونوں جبڑوں کے جوڑ اتر جاتے ہیں منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ ایسے میں ماہر معالج آہستہ آہستہ منہ بند کرتے ہیں۔ میں نے کتابوں میں ایسے مریضوں کی تصویریں بھی دیکھی تھیں۔ دو چار بار مجھے بھی یوں محسوس ہو ا کہ منہ بند کرنے میں دشواری ہو رہی ہے لیکن وہ خود ہی ٹھیک ہوگیا۔

جمائی کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ بات کہتا چلوں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا اور محسوس کیا ہوگا۔ جمائی کا حال بالکل وہی ہوتا ہے جو اُڑ کر لگنے والی بیماری کا ہوتا ہے۔ کسی محفل میں کو ئی ایک شخص بڑا سا منہ کھول کر جمائی لے تو اسے دیکھنے والوں کو بھی جمائی آتی ہے۔ ایسے میں ہم نشینوں کو یوں کہتے سنا ہے کہ ’ کیا الکسی پھیلا رہے ہو‘۔ ذرا تصور کیجئے، کوئی کھیل کا میدان ہو، دو ٹیموں کا سخت مقابلہ ہو جسے دیکھنے کے لئے ہزاروں کا مجمع بیٹھا ہو۔ ایسے میں بیچ میدان موجود کوئی کھلاڑی بھاڑ جیسا منہ کھول کر جماہی لے اور اسے دیکھ کر سارے مجمع کو اجتماعی جمائی آئے تو کیا منظر ہوگا۔ ایک کھلاڑی نے یہی کیا اور اس کے کھلے ہوئے منہ کا منظر کیمر ے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔ اندیشہ تھا کہ جو کوئی یہ تصویر دیکھے گا، جماہی لے گا لیکن شکر ہے ایسا تو نہیں ہوا البتہ دنیا بھر میں اس کے اَن گنت کارٹون بن رہے ہیں۔ کسی نے نیو یارک کے مشہور مجسمہ آزادی کی خاتون کے چہرے کو بگاڑ کر یوں بنادیا جیسے وہ جمائی لے رہی ہیں۔ اسی طرح خبروں میں آنے والے لوگوں کے چہرے بگاڑے جارہے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ منہ ڈھانپ لینا چاہئے ورنہ اگر تصویر اتر گئی تو خدا جانے کتنی تصویروں کے چہروں پر آپ کا چہرہ چسپاں ہوگا۔

زبان و ادب میں بھی جماہی کا خوب خوب ذکر ملتا ہے۔ اوّل تو لغت میں لکھا ہے کہ بعض علاقوں میں جس کیفیت کو جمائی کہا جاتا ہے، کچھ دوسرے علاقوں میں اسے جمہائی بھی کہتے ہیں۔ اگر مصرعہ وزن سے نہیں گرتا، ہمیں کیا، دنیا جمہائی کہے یا جمائی کہے، ہماری بلا سے۔ ہمارے شاعروں نے اس سے نئے نئے لفظ بنالئے۔ امیر مینائی نے ایک جگہ کہا:

سوالِ مے کہیں ساقی سے تیرے مست کرتے ہیں۔

کھلا ہوگا کبھی منہ تو کھلا ہوگا جماہی سے

ایک اور جگہ استاد گرامی نے کھلے ہوئے منہ سے نیا لفظ ایجاد کردیا:

اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن

خمیازہ کھینچتے ہیں، ہر دم جماہتے ہیں

ہم سب کے استاد ذوق نے کیا خوب کہا:

نام میرا سن کے مجنوں کو جماہی آگئی

بیدِ مجنوں دیکھ کر انگڑائیاں لینے لگا

خدائے سخن میر تقی میرؔ نے ایک جگہ جماہنا بمعنی جمائی لینا باندھا ہے۔ ایک نامعلوم شاعر نے کیا اچھا شعر کہا اور جماہی کا کیسا برمحل استعمال کیا ہے:

کرے اثباتِ دہن لاکھ جماہی تیری

خامشی کہتی ہے جھوٹی ہے گواہی تیری

ایک اور شاعر نے نئی ترکیب سے نیا مضمون باندھا:

منہ کھولتا ہوں میں کہ پلادے کوئی شراب

ہردم جماہیاں نہیں لیتا خمار سے

پرانے زمانے کے اساتذہ کے ان شعروں سے دو چار بہت اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ دن کے دوران آنے والی جماہی رات کے بھید کھول سکتی ہے، اس کا لوگوں کو بہت خیال رکھنا چاہئے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جماہی آپ کی بات کی تائید کرتی ہے، مگر یوں ہے نہیں۔ دوسرے یہ کہ جس بات کا ان قدیم اشعار سے بڑا انکشاف ہوا وہ یہ کہ جماہی کا ایک سبب خمار بھی ہو سکتا ہے۔ جس نے جام لنڈھائے ہوں وہ اگلے روز جماہیاں لیتا ہوا پکڑا جائے گا۔ آج کل کی میڈیکل سائنس بھی مانتی ہے کہ سکون بخشنے والی اور پریشانیاں دور کرنے والی دواؤں کے استعمال سے جماہیوں پر جماہیاں آتی ہیں۔

اس سار ی گفتگو کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جماہیاں بے سبب نہیں آتیں۔ تخلیے میں آئیں یا بھرے مجمع میں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply