تصویر میں نظر آنے والی مچھلی اندھی مچھلی ہے۔ یہ مچھلی سمندر کی غاروں میں رہتی ہے۔ گو اس مچھلی کے ڈی این اے میں آنکھوں والے جینز کے کوڈ موجود ہیں لیکن اُن کوڈز کے اوپر میتھائل گروپ اٹیچ ہیں جن کی وجہ سے مچھلی آنکھوں کو بنا نہیں پاتی اور اسی وجہ سے یہ مچھلی اندھی ہے۔
ہزاروں سالوں سے سمندر کے اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے اس مچھلی کے ڈی این اے نے کچھ ایسی تبدیلیاں خود میں شامل کر لی ہیں جن کی وجہ سے آنکھوں والے حصوں کو خاموش یا پھر سائلنٹ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح دریائے سندھ کے گندلے پانیوں میں رہنے والی انڈس ڈولفن بھی اندھی ہے کیونکہ اسکو آنکھوں کی ضرورت نہیں اس لئے اُس کے ڈی این اے نے ان جینز کو سائلنٹ کر دیا ہے جو آنکھیں بناتے ہیں۔ اسکے نتیجے میں وہ اپنی انرجی کو کِن نئے کاموں میں خرچ کرتی ہے، اسکا فی الحال مُکمل علم نہیں ہے۔
یاد رہے یہ تمام خصوصیات بائیولوجی کی ایک اور برانچ ایہپی جنیٹکس میں آتی ہے جس میں ہم ان خوبیوں کا مطالعہ کرتے ہیں جو ہمِن اپنے والدین کی طرف سے ملیں یا پھر ہمارے ماحول کی وجہ سے ہم میں اپنے والدین سے ہٹ کر وہ خوبیاں آ گئیں۔ اور علم کی یہ برانچ سب سے زیادہ حیران کُن برانچ ہے۔ ان مچھلیوں کو دیکھ کر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ارتقاء کی کوئی سَمت نہیں ہوتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں