شہدائے کوئٹہ کی میتیں گاڑیوں کی چھتوں پہ کیوں؟

طاہر یاسین طاہر کے قلم سے
گذشتہ سے پیوستہ روز پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے میں 61 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ شہید اہلکاروں کا تعلق بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تھا۔ شہدا کی نماز جنازہ موسیٰ سٹیڈیم کوئٹہ میں ادا کی گئی جس میں آرمی چیف،وزیر اعظم اور دیگر سول و عسکری اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔میتوں کی آبائی علاقوں کو روانگی کا وقت آیا تو بلوچستان حکومت نے شہداء کی میتوں کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر ایمبولینسز کے ذریعے بھجوانے کے بجائے ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کر بھجوایا۔ صوبے میں 30 ارب کا بجٹ ہونے کے باوجود قوم کے ان شہداء کے لیے ایمبولینسز کا انتظام نہ کیا جا سکا۔ ترجمان بلوچستان حکومت انوار الحق کاکڑ نے انوکھی منطق پیش کی کہ جن علاقوں کو یہ میتیں بھجوائی گئی ہیں وہاں ایمبولیسنز کے جانے کیلئے راستے موجود نہیں ہیں۔

یہ ایک درد ناک منظر تھا جسے پوری قوم نے ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر دیکھا۔کوئٹہ گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردوں کی ظالمانہ کارروائیوں کا نشانہ ہے۔بلوچستان کے عوام اگر اپنی محرومیوں کا رونا روتے ہیں تو اس میں سچ بھی ہے۔اگر یہی حادثہ خدانخواستہ کے پی کے،سندھ یا پنجاب میں ہوا ہوتا تو بے شک ایمبولینسز اور ہیلی کاپٹرز کا فوری انتظام ہوتا۔دہشت گرد کون تھے؟ ان کا کس سے رابطہ تھا؟ ان کا آپریشن کہاں سے کنٹرول کیا جا رہا تھا؟اس حوالے سے اب بیانات آ رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔اس معاملے کو افغانستان اور بھارت کے ساتھ اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا رابطہ افغانستان سے تھا اور بے شک افغان سرزمین کو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال بھی کرتا ہے۔ مودی اس حوالے اعلان بھی کر چکے ہیں۔ گذشتہروز ہم نے ان ہی سطور میں کہا تھا کہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی سہ جہتی وجوہات ہیں۔یہ منظر لیکن لواحقین کے ساتھ ساتھ اہل درد اور محبان وطن کو بھی اداس کر گیا ہے کہ وطن کی خاطر قربان ہونے والوں کے لیے سرکاری طور پہ ایمبولینسز بھی میسر نہ آسکیں اور شہدا کے قابل احترام جسد خاکی ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کر روانہ کر دیے گئے۔ اس کی وجہ صوبائی حکومت نے جو بیان کی وہ اپنی جگہ ایک اور دردناک حقیقت ہے۔صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں یہ میتیں بھجوائی گئی ہیں وہاں کے راستے خستہ حال ہیں اور ایمبولینسز وہاں نہیں جا سکتی تھیں اس لیے مسافر گاڑیاں بھجوائی گئی ہیں اور وہ بھی لواحقین کی رضامندی سے۔ سوال یہ ہے کہ جن دور دراز علاقوں میں سڑکیں نہیں ہیں وہاں سڑکیں بنوانا کس کا کام ہے؟تیس ارب کا بجٹ کیا صرف صوبائی اراکین اسمبلی اور بیوروکریسی کے پروٹوکول کے لیے ہے؟لواحقین کو جب سرکاری طور پر یہ بتایا گیا ہو گا کہ ایمبولینسز نہیں ہیں تو وہ مسافر گاڑیوں پر میتیں لے جانے پر رضا مند نہ ہوتے تو اور کیا کرتے؟ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے شہدائے وطن کے لہو کے ساتھ یہ افسوس ناک مذاق کیا گیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ کوئٹہ میں ڈھنگ کو ایک ہسپتا ل بھی نہیں جہاں زخمیوں کا علاج کیا جا سکے۔کوئٹہ میں کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے بعد زخمیوں کو کراچی لے جایا جاتا ہے۔کوئٹہ کے باسیوں کے لیے نہ سیکیورٹی کا مناسب بندوبست ہے نہ علاج معالجہ کا۔شہدا کی میتوں کے لیے کوئی ایمبولینس ہے نہ بلوچستان والوں کے لیے کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ۔اس پر یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ بلوچ ناراض ہیں۔دیگر وجوہات اپنی جگہ مگر جو ناراض نہیں ہیں ان کے لیے حکومت نے کیا کارنامے انجام دے رکھے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سمجھتے ہیں کہ شہدا کی میتوں کی یوں روانگی کی تحقیقات ہونا چاہیے اور پارلیمانی کمیٹی ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کرے۔بلوچستان حکومت کو شہدا کے لواحقین سے معافی بھی مانگنا چاہیے۔اس منظر نامے سے سیکیورٹی اداروں کے جوانوں کا مورال ڈائون ہوا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ سیاست دانوں کے تو بچوں کے لیے بھی پروٹوکول گاڑیاں موجود ہیں مگر شہدا کے لیے ایمبولینس کیوں نہیں؟اس کی سادہ وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچ عوام کی تعمیر و ترقی کے نام پر لیے جانے والے فنڈز ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی حکومت نہ صرف ایمبولینسز خریدے بلکہ پہلے سے موجود ایمبولینسز کی تعداد بھی میڈیا کو بتائے نیز جن دور دراز علاقوں کے راستے کچے اور خستہ حال ہیں وہاں فوری ترقیاتی کام شروع کیے جائیں۔بلوچوں کے نام پر اکٹھا کیا جانے والا فنڈ غریب بلوچوں کی زندگیاں بہتر کرنے کے لیے بھیخرچ ہونا چاہیے۔شہدا کی میتوں کے روانگی کے منظر نے عالمی سطح پر بھی بلوچستان کی حکومت کی نا اہلی کا پول کھول دیا ہے۔کاش بلوچ سردار بھی اس منظر کا درد محسوس کریں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply