• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایرانی قوم کا استقلال اور امریکی جبر۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ایرانی قوم کا استقلال اور امریکی جبر۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

بہت سے لوگ اس خوش فہمی میں تھے کہ جیسے ہی جیو بائیڈن امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، امریکہ کی خارجہ پالیسی سو فیصد تبدیل ہو جائے گی اور مسلم ممالک کے لیے بہت سی اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔ جاننے والے اس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ امریکہ کی ریاستی پالیسی میں ٹرمپ مسلم ممالک کی وجہ سے مِس فِٹ نہیں تھا، بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ جیو بائیڈن سے بھی کچھ زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہیں، یہ بھی عملی طور پر اسرائیل کو اپنا اثاثہ اور سعودی عرب کو سونے کا انڈے دینے والی مرغی کی طرح انتہائی اہمیت دے گا اور اس کی پالیسی بھی انہیں کے اردگرد گھومے گی۔ امریکہ کے امن پسند حلقے جنہوں نے جیو بائیڈن کو ایران کے ساتھ امن قائم کرنے اور ٹرمپ کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف امید کے طور پر ووٹ دیا تھا، وہ بھی اب حیران ہوں گے۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےجیو بائیڈن نے کہا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام پر، پی فائیو پلس ون کے ساتھ بات چیت پر دوبارہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ سن کر ہی تعجب ہوا کہ کیسی بات چیت؟ امریکہ نے یکطرفہ طور پر معاہدے کو صفر کرکے مسلسل ایرانی عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیے رکھا۔ ایرانی قوم اپنا تیل، اپنی اجناس ہی مارکیٹ میں فروخت نہیں کرسکتے۔ حد تو یہ ہے کہ ایرانی سفارتکاروں تک پر پابندیاں لگا دی گئی اور امریکہ میں ان کی آزادانہ حرکت تک کو محدود کر دیا گیا۔ اسی طرح تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے امریکی صدر نے جنرل قاسم سلیمانیؒ کو اس وقت شہید کیا، جب وہ ایک امن مشن پر عراقی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ان کی دعوت پر بغداد آئے تھے۔ ایران کے اپنے پیسے اسے نہیں دیئے جا رہے، اسی طرح کرونا وبا کے باوجود ایران کو ادویات کی درآمد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے تازہ خطاب میں جوہری معاہدے (JCPOA) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر بہت گفتگو کی جا چکی ہے، اب پھر باتیں کی جا رہی ہیں اور وعدے کیے جا رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ آج اس حوالے سے میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم نے خوشنما باتیں اور وعدے بہت سنے ہیں، جن کی بعدازاں خلاف ورزی کر دی جاتی ہے، تاہم اس مرتبہ صرف عمل! اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایران اب یورینیم کی۶۰ فیصد افزدگی کی طرف جائے گا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے اسلحہ کے معائنہ کاروں کو بھی جوہری سائٹس تک جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایرانی پارلیمنٹ نے پہلے ہی ایک مسودہ قانون کے منظوری دے رکھی ہے، جس کے مطابق 23 فروری تک پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے کوئی واضح اقدام نہ کیے جانے کی صورت میں اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو روکنے سمیت کئی اقدامات کیے جانے ہیں۔

وائیٹ ہاوس کے ترجمان کا بیان آیا ہے کہ ایران کو یورپین اور امریکہ کے ساتھ بات چیت کی دعوت کا جواب دینا چاہیئے، حالانکہ سوال تو برعکس ہے کہ آپ اس معاہدے سے ہی نکل چکے ہو، واپس آو، باقی مذاکرات بعد میں ہو جائیں گے۔ پابندیاں عام پابندیوں سے ہٹ کر ایک جنگی اقدام کی حد تک پہنچ چکی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی اختیار کی، جس کی بنیاد فقط اور فقط جدید کارپوریٹ سیکٹر کا نظریہ تھا کہ کمپنی کو مالی نقصان کا خطرہ دکھا کر من چاہا معاہدہ کر لیا جاتا ہے۔ ایران ناصرف خود مستحکم ہوا بلکہ اس نے خطرات میں گھری دیگر اقوام کی بھی مدد جاری رکھی، جیسے وینزویلا جو انسانیت سوز امریکی پابندیوں کا شکار ہے، ایران نے انسانی بنیادوں پر وہاں گیسولین کے جہاز بھجوائے، جن سے وہاں زندگی کا پہیہ چلنے لگا۔

امریکہ بار بار پانچ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث امریکن ایرانیوں کے ایشو کو اٹھا رہا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے پوری ایرانی قوم پر غیر انسانی پابندیوں کو مسلط کیا ہوا ہے، جس سے ان کی زندگی پر اثر پڑ رہا ہے، انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ان پانچ لوگوں کی پرواہ ہے؟ اصل میں یہ دوسری اقوام کو بدنام کرنے کا ایک ذریعہ ہے، اس کا ان پانچ لوگوں کی ہمدردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی ہونے کی وجہ سے چھوڑ دے؟ وہ یقیناً ایسا نہیں کرے گا۔ برطانیہ کسی دور میں دنیا کی سپر پاور تھا اور اس کے استعماری طور پر قبضہ میں لیے گئے ممالک پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر اب اس کی اپنی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ پہلے ان کی خارجہ پالیسی وہی تھی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ تھے اور اب وہ وہی کہہ رہے ہیں، جو نئی امریکی انتظامیہ کہہ رہی ہے۔ برطانیہ کے جونیئر وزیر خارجہ جیمس کلیوری نے کہا ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، پہلے واپس تمام شرائط پر عمل کرے، یہ ایران کے ہاتھ میں ہے، جے سی پی او اے کے پر عمل کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایران کے وزیر خارجہ نے بالکل درست کہا کہ امریکہ غیر مشروط اور مؤثر طریقے سے ٹرمپ کی طرف سے عائد پابندیوں، دوبارہ عائد کی جانے والی تمام پابندیوں کو ختم کرے۔ اس کے بعد ہم فوری طور پر تمام اقدامات کو واپس لے لیں گے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کو پابندیوں کو ختم ہونا چاہیئے، امریکی صدر نے کچھ سفارتکاروں پر پابندیاں نرم کرنے کا اعلان کیا۔ ایرانی قوم اب امریکی لالی پاپ میں آنے والی نہیں ہے، جیسا کہ سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کہا کہ اب عمل کا وقت ہے، وعدے بہت ہوچکے۔ جیو بائیڈن کو ٹرمپ اور خود میں فرق کو واضح کرنا ہوگا۔ امریکی ابھی تک کی پالیسی ایران کو ملک سمجھنے کی بجائے مالی منافع کے لیے قائم کمپنی سمجھنے کی غلطی ہے، جس کا نتیجہ آج ان کے سامنے ہے۔ ایرانی قوم ایک غیرت مند قوم ہے، اس نے اجتماعی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی جبر کامقابلہ کیا ہے اور اپنے اتحاد سے دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔ امریکہ ایرانی قوم کے استقلال کو شکست نہیں دے سکا اور نہ ہی دے سکے گا۔ یہ بات تسلیم کرکے اور ایرانی عوام کے حقوق کو تسلیم کرکے ہی بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply