الیاس گھمن، ہمارا رویہ اور سماج کے گھاؤ ۔۔۔۔ وقاص خان

دور نبوی میں سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) پر چند لوگوں نے جھوٹا الزام لگایا تو معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کیا گیا۔ صحابہ کرام کی جماعت میں کھلبلی مچ گئی۔ مدینہ کے گلی کوچے اس عجیب و غریب صورتحال پر حیران و پشیمان تھے۔ کسی کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ صاف ستھرا اور صحتمند معاشرہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار آپ کی بات پر بند آنکھوں یقین کرتے تھے۔ اگر آپ (ص) اعلان فرما دیتے کہ عائشہ صدیقہ(ر) میری بیوی ہیں اور میرے سب سے قریبی دوست کی بیٹی بھی، اس لیے کسی کی الزام تراشی میرے نزدیک ہرگز وقعت نہیں رکھتی۔ تو کیا ہوتا؟؟ مدینہ میں موجود ہر شخص آنحضرت (ص) کی بات کا یقین کرتے ہوئے آپ کی ہاں میں ہاں ملاتا اور زندگی آگے بڑھ جاتی۔

لیکن آنحضرت (ص) نے ایسا نہیں کیا۔ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے۔ بعض نادان جو الزام لگانے والوں کی باتوں میں آ کر شش و پنج میں مبتلا ہو گئے تھے انہیں برا بھلا نہیں کہا۔ اپنے تعلقات کا واسطہ دے کر صفائیاں پیش نہیں کیں۔ بلکہ زمینی حقائق کو دیکھ کر فیصلہ نہ کر پانے کی وجہ سے قادر مطلق کی راہ تکنے لگے یہاں تک کہ قرآن نے سیدہ عائشہ صدیقہ (ر) کے حق میں فیصلہ سنایا اور غم و اندوہ کے بادل چھٹ گئے۔

اس واقعہ میں سوسائٹی اور “اوپینین میکرز” کے لیے سیکھنے کے کئی سبق ہیں۔ جن میں سے ایک بنیادی سبق یہ بھی ہے کہ صحتمند معاشرے جرم اور گناہ کے بارے میں ملزم کی حیثیت اور اس کے تعلقات کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے۔ کیونکہ صحتمند معاشروں میں طبقاتی اونچ نیچ کا تصور نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں یہ روایت نہیں پائی جاتی کہ کسی خاص مسلک، مذہب یا منصب کے حامل افراد کے معاملات دیگر سے برتر یا جداگانہ ہیں۔ مضبوط اور اعلی اقدار پر مبنی سماج ہمیشہ ان رویوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جن کا نتیجہ چند لوگوں کو استثناء دینے کی صورت میں ظاہرہو۔ کیونکہ یہ صورتحال سماج کو دیمک کی طرح چاٹ دیتی ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں کچھ اداروں اور چند گروہوں کو تقدس کی چادر میں لپیٹ کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے اچھے برے کسی عمل پر حرف نمائی کائنات کی لازوال طاقتوں کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف مخصوص لوگوں کی بزرگی اور تقدس کا یہ عالم ہے جبکہ دوسری طرف سماج کی اکثریتی صنف عورت کو شودر سمجھا جاتا ہے۔ حمورابی اور منو کو دنیا کی قدیم ترین دو تہذیبوں کی قانون سازی کا شرف حاصل ہے۔ دونوں اپنے اپنے زمانے کے نامور مفکر تھے۔ حمورابی اور منو سماج اور قانون کے کئی مسائل میں اختلاف رکھنے کے باوجود اس نکتے پر متفق تھے کہ عورت کی حیثیت فقط کھیتی کی ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ عورت کے بارے میں اسی فلسفے کی بازگشت بعد کے سماجی ضابطوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ ہندوستان کی ایک قدیم کتاب “ارتھ شاستر” میں دیوتاؤں کا یہ فیصلہ صاف لکھا ہے کہ “عورت بچپن میں اپنے باپ کی اطاعت گزار ہوتی ہے، جوان ہونے پر شوہر کی اور شوہر کے بعد اپنے لڑکوں کی، اسے کبھی بھی آزادی کا لطف نہیں اٹھانا چاہیے۔”

حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے اسلام نے عورت کو انسان سمجھا، اسے سماج کا اہم ترین کل پرزہ جانا، عورت کو اس کے حقوق دیے۔ جی ہاں ! اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ان کی مثال گزشتہ و موجودہ کسی بھی تہذیب کی نسبت بہت زیادہ اور بہترین ہیں لیکن ہمارا سماج باوجود اسلامی کہلانے کے عورت کو حمورابی، منو اور ارتھ شاستر کے دور کی عورت بنا کر رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ جو سراسر خلاف اسلام ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار میں مختلف دانشوروں نے اظہار خیال کیا اور اس امر پر زور دیا کہ سماج میں عورت کے حقوق کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیمینار کے آخر میں ایک مولانا صاحب نے خاصے تند و تیز لہجے میں کہا : حیران ہوں کہ یہاں عورت کو حقوق نہ ملنے کا شور ڈالا جا رہا ہے۔ کیسے حقوق۔؟ اسلام نے عورت کو سب سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔ ہال میں موجود ایک نوجوان نے ہانک لگائی: مولانا صاحب ہم جانتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیے ہیں لیکن ہمارے اسلامی معاشرے میں عورت کو اسلام کے عطا کردہ حقوق بھی میسر نہیں ہیں۔ مولانا صاحب فورا بولے: اگر ہمارے معاشرے میں عورت کو حقوق میسر نہیں ہیں تو میں کیا کروں۔؟ اسی نوجوان نے جواب دیا: جناب آپ کچھ نہ کریں لیکن ہمیں یہ بتا دیں کہ اسلامی معاشرے کو اسلام سمجھانے کا کام مولوی صاحبان کا ہے ایسے میں معاشرے کو عورت کے حقوق کا علم نہیں ہے یا ان پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس کے مجرم مولوی صاحبان نہیں تو اور کون ہے۔؟

اہل مذہب کا سماج کے حوالے سے یہی رویہ ہماراسب سے بڑا المیہ ہے۔ اگر سوسائٹی کا کوئی عام فرد دین کی تشریح کرنا چاہے تو مولوی صاحبان کہتے ہیں یہ تمہارا نہیں ہمارا کام ہے لیکن جب سوسائٹی کے اخلاقی دیوالیہ پن کا الزام مولوی صاحبان کو دیا جائے یا ان کے شخصی کردار کی خامیاں گنوائی جائیں تو یہی مولوی صاحبان سیخ پا ہو جاتے ہیں، طرح طرح کی ما بعد الطبیعاتی سزاؤں سے ڈرایا جاتا ہے یا پھر سازش اور پراپیگنڈا مہم کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ مولوی الیاس گھمن کا معاملہ دیکھ لیں، جب ان پر الزامات سامنے آئے تو اسوہ نبوی (ص) پر عمل کرتے ہوئے انہیں تفتیش و تحقیق کے لیے پیش کرنے کی بجائے مقابل فریق جو کہ ایک خاتون ہیں، کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی گئی اور جن سے یہ نہ ہوا انہوں نے مولوی الیاس گھمن صاحب کو تنقید سے برتر گنوایا اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات اور ان کی دینی خدمات کا ذکر لے بیٹھے۔

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

قارئین یہاں پہنچ کر کہیں گے کہ راقم مولوی فوبیا کا شکار ہے۔ اس لیے مولویوں کے خلاف اتنا کچھ لکھ گیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بے شک ہمارے ہاں تقریبا ہر اداراہ انحطاط کا شکاراور تمام گروہ خامیوں کا مرقع ہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ نبی اکرم (ص) کی وراثت کے دعویدار بھی خامیوں پر اترانا یا ان کی بے جا تاویلیں کرنے میں لگ جائیں۔؟ مولوی صاحبان سے زیادہ گلہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ وہ وراثت انبیاء کے دعویدار ہیں لیکن ان کا کردار رحمت دو عالم  کے مثالی کردار کے بالکل برعکس ہے، الا ماشاء اللہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہیں ایسا تو نہیں کہ مولوی صاحبان جانے انجانے میں سماج کو ایسے گھاؤ لگا رہے ہیں جو اسے مذہب بیزاری، خدا دشمنی اور اسلام سے دوری کے راستے پر ڈال دیں گے۔ یاد رہے جس زمانے میں یورپ کلیسا اور پاپائیت کے شکنجے سے نکل رہا تھا اس وقت پادریوں کا کردار بالکل اسی طرح کا تھا جس طرح ہمارے آج کے مولوی صاحبان کا ہے۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”الیاس گھمن، ہمارا رویہ اور سماج کے گھاؤ ۔۔۔۔ وقاص خان

  1. جب سوسائٹی کے اخلاقی دیوالیہ پن کا الزام مولوی صاحبان کو دیا جائے یا ان کے شخصی کردار کی خامیاں گنوائی جائیں تو یہی مولوی صاحبان سیخ پا ہو جاتے ہیں، طرح طرح کی ما بعد الطبیعاتی سزاؤں سے ڈرایا جاتا ہے یا پھر سازش اور پراپیگنڈا مہم کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply