زندگی کے میلے ۔ ۔ ۔ آصف جاوید قیصرانی

چاچا سرور بیری کے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ پہ بیٹھا ہوا اپنی کلہاڑی سے بیری کی ٹہنیاں کاٹ رہا تھااور نیچے اس کی بکریاں اور بھیڑیں گری ہوئی ٹہنیوںسے بیری کے پتے اور بیر کھانے میں لگی ہوئی تھیں ۔میں کھیت کی منڈیر پہ بیری کے سائے کے نیچے زمین پہ بیٹھا ہوا تھا۔
چا چا سرا ! میں نے چاچا کو مخاطب کیا ( ہم چاچا سرور کو چاچا سرا ہی کہتے تھے) میں اس بیری کے تنے کے اوپر تک بھی نہیں چڑھ سکتا اور تم نوے سال کی عمر میں بیری کی سب سے اونچی شاخ پہ کیسے چڑھ جاتے ہو؟ ا چھی خاصی ٹہنیوں کو کاٹنے کے بعد چاچا سرور اپنے تہمدکو سنبھالتا نیچے اتر آیا تھا ،اس نے دایاں نحیف پائوںکھسے کے اندر ڈالا ، بائیں طرف کی تیسری پسلی پہ فخر سے ہاتھ ماراکر کہا، پتر یہ ایسے نہیں ہوا تمہارے چاچا نے بہت زیادہ میلے دیکھے ہوئے ہیں۔
چاچا کے جواب بھی ایسے ہی ہوتے تھے، سوال گندم جواب چنا۔ مجھے آج پھر اْس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
چاچا تم اس بیری کی سب سے اونچی شاخ پہ اس عمر میں اس لیے چڑھ سکتے ہو کہ تم نے بہت زیادہ میلے دیکھے ہوئے ہیں؟
ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دفعہ چاچا کی ہوں بہت لمبی تھی۔

 mela2
پتر میں نے بڑے بڑے میلے دیکھے ہیں ، میں نے سخی سرور لالاں والے پیر کی دیگ کا سالن کھایا ہے، پیدل چل کے شہباز قلندر کے میلے پہ گیا ہوں ، داتا کے مزار پہ جْھل چڑھائی ہے، اوچ شریف کے مزاروں کی دیواروں پر ٹیک لگا کہ چلا ہوں اورمنت کے دھاگے بھی باندھے ہیں پیر پٹھان کے مزار کے پچھلی طرف قبرستان میں لڑھکا ہوں، سلطان باہو کے مزار پہ میٹھی ٹانگریاں بانٹیں ہیں۔ پاک پتن کی شکر کی مٹھاس کا ذائقہ توابھی تک منہ میں ہے اورمیں نے مادھو لال کے ڈیوے بھی جلائے ہیں۔

لیکن چاچا ، ان سب واقعات کا بیری پہ چڑھنے سے کیا تعلق؟
پتر بات یہ ہے کہ ، ـ یہ جو میلہ ہوتا ہے نا یہ زندگی ہے ۔میلہ جندڑی کا دوجا نام ہے ، جو میلہ دیکھے وہ ہمیشہ جوان رہے ، مگر چاچاشکسپیئرکہتا ہے کہ یہ زندگی ایک سٹیج ہے اور ہرفرد اپنے حصے کا۔۔۔۔۔۔۔
چاچا نے میری بات پوری سنی ہی نہیں اور الٹا مجھ سے سوال کر دیا تو نے کبھی میلے کا جوبن دیکھا ہے؟
بالکل بالی عمریاکی طرح ! اور پھرمیلے کا آخر آ جاتاہے ، پہلا تمبو گرتا ہے اس کے بعد بہت سارے تمبو گرنے لگتے ہیں ، میلہ ٹوٹتا ہے، تب زندگی ختم ہوتی ہے! میلہ کا ٹوٹنا ـ”وڈی ایمرجنسی” ہوتی ہے ، پتر
مجھے یاد آیا چا چا سرور ہمیں بچپن میں امیر شاہ بخاری کے عرس پہ لے جاتا تھا، بچپن میں امیر شاہ بخاری کا عرس نہیں میلہ ہوتا تھا اب پتہ نہیں کیوں عرس ہوگیا ہے؟

چاچا کا اصرار ہوتا تھا کہ پیدل چلیں گے، پانچ کوس پہ تو اپنے امیر شاہ کی پہاڑی کھڑی ہے ۔لیکن سلسلہ کو ہ سلمان کی پہلی پہاڑی تک پیدل جانے سے میری جان جاتی تھی تب چاچا اور میں شادی خیل بس کی چھت پہ بیٹھ جایا کرتے تھے۔
چاچا بس کی خالی سیٹوں پہ نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ پتر، ضروری نہیں کہ ہر خالی سیٹ پہ آپ ہی بیٹھو، اور یہ بھی ضروری نہیں جو جگہ خالی پڑی ہو وہ تمھارے لیے ہی ہو، پانچ کوہ کا سفر ہے بندہ ویسے بھی توکاٹ سکتا ہے کسی کو اپنی جگہ دے کے، کسی سیٹ پر قبضہ نہ کر کے۔ چاچا کی منطق اس وقت ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی۔

mela1
امیر شاہ بخاری کادربار کیا تھا،سبز جھنڈے کے نیچے سبز چادر سے ڈھکی کچی قبر، کچا دروازہ ، کچی بہشتی موری اور پکے پہاڑ۔
چاچا سرور امیر شاہ کی کچی قبر کو چھوتا اور خالی نظروں سے فضامیں دیکھ کر زور سے اللہ پکارتا، چاچا کی تقلید میں میں ہلکا سا اللہ کہہ دیتا ۔ شاید اتنا آہستہ سے اللہ کہنا میری زندگی کی پہلی محبت تھی۔ ایک دفعہ میں نے کہا تھا کہ آپ دربار پہ آہستہ سے اللہ کہو تب بھی تو اللہ سن لیتا ہے ، چاچا نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیاتھا، لیکن بعد کے آنے والے سالوں میں بھی یہ معمول برقرار رہا۔

پہاڑی کے اوپر سے نیچے میلے کا منظر آج تک آنکھوں میں کْھباہو اہے، وہ جھولا جسے دوگونگے بھائی اپنے ہاتھ سے چلاتے تھے، موت کا کنواں اور وہ سارے تمبو جن میں بہت سی مٹھائی کی اور کھلونوں کی دکانیں ہوتیں تھیں،
ایک پکوڑے بنانے والا لہک لہک کے گا رہا ہوتا تھا، “کھا ، لونگ , لائچی والے کھا، سبز مرچاں والے کھا، مشہور پکوڑے!
حالانکہ اس کے پکوڑوں میں نہ لونگ ہوتے تھے اور نہ الائچی مگر گیت اتنا اچھا تھا کہ اس میں لونگ
اورالائچی سب کا مزہ آجاتا تھا ہماری زندگی کی یہ پہلی ایڈورٹائزمنٹ تھی جس سے ہم آج تک
متاثرہیں،اور مداری کاتماشاجس میں دیکھنے والوں کی جیب سے پیسے غائب ہو جایا کرتے تھے۔
چاچا سرور میلہ پہ ہمیں قصائی کی جلیبی کھلایا کرتے تھے، قصائی کی جلیبی واقعی لذیز ہوتی تھی،

قصائی اور جلیبی کا کیا تعلق؟ یہ ہماری زندگی کا پہلاتضاد تھا۔ ایک رنگی برنگی چھتری کے نیچے گھنگرو کی آواز کے ساتھ کوئی باداموں والی سردائی گھوٹ رہا ہوتا تھا، گھنگرو کی چھن چھن کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی سردائی، ہم کئی گلاس پی جایا کرتے تھے مگر سکرین ملی سردائی سے پیاس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی، یہ سکرین ملا شربت شاید ہماری زندگی کا پہلا دھوکہ تھامگر ابھی تک ہم دھوکہ اور گھنگرو کا تعلق سمجھ نہیں سکے۔

mela3
بعد میں چاچا سرا ہمیں پہاڑوں کے اس پار کھجوروں کے جھنڈ میں لے جاتا تھاجہاں لوگوں کا بہت رش ہوتا تھا ، لوگوں نے مختلف چادروں پہ بہت سے پیسے اور تاش کے پتے پھینکے ہوئے تھے ۔ چاچا تاش والوں سے ہٹ کے کوڈیوں والے کی طرف چلا جاتا، پانچ چھ لوگوں کے گروپ میں بیٹھ کر سولہ کوڈیاں جو خشک ہڈیوں کی طرح ہوتیں اپنے ہاتھ سے ٖفضامیں پھینکتا اور فورًا کوئی نہ کوئی عدد بتادیتا۔ کبھی بتائے گئے عدد کی کوڈیاں الٹی گرتیں اور کبھی سیدھی ، روپے چاچے کے ہاتھ میں آتے اور جاتے رہتے کوڈیاں چاچے کے ہاتھ سے فضا میں اور فضا سے زمیں پر پھسلتی رہتیں ۔اور ہم لڑکے بالے چٹان میں بنے شیر کے جالے میں بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہتے۔

چاچا کے ہاتھ میں جب پیسے کم ہونے لگے تو کوئی آواز دیتا چاچا آپ ہار رہے ہو۔ چاچا پھر خالی خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتا اور ایک انگلی کا اشارہ کرکے زور سے کہتا نہیں ــاللہ مالک ہے”
ہم کچھ بڑے ہوئے تو چاچا کوسمجھانا چاہا کہ کوڈیاںکھیلنا بھی جوئے کی ایک شکل ہے، آپ اس میں بھی کہتے ہو کہ اللہ مالک ہے؟ چاچا جواب دیتا، ہاں سچ ہی تو کہتاہوں ! مگر سچ کہنے اور اللہ کو یاد کرنے کے مواقع اور مقام بھی توہوتے ہیں ہم اْسے سمجھاتے سب چیزوں کے مقام اور مواقع تو تم لوگوں نے بنا لیے ہیں لیکن اپنے اللہ کو تو کہیں بھی یاد کیا جاسکتا ہے ، چاچا انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتا۔

دیکھو چاچا اگر تم نے جو ا ہی کھیلنا ہے تو تاش پکڑ لیا کرو، سنا ہے دنیا کا سب سے بڑا جوا تاش کے پتوں پر کھیلا جاتاہے۔
نہ نہ پتر یہ جو تاش کا بْت ہے یہ آدمی کو بھی مجسمہ بنادیتا ہے، ایک دم بے حرکت۔ تاش کا جوا تو بندے کا دل بھی بند کر کے رکھ دیتا ہے۔ تاش ہوٹل کے کھانے کی طرح بے مزہ ہے اور کوڈی پکھی کو فضا میں تیرمارنے جیسا کھیل ہے۔کوڈی انگلیوں کی پوروں سے کھیلتے ہیں اس میں ہاتھ ناچتاہے، من ناچتا ہے، آنکھ ناچتی ہے اور پلکیں بھی ساتھ، کوڈی کو فضامیں آنکھ سے پکڑنا پڑتا ہے، ایک لمحہ اور بس۔

چاچا تم جیسے لوگوں کے پاس کوئی اور فورم ہے نہیں اور خون گرم رکھنے کے بہانے کو تم کوڈی کے جوئے میں تلاش کر رہے ہو، میری اس بات پر چاچا ہنس پڑتا اور کہتا پتر تم نے کبھی نہ کبھی زندگی میں کہیں نہ کہیں جوا کھیلنا تو ہے امیر شاہ کے پہاڑیوں پہ نہ سہی کہیں اور سہی ۔
شام ڈھلے میں چاچا کے ساتھ قناتوں کے درمیان میں ان سینکڑوں بلوچوں کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا جو بلوچی نڑ الاپتے تھے ، ڈوبتا سورج اور بلوچی نڑ کی دھنیں ،تاریکی میں ڈوبے بے جان کالے پہاڑوں کا سلسلہ ایسے محسوس ہوتا تھا، جیسے زمیں پہ لکھی کوئی آیت۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ان تمام واقعات کو برسوں گزر گئے ، چاچا سرور بھی نہیں رہا، آج امیر شاہ بخاری کے عرس کا آخری دن ہے او رمیں اسی دن کی ڈھلتی شام میں کھجوروں والے جھنڈ کے پچھلی طرف چاچا کی قبر پہ بیٹھا ہوا ہوں ۔ فضا بوجھل ہے، چھوٹی پہاڑی کے اس پار سورج ڈوب چکا ہے۔ہوا کی لہروں پر تیرتے ہوئے کبھی کبھی کان میں بلوچی نڑ کی ’’لے‘‘ آجاتی ہے اور پھر کہیں معدوم ہوجاتی ہے، ہلکی تاریکی میں قدرے زور سے دھک کی آواز آئی ، میں نے پہاڑی کے نیچے دیکھا، پہلا تمبو گراد یا گیا تھا، میلہ ٹوٹ چکا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply