الیکشنز کے کھلاڑی اور کتابی تجزیہ کار

الیکشن کمیشن نے چونکہ اپنے اصلی آقاؤں کے ایما پر ساڑھے تین سال اور ساٹھ سے زیادہ میٹنگز میں اتتخابات کا پرنالہ وہیں پر ہی بہنے دیا ہے ، جہاں وہ پچھلے تیس چالیس سال سے بہہ رہا ہے۔ اس لیے قوی (سیلفی والا نہیں) امید ہے کہ آیندہ انتخابات کا نتیجہ بھی انہی کے حق میں نکلے گا، جن کو موجودہ الیکشن سیٹ اپ سوٹ کرتا ہے۔

آئیندہ الیکشن بھی مقناطیسی سیائی کے بغیر اور ان انگوٹھوں کے نشانوں سے ہونے جارہے ہیں، جن میں اور ریٹرننگ آفیسرز کے بھیجے کے فارم کے درمیان تصدیق کرنے کے لیے عدالت عالیہ کو دو سال کا وقت درکار ہوگا، اور اس کے بعد بھی فیصلہ “بھاری مینڈیٹ” والے کے حق میں ہی آئے گا، کہ نشان تو قابل شناخت ہی نہیں ہونگے۔ باہر والے پاکستانی بد ستور انتخابات سے باہر ہی رہیں گے اور ووٹ ڈالنے کا حق انکو نہیں مل سکے گا۔ انکا یہی علاج ہے، وہ باہر جاتے کیوں ہیں، یہیں کیوں نہیں مرتے؟

پاکستان کے الیکشن میں فیصلہ کن فیکٹرز بریانی کی دیگ، ٹرانسپورٹ وین، محلے کے “میاں صاحب”، علاقے کا تھانیدار، پٹواری، علاقے کا “لاثانی سرکار”، آر اوز، جعلی ووٹ بھگتانے والے، اور نتیجہ روک کر انجکشن لگانے والے گروپ ہوتے ہیں۔ جو پارٹی ان عناصر کی ترکیب استعمال سمجھ جاتی ہے وہ اتنخابات کو “بھاری مینڈیٹ ” سے جیت لیتی ہے، اور جو پارٹی اپنی نا تجربہ کاری یا کم ہمتی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی ہے، وہ باقی مدت انتخابی دھاندلی کے لیے سڑک اور عدالت کے درمیان شٹل کاک بن جاتی ہے۔

   اگر نوجوان مجھے معافی دیں تو یہ مقدمے وغیرہ اور انتخابی دھاندلی پر احتجاج کی عادت بد شروع ہی تحریک انصاف نے کی ہے، ورنہ پہلے کی تجربہ کار سیاسی جماعتیں اتنی باشعور تھیں کہ اس سب کو وہ انتخابی “فنکاری” کا حصہ سمجھتی تھیں، اور انتخابات کا نتیجہ قبول کر کے اپنے چیلے چانٹوں کو جوتا کاری کرتی تھیں کہ انہوں نے بتیس ہزار جعلی بھگتائے تو تمہارے چالیس ہزار جعلی کیوں نہیں بھگتے؟

تحریک انصاف کے جوشیلے اور نویلے جوان چونکہ سیاست کی اصطلاحیں بھی اچھی طرح نہیں جاتے ، اس لیے اس فنکاری کو دھاندلی کہہ دیتے ہیں۔ کبھی وہ خود کر کے دیکھیں تو انکو پتہ چلے کہ   “کیا گزرے ہے الیکشن ڈبے پر فل ہونے تلک”۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ کبھی محض انگوٹھے کی سیاہی کو دل کی سیاہی سے بدل کر دوبارہ ووٹ ڈالنے کو ہی دھاندلی کی انتہا سمجھا جاتا تھا۔  پھر یار لوگوں کو زندوں کے ساتھ ساتھ مرے ہوئے رشتہ داروں کے ووٹ ڈالنا بھی یاد آگیا۔

 مگر الیکشن دھاندلی کو سائنس کی شکل ان لوگوں نے دی، جن کی تربیت ہی دھونس، دھاندلی، لوٹ کھسوٹ، اور غنڈہ گردی کی یونیورسٹیوں میں ہوئی تھی۔ ریٹرننگ آفیسروں، مرضی کی جگہ کے پولنگ اسٹیشنز، اور علاقے کے ایس پی ، ڈی ایس پیز کو کس طرح اپنے ساتھ رکھ کر معاملات اپنی شاملات کے حق میں کرنے ہیں، اس پر مغربی جمہوریت پڑھنے والے آیندہ صدی تک ہی شائد پہنچ پائیں گے۔

کمپیوٹر اور نادرا کی محبت میں عوام امید سے ہو گئے تھے کہ شائد جعلی ووٹنگ کا خاتمہ ہو سکے گا، اور بھاری مینڈیٹ اصلی مینڈیٹ میں بدل پائے گا۔ مگر نادرا کے چئیرمین کو کتاب “موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہوگا” ، تحفے میں دیکر موجودہ حکومت نے نادرا سے وہ وہ ٹھمکے لگوائے ہیں کہ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا والی صورتحال ہوگئی۔ حالیہ ضمنی الیکشنز میں بندے کو آخری وقت تک پتہ نہیں ہوتا کہ اسکا ووٹ اسی حلقے میں ہے یا نادرا کے جاندار ٹھمکے نے اس کو جلندھر پہنچا دیا ہے۔

موجودہ الیکشنز کے کھلاڑی کسی بھی طرح ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں سے کم نہیں ہیں۔  انہوں نے ہر گذرنے والے انتخابات میں نئے نئے انداز کی دھاندلی، سوری فنکاری،  کر کے اپنے  خیال کی روانی اور مہارت کو اگلے درجوں میں پہنچا دیا ہے۔ یہ ہر حلقے کی پچ کے حساب سے کھیلتے ہیں،  جس علاقے میں پٹواری کا زور نہ ہو، وہاں پر نادرا کا “ثقافتی شو” رکھ لیتے ہیں ، اور جہاں  پر آخری دنوں میں سیوریج پکی کرانے کی رشوت نہ چل سکے تو وہاں تھانیدار کا ڈنڈا چلالیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الیکشن کمیشن کے کامیابی سے ساڑھے تین سال گذار  نے کے باوجود اگر کچھ ناتجربہ کار سیاسی جماعتیں یہ سوچ رہی ہیں کہ وہ آئیندہ انتخابات میں خود نگرانی کریں گی اور کسی “فنکاری” کو نہیں چلنے دیں گی تو انکو شائد اندازہ بھی نہیں کہ ان پانچ سالوں میں انتخابی فنکار  مزید پختہ ہو چکے ہیں۔ میرا خیال ہے اس مرتبہ وہ کچھ اور ایسی چالیں لیکر آئیں گے جن کا پتہ بعد میں چلے گا، اور میرے جیسے کتابی تجزیہ کار سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا تھا؟

Facebook Comments

محمودفیاض
زندگی سے جو پوچھا ہے، زندگی نے جو بتایا ہے، ہم نے کہہ سنایا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply