بیکن ہائوس اور ہم!!۔۔۔۔ محمد آصف

عرض یہ ہے کہ بقا اُسی کو ہے جس میں استحکام ہے۔ ہم دفاعی حیثیت میں ہو کربھی دفاع کا حق ادا نہیں کر پارہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا خود منتشر ہونا ہے۔

کلہاڑا جب جنگل میں داخل ہوتا ہے توتب تک کسی درخت کی جڑ نہیں کاٹ سکتا جب تک اس کے ساتھ کسی درخت کی “ہتھی” نہ لگ جائے۔ حتی کہ کچھ درخت بول پڑتے ہیں کہ دیکھو یہ تو ہمارے ہی جیسا ہے۔ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔مسلمان ایک ہزار سال تک ہندئووں کے ساتھ رہے، چونکہ ایک دوسرے سے واقف تھے اور ذہنی سطح کا بھی خوب اندازہ تھا اس لیے ایک دوسرے کو جانتے تھے، اور پُرامن بھی رہے۔ اصل مسئلہ تب آتا ہے جب آپ اپنا تشخص مختلف چہروں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

بیکن ہائوس کا یہی طرزِعمل ہے۔ بلکہ ہر اُس ادارے کا جو مادی دوڑ میں شامل ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ کہ زیادہ دیر تک کسی ماسک کےپیچھے چُھپا نہیں جا سکتا۔ اس حوالے سے ہم بیکن ہائوس کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ منافق نہیں۔ کیوں کہ وہ ایک خاص ذہنی سطح کو اپروچ کرتا ہے اور ذہن سازی بھی کرتا ہے۔ اور اس سے انکار بھی نہیں کرتا۔ تعلم و تدریس سے جُڑا ہر صاحبِ علم اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ وہ انگریزی زبان کی ترویج ہی کے لیے بنا ہے۔ ایسے میں اُس ادارے سے جُڑا ہر شخص وہی کرے گا اور وہی کہے گا جو بیکن ہائوس کا منشور ہے۔ اس میں شامل چاہے کوئی یونیورسٹی کا  پرنسپل ہو یا یا دورافتادہ پسماندہ گائوں کا عام سااستاد۔

سال نہیں گزرا جب اسی ادارے کی یونیورسٹی کی کچھ طالبات تے مخصوص ایام کے حوالے سے ایک جُرات مندانہ قدم اٹھایا تھا۔ مگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک ٹیسٹ تھا۔ اُس اپر کلاس طبقے کی طرف سے نچلے طبقے کی مدافعانہ قوت کو جانچنے کا۔نتیجہسامنے تھا۔ اُس طبقے نے سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور ہم محض صفحے کالے کرتے رہ گئے۔ ہمارا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ کہ زبان و بیان پر اٹھنے والا مسئلہ ہمارے مختلف طبقوں کےدرمیان گھومتا رہتا ہے۔ ممی ڈیڈی طبقہ اسے اور نگاہ سے دیکھتا ہے، درمیانہ شش و پنج میں ہوتا ہے اور سب سے نچلے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ روٹی کے علاوہ بھی بھلا کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے؟اس بار بیکن ہائوس نے اپنے منشور کی طرف ایک اور قدم آگے بڑھایا ہے بنجابی زبان اور گالیوں کو ایک ہی نام دے کر۔ ان کے سامنے ایک مقصد ہے۔ انگریزی کی ترویج، اسکے سامنے پنجابی آئے یا فرانسیسی وہ اسکو اُسی طرح ٹریٹ کریں گے جیسے پنجابی کو کیا گیا۔محترم انعام سر نے عمدہ بات کہی کہ اپنا مافی الضمیرجہاں بیان نہ ہوسکے وہاں فیسیں دینے کا کیا مقصد۔

یہ سچ ہے کہ انسان اپنا مافی الضمیر اُس زبان میں ادا کرتا ہے جو اسکی مادری زبان ہے۔ مگر یہاں آپ نے پنجابی کو مادری زبان رہنےہی کہاں دیا؟ بچے کو دو انتہائوں میں لا کھڑاکیاجو نہ انگریزی پر عبور رکھ سکا نہ پنجابی پر۔یہ کہنا کہ پنجابی گالیوں کی زبان ہے، درحقیقت پرلے درجے کی منافقت ہے۔ اُس پرنسپل کو یہ خاکسار انگلش میں اُس درجے کی گالیاں دے سکتا ہے کہ اُسے یقین کرنا پڑےگا کہ انگلش بولنے والے کو بھی گالیاں آتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر کیا کیا جاے ہمارے خود کا۔ جو ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم نے اپنے بچے کو بنیاد کیا دینی ہے؟ اگربچے کیپہلی درس گاہ اسکا گھر ہے۔ اسکی ماں کی گود ہے تو ماں کو علم ہونا چاہیے کہ اسکی دی ہوی بنیاد میں  رخنہ بھی گھر سے ہی لگتا ہے جہاں اسے خود اس چیز کا سبق سکھایا جاتا ہے کہ تم بنجابی سے دور رہو۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجابی کو ہماری آنے ولی نسل جس قدر اہمیت دے رہی ہے اسکے بعد باہر والوں کے رویوں پر ہمارا آہ و بکا کرنا کسی صورت جچتا نہیں ہے۔بیکن ہائوس سے کیا گِلہ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کررہے ہیں۔ ان کا مقصد اور منشور سب پر عیاں ہے۔ ایسے میں اگر وہ اس قسم کا فیصلہ لیتے ہیں تو اس پر حیرانگی نہیں بنتی۔ وہ اپنے کام میں یکسو ہیں۔ ایک کے بعد ایک سنگِ میل وہ طے کرتے رہیں گے۔ اور ہم ہمیشہ کی طرح چند دن سر کھپا کر اسی بھیڑ چال میں شامل ہوتے رہیں گے۔ آخر ذہنی طور پر منتشر ہجوم کو پسند بھی آہ بکا ہی ہے۔ سکون اور ذہنی طور پر ایک مقصد کو لیکر تو ہم چلنے سے رہے۔  جبکہ دوسری طرف بیکن ہائوس طبقے میں ایک چیز کی تعریف کیے بنا گزارہ نہیں ۔اور وہ ہے بغیر لڑے بھِڑے آگے بڑھنا۔ ہم جذبات کاشکار ہوکر آپس میں دست و گریباں، وہ جذبات و احساسات کو ہی اپنی طاقت بنا لیتے ہیں۔ آپ تھوڑا سا غور کر کے دیکھیے، تو یہ بات جان سکتے ہیں،کہ وہ اُسی تعلیم کے سہارے آگے بڑھ رہے ہیں جس تعلیم اور نظامِ تعلیم سے ہمیں اختلاف ہے۔ مگر ہماراختلاف کسی کھاتے میں نہیں۔ کیوں کہ منتشر ہجوم اختلاف کر تو سکتا ہے۔ مگر اس اختلاف سے کوئی نیتجہ نہیں نکال سکتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply