مکالمہ : ابھی بہت آگے جانا ہے ۔ ۔ ۔ محمود فیاض

مکالمہ روائیتی سوچ والوں سے بلند، سکہ بند بزرجمہروں سے اکتائے ہوئے لوگوں کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کی شکل ہے جس کو میرے جیسے بہت سے لوگ پاکستانی سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے روائیتی کرداروں سے الگ دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
انعامؔ رانا اور مجاہدؔ حسین نے نعرہ لگایا ، مباحثہ نہیں مکالمہ (کم از کم میں صرف ان دونوں کو جانتا تھا)۔ ۔ ۔ تو میرے جیسے وہ سب لوگ جو طرح طرح کے مباحثوں اور گالم گلوچ والی فیس بکی روایات سے تنگ تھے، اکٹھے ہو گئے۔ (اور ہو رہے ہیں)

Inam Ranaآغاز ہی میں ایک خوشگوار ٹیم بن گئی۔
۔انعام رانا، ابن صفی کے علی عمران کی یاد دلاتا، حماقتیں کرتے کرتے ایک دم ایکس ٹو بن جاتا، مذاق اپنی جگہ رکھتا مگر منزل پر نظر، مشن کو وقت پر پورا کرنے میں بے رحم۔

.

mujahid-hussainمجاہد حسین، ایک باغی لکھاری، جس کو زندگی، انٹرنیٹ اور لکھنے میں ایک جیسا ملکہ حاصل ہے۔ جیسا کے انعام رانا نے مکالمہ کے تعارف میں لکھا تھا،
کہ مجاہد حسین نے انعام رانا کو مکالمہ جیسا پلیٹ فارم شروع کرنے پر آمادہ کیا۔ مکالمہ کے بانی ممبرز میں سے ایک۔

.

rabia-khurram۔ڈاکٹر رابعہ، ایک بہت ہی متحرک اور جاندار شخصیت، ۔ ۔ ۔ تعارف بعد میں ہوا، مکالمہ کی اولین ارکان میں شامل۔ انعام رانا کی دعوت پرمکالمہ کے لیے آئیں۔

.

.

۔ڈاکٹر اسمارہ، ایک اور جاندار شخصیت، تجربہ، زندگی کی سمجھ، اور کاٹ دار تحریریں، مگر سب سے بڑھ کر ٹیم اسپرٹ کی شیدائی

۔

hafiz-safwan

۔حافظ صفوان، زبان و بیان کے ماہر ، مجھے ہر مرتبہ حیران کرتے ہیں، انکو لیبل کرنا آسان نہیں۔ تبلیغ، تحریر، اور ایک ہنس مکھ انسان، تین تو ہو سکتے ہیں
، ایک نہیں۔

.

Jean Sartre

۔ژاں سارتر، جس کی صحافت اور طنزیہ تحریریں اس طرح جڑواں کہ الگ کرنے پہ دونوں کی موت کا خدشہ۔ زیادہ نہ بولتے ہوئے کام کرتے جانا ان کی خوبی ہے، لوگ اسکے بولنے کا انتظار کرتے ہیں اور وہ کام کر جاتے ہیں۔

.

ahmad-rizwan

۔احمد رضوان، دور دیس کا پاکستانی جو اردو کی محبت میں آ ملا۔ بہترین نثر نگار اور بازوق مطالعے کا شوقین۔ سلجھی ہوئی شگفتہ تحریروں کے علاوہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو مکالمہ پر لانے کا سہرا بھی انکے سر ہے۔.

۔

ayesha

۔عائشہ اذان، ایک متحرک اور شگفتہ روح، جو مکالمہ کو ایک خاندان کے روپ میں دیکھتی ہے۔ میڈیا انڈسٹری کا تجربہ، لکھنے کی لگن اور کچھ الگ سےجینے کی دھن اس کو بے چین رکھتی ہے۔ اس بے چینی نے مکالمہ ٹیم، مکالمہ گروپ اور ویب سائیٹ کو بہت توانائی مہیا کی۔

mubarak-anjum

۔مبارک حسین، ایک اور بے چین روح، جو بہت سی تجاویز لے کر آیا۔ اور اس نے بہت کام کیا۔ اس کے گروپ میں متحرک ہونے کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اسکی گروپ میں شگفتہ مزاجی نے ہنسانے کا سامان بھی مہیا کیے رکھا۔

.

.

آغاز ہی زبردست تھا۔ ایک ہائیپ بن گئی تھی۔ ہم تھوڑا پریشان بھی تھے کہ اگر ہم لوگوں کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے تو کیا ہوگا؟ مگر جب سائٹ لانچ ہوئی، تو دنیا نے ایک بالکل غیر روایتی ٹیم کا کامیاب کارنامہ دیکھا۔ انعام رانا کی دن رات آن لائین شفٹیں، مجاہدحسین کا پوری پوری رات جاگ کر ویب سائیٹ کے تکنیکی معاملات دیکھنے سے لے کر بحیثیت ایڈیٹر تحریروں اور مکالمہ کے میک اپ پر کام کرنا، باقی ادارتی ٹیم کا گھنٹوں مکالمہ کی پالیسی، مواد اور دیگر معاملات پر کام کرنا، نوجوان ساتھیوں کا گروپ، پیج اور اپنی اپنی وال سے مکالمہ کی بھرپور کیمپئین چلانا، اور ہزاروں فیس بک ریڈرز کی محبتیں رنگ لائیں، اور مکالمہ پہلے ہفتے سے ہی ایک زبر دست ہٹ ثابت ہوا۔

پھر ہمیں پہلا دھچکا لگا۔ مجاہد حسینؔ اور ڈاکٹر رابؔعہ درانی کچھ زاتی مصروفیات کی وجہ سے مکالمہ پر کام جاری نہ رکھ سکے۔ ہم دو بانی ارکان کے یکے بعد دیگرے چھوڑنے سے تھوڑا لڑکھڑائے ، پھر چلنے لگے۔ کچھ مولووی گھمن کا ایشو ہمارے کام آیا، کچھ محرم کی تحریریں ریڈرز کی تعداد بڑھا لے گئیں۔ ہم گرتے گرتے سنبھل گئے۔ اگرچہ مکالمہ کسی مشہور لکھاری کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہوا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انعام رانا کی اپنی فین فالوونگ، اور قاری حنیف ڈار، خٹک، اور دیگر مشہور لکھاریوں کی فین فالوونگ نے ٹیک آف ٹائم پر اضافی انجن کا کام دیا۔

مکالمہ اپنی ابتدائی کامیابی کے لیے ہاؤس لکھاریوں کے علاوہ حیدر جاوید سید، عامر ہاشم خاکوانی، ڈاکٹر مجاہد مرزا (ماسکو)، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹرطفیل ہاشمی، قاری حنیف ڈار، عمار مسعود، رعایت اللہ فاروقی، عارف خٹک، محمد اشفاق، وسی بابا، محمد فیاض خان سواتی،لالہ صحرائی اور دیگر دوستوں کا خاص طور پر شکرگزار ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں سے مکالمہ کے آغاز کو ایک خوبصورت جہت عطا کر دی۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ چند نام محض اشارتاً لکھے ہیں، ورنہ کرم فرماؤں کی لسٹ طویل ہے، جس کو مکالمہ میں مصنفین کے پیج پر آویزاں کیا جائے گا۔

مکالمہ میں لکھنے والے دیگرلکھاری نئے ضرور تھے، مگر نا تجربہ کارہرگز نہیں تھے۔ ان سب کی تحریروں نے ، مشہورلکھاریوں کی تحریروں کے درمیان پڑھنے والوں کو بہترین مطالعہ مہیا کیا، اور جیسا کہ خیال تھا، ان نئے لکھنے والوں نے گھسے پٹے موضوعات سے ہٹ کر ایسی تحریریں لکھیں جن سے سوشل میڈیا پر پڑھنے والوں کو سوچ کی تازگی کا احساس ہوا۔

پہلے ماہ کے آخر میں مکالمہ پاکستان کی پہلی تین ہزار ویب سائیٹس میں آ چکی تھی۔ میرے خیال میں یہ کسی پاکستانی ویب سائیٹ کی تیزترین اٹھان ہے۔ اب ہم جہاں کھڑے ہیں، وہ ہم سب کے لیے اجتماعی طور پر اور انفرادی طور پر بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان کی پہلی دو ہزار ویب سائیٹس پر آجانا، اور وہ بھی 90 دن کے اندر اندر، یہ ایک کارنامہ ہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے اس ٹیم میں کام کیا ہے اور اس درجے کو حاصل کرنے میں ہماری محنت اور وقت شامل ہیں۔

انعام رانا کو نکال دو، مکالمہ ختم ہو جائے گا۔ یہی انعام رانا کا اعزاز ہے۔ اس کی لیڈرشپ میں اس ٹیم نے مکالمہ کو پاکستان کی ممتاز اردو ویب سائیٹس میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس کی بات پوری ہو چکی ہے۔ مکالمہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ اگر کوئی مخالف کیمپ تھا تو اس کو خبر ہو چکی ہے۔
مگر دوستو! اب سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ مقام ہے جو ہم سب چاہتے تھے؟ کیا انعام رانا یہیں تک آنا چاہتا تھا؟ کیا مکالمہ کو محض ایک اور ویب سائیٹ بننا تھا؟ یا ہم نے آگے جانا تھا۔ اور آگے بھی کتنا ؟ اگر تو ہم ایک دوڑ میں تھے، تو چند قدم اور، اور ہم باقی سب کو پیچھے چھوڑ جائیں گے؟ مگر کیا یہی وہ مقام ہے، جیت کا جو ہم چاہتے ہیں؟

یا پھر ہم وہ لوگ تھے، جو ایک آئیڈیل کے لیے  اکٹھے ہوئے تھے۔ ہم وہ لوگ تھے، جو بقول انعام رانا پاکستان کو کچھ دینا چاہتے تھے، ایک مختلف سوچ کے زریعے۔ ہم شائد یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان میں لیفٹ رائیٹ کی بحثوں سے آگے بھی کچھ ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے نمائندہ بننا چاہتے تھے، جو سب فروعی اختلافات سے ہٹ کر ایک صحتمند ماحول چاہتے ہیں، جس میں سب اپنے اپنے خیالات، عقائد اور نظریات کے ساتھ مل جل کر پاکستان کے لیے سوچ سکیں۔

تو دوستو! وہ منزل ابھی آنا ہے۔ جب ہم پاکستان کی پہلی بڑی اردو ویب سائیٹ بن جائیں گے، تب بھی ہمیں آگے جانا ہے، اور اس منزل کو پانا ہے، جو پاکستان کے اندر ایک سماجی تبدیلی کی علامت ہو۔ اور مکالمہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن کر ابھر سکے جو باقی سب میڈیا گروپس کے لیے بھی ایک حیران کن پیشرفت ہو۔ لوگ مکالمہ کی کامیابی سے سیکھ سکیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا ایسے بھی کیا جاسکتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں، میں اپنے نئے ساتھیوں کو مکالمہ میں خوش آمدید کہتا ہوں، جن میں طاہر یاسین ایک کہنہ مشق صحافی ہیں اور آتے ہی انہوں نے گروپ میں اپنی پہچان بنا لی ہے۔ مکالمہ گروپ اور مکالم پیج کے ایڈمنز سب انتہائی منفرد اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ اور ہم ملکر مکالمہ کو اور بلندیوں پر لے جائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply