مصنوعی ذہانت کیا ہے؟/2،آخری حصّہ-ندیم رزاق کھوہارا

آج کا دور 

درجہ بالا تحریر پڑھتے ہوئے آپ کو لگا ہو گا کہ اے آئی صرف کھیل کی حد تک انسانوں کو مات دینے تک محدود ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وقت کے اس لمحے جب آپ میرے یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں مصنوعی ذہانت تقریباً ہر شعبہ زندگی میں قدم جما رہی ہے۔ آپ کے اسمارٹ فون میں موجود گوگل تلاش مصنوعی ذہانت سے لیس ہے۔ آپ سرچ بار میں جاتے ہیں۔ اپنا کوئی بھی مطلوبہ لفظ ٹائپ کرتے ہیں جس کے بارے میں جاننا چاہتے  ہیں ، گوگل چند سیکنڈ میں لاکھوں نتائج سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ اس کے پیچھے مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کارفرما ہیں۔ جو کہ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بہتر بنا رہے ہیں۔ اور صارف کے رویے و ردِعمل کی سمجھ اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ نتائج کے غیر متعلقہ ہونے کی نسبت کیا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ خودکار طریقے سے بہتری لاتے ہیں۔ یہ بہت عام مثال تھی۔۔۔ شعبہ طِب سے لے کر صنعت و حرفت اور تجارت تک میں مصنوعی ذہانت پر مشتمل مشینی۔ کارفرما ہیں۔ چلیے ذرا مختصراً ان شعبہ جات کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کرتے ہیں ۔

اطلاقیات:

شعبہ طِب میں سرجری یعنی آپریشن سب سے پیچیدہ عمل ہے جسے اسی شعبے کے لیے مخصوص ماہر ڈاکٹروں کے بغیر سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن حال ہی میں خودکار روبوٹ نے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر حسّاس نوعیت کے آپریشن بھی انتہائی مہارت سے کیے ہیں۔ جس کی تصدیق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی کی گئی۔ ان روبوٹ کے پس پردہ آئی بی ایم کے تیار کردہ واٹسن پروگرام کی تکنیک کارفرما رہی۔ جس کے متعلق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام کامیابی حاصل کرنے کے لیے سیکھنے کے عمل سے بھی گزرتا ہے۔ اور ڈاکٹروں کا بغور معائنہ کرتے ہوئے سیکھتا ہے کہ کیسے ایک آپریشن کو درست طریقے سے انجام دیا جائے۔

یہی نہیں کئی پیچیدہ بیماریاں مثلاً سرطان وغیرہ جن کے لیے سینکڑوں اقسام کی ادویات موجود ہیں۔ اور انہیں مریض کی صحت، مرض کی حالت، تشخیص اور اسی طرح سے دیگر عوامل کی بنیاد پر تجویز کیا جاتا ہے۔ اے آئی پر مبنی روبوٹ ان سینکڑوں اقسام کو عوامل سمیت تجزیہ کر کے کسی ایک دوا کا انتخاب نہایت درستگی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ مرض کی تشخیص اور دوا کے انتخاب میں درستگی کی شرح 95 فی صد تک پائی گئی ہے۔

آٹو سیکٹر:

بغیر ڈرائیور کے خودکار کاروں کے متعلق آپ نے یقیناً  سُن رکھا ہو گا۔ یہ مصنوعی ذہانت پربنی پروگراموں سے لیس ہیں۔ اس وقت بغیر ڈرائیور کاروں پر دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ جن میں ٹیسلا، گوگل اور ایپل سر فہرست ہیں۔ یہ کام اب تخیل سے حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اور امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بغیر ڈرائیور کی کاریں مخصوص سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ تاہم یہ ابھی تجرباتی فیز سے گزر رہی ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں جدّت لا کر خطروں سے پاک ماحول دوست بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال 2018 میں خبر آئی تھی کہ اوبر کی بغیر ڈرائیور کار نے تجرباتی ڈرائیو کے دوران ٹکر مار کر ایک راہ گیر کو ہلاک کر دیا ہے۔ جس پر دنیا بھر کے میڈیا میں اے آئی آٹو سیکٹر پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ تاہم اس شعبے پر عملی کام مسلسل جاری ہے۔ اور امکان ہے کہ اگلے چار سے پانچ سالوں میں مصنوعی ذہانت سے لیس بغیر ڈرائیور کاریں عام سڑکوں پر دوڑتی نظر آئیں گی۔

دفاع:

اے آئی پر فنڈ مختص کرنے میں شعبہ دفاع کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2015 تک روبوٹک میں دفاعی سطح پر عالمی طور پر ساڑھے سات ارب ڈالرز سے زائد رقم صَرف کی جا رہی ہے۔ رقم کا زیادہ تر حصّہ ایسے پروگراموں پر خرچ کیا جا رہا ہے جس میں دشمن افواج پر حاوی ہونے کے لیے روبوٹ فوجیوں اور ایسے آلات کا استعمال کیا جا سکے جو کہ اے آئی سے لیس ہوں اور دشمن کی چالوں کا بروقت اندازہ لگا سکیں۔

اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کے بے شمار اطلاقات ہیں۔ جن کا تذکرہ اس تحریر کو بہت زیادہ طویل کر دے گا۔ مختصر یوں سمجھ لیجیے کہ اشیاء کا انٹرنیٹ (انٹرنیٹ آف تھنگزفائیو جی اور روبوٹک ٹیکنالوجی کے عام ہونے کے بعد اے آئی ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہو گی۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کھانے پینے سے لے کر پیشہ ورانہ کام تک سر انجام دینے میں اے آئی اپنا کردار ادا کرے گی۔ اب آتے ہیں ذرا اے آئی کی تکنیکی تفصیلات کی جانب۔۔۔ سب سے پہلے مصنوعی ذہانت کی  اقسام

اقسام 

مصنوعی ذہانت کو بنیادی طور پر تین اقسام یا مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ کمزور مصنوعی ذہانت Narrow AI

کمزور یا مخصوص مصنوعی ذہانت، اے آئی کی وہ قسم ہے جس میں مشین دستیاب ڈیٹا کو پہلے سے طے شدہ دی گئی ہدایات کے مطابق پراسیس کر کے فیصلہ کرنے یا ردِعمل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تکنیک سے لیس مشین کسی مخصوص شعبے میں بہترین کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ گوگل کی الفاگو یا آئی بی ایم کی واٹسن۔۔۔ تاحال مصنوعی ذہانت کے حوالے سے جتنی بھی مشینیں یا پروگرام  ایجاد کیے جا چکے ہیں وہ سب کمزور مصنوعی ذہانت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ان میں ایمیزون کی الیکزا، ایپل کی سری، اور مشہور روبوٹ صوفیہ شامل ہیں۔

2۔ عمومی مصنوعی ذہانت General AI

یہ مصنوعی ذہانت کی وہ قِسم ہے جس میں مشین انسانی دماغ کے برابر ذہانت کا مظاہرہ کر سکے۔ تاحال ایسی کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو بالکل انسانی دماغ کی طرح کام کرتے ہوئے فیصلے کر سکے۔ اسے مضبوط یعنی اسٹرانگ اے آئی بھی کہا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کی طرح معلومات کی پراسیسنگ اور اسباب و علّت کا پتہ چلا کر اس کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت مضبوط اے آئی کہلاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جلد ہی مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت پر تحقیق مضبوط اے آئی میں داخل ہو جائے گی۔

3۔ سپر مصنوعی ذہانت Super AI

مصنوعی ذہانت کی یہ وہ قسم ہے جو ابھی صرف سائنس فکشن کی حد تک محدود ہے۔ اور اس کے بارے میں دنیا کے نامور سائنسدان اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ سپر اے آئی سے مراد مصنوعی ذہانت کی وہ قسم ہے جس میں مشین انسانی دماغ سے بھی بڑھ کر سوچ سکے۔ شعور یعنی خود آگہی کی منزل کو حاصل کر کے اپنے آپ کے بارے میں آگاہ ہو سکے۔ اور اسی کے مطابق کام کر سکے۔

شاخیں:

یوں تو مصنوعی ذہانت کی بے شمار شاخیں ہیں۔ جن کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں تاہم بار بنیادی شاخیں ہیں جن میں:

مشینی اکتساب Machine Learning

گہرا اکتساب Deep Learning

زبان کی قدرتی پراسیسنگ NLP

اور روبوٹک شامل ہیں۔

مشینی اکتساب سے مراد مشین کی جانب سے خودکار طریقے سے ڈیٹا کو ترجمہ، پراسیس اور تجزیہ کر کے زندگی کے عام مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ گہرا اکتساب ایک ایسا عمل ہے جس میں باقاعدہ ایک اعصابی نظام یعنی neural network تشکیل دیا جاتا ہے۔ جو کہ حاصل کردہ ڈیٹا کو گہرائی میں جا کر جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اور مشینی ذہانت کی نسبت زیادہ پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چہرے کی شناخت، خودکار کاریں اور الیکزا وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ این ایل پی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے زبان کی قدرتی طور پر پراسیسنگ کی صلاحیت ہے۔ اس کے ذریعے اےآئی اس قابل ہوتی ہے وہ کسی بھی زبان کوبالکل انسانوں کی طرح سمجھ سکے اور بول سکے۔ اس تکنیک کو استعمال کر کے ٹوئٹر اور ایمیزون جیسے ادارے اپنے صارفین کے رحجانات کو بخوبی پتہ لگا لیتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کا استعمال خودکار ترجمہ نگاری اور روبوٹک کی دنیا میں بھی کیا جاتا ہے۔ آخر الذکر یعنی روبوٹکس سے تو قارئین یقینی طور پر واقف ہوں گے۔

مصنوعی ذہانت سے لیس مشینی روبوٹ جو کہ روزمرہ کاموں کو انسانوں کی طرح سر انجام دے سکیں۔ یہ سب روبوٹک کے ذمرے میں آتا ہے۔

قارئین مصنوعی ذہانت کے حوالے اب تک آپ کافی کچھ جان چکے ہیں۔ اب آتے ہیں اس سوال کی جانب جو تحریر کی ابتداء سے قارئین کے ذہن میں امڈ رہا ہو گا۔ یعنی مصنوعی ذہانت سے انسانیت کو درپیش خطرات پر۔۔۔

تقدیر پلٹ گئی اور ہم لاچار کھڑے دیکھتے رہ گئے

یہ ڈائیلاگ مشہورِ زمانہ سائنس فکشن فلم “دا میٹرکس” کا ہے۔ اس   فلم میں  دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اکیسویں صدی کی ابتداء میں جب انسان مصنوعی ذہانت پر ہونے والی پیش رفت پر خوشیاں منا رہے تھے۔ لیکن اسی مصنوعی ذہانت نے خود آگہی کی منزل حاصل کرنے کے بعد پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشینوں نے اپنے جیسی بے شمار مشینیں بنا کر انسانوں کو  اپنا غلام بنا لیا اور ان کے بدن سے پیدا ہونے والی حرارت کو اپنی طاقت کے لیے یوں استعمال کیا جیسے بیٹری میں موجود سیل۔۔۔ یہ جملہ اسی تناظر میں بولا گیا۔ میٹرکس ہی نہیں بے شمار سائنس فکشن فلموں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کس طرح انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ فکشن تو فکشن ہوتا ہے۔ اس لیے مصنوعی ذہانت سے انسانوں کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ تو بتاتا چلوں کہ یہ بات صرف سائنس فکشن تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے نامور سائنسدان، انجینئر اور شعبے کے ماہرین اس خطرے سے دنیا کو پیشگی آگاہ کر چکے ہیں کہ مصنوعی ذہانت پر تحقیق اگر اسی طرح جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب مشین انسان پر غلبہ پا لے گی۔ اس حوالے سے بیسویں صدی کے نامور سائنسدان اور ماہرِ طبیعات ڈاکٹر اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ سپر مصنوعی ذہانت پوری نوعِ انسانیت کو ختم کر دے گی۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک نے سپر اے آئی کو لافانی آمر سے تشبیہ دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بار انسانی ذہانت کی حد کو پار کر لینے کے بعد اے آئی مشینیں اپنی کبھی ختم نہ ہونے کی اہلیت کے باعث انسانیت کے لیے ایک ایسے لافانی ڈکٹیٹر کا درجہ اختیار کر جائیں گی جن کا حکم ہمیں بہرحال ہر حال میں ماننا ہو گا۔

مصنوعی ذہانت پر تنقید صرف سائنسدانوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے خدشات تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت اگر سپر ذہانت تک نہ بھی پہنچ پائی تب بھی اس کی وجہ سے روزگا کے بے شمار مواقع ختم ہو جائیں گے۔ ہر کام خودکار ہونے کی وجہ سے ہر طرف مشینوں کا راج ہو گا۔ جبکہ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم اس حوالے سے کچھ ماہرین پر امید ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے باعث جہاں کچھ ملازمتیں یا روزگار ختم ہوں گے وہیں نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ جیسا کہ روبوٹ کے آنے سے کارخانوں میں ہیلپر کی آسامی ختم ہوئی تو مشین آپریٹر کی ضرورت نے جنم لیا۔

اختتامیہ:

Advertisements
julia rana solicitors

مصنوعی ذہانت پر خدشات ایک طرف، یہ بات طے ہے کہ اب اس پر تحقیق کو روکا نہیں جا سکتا۔ اے آئی پر اب کوئی خزاں آنے والی نہیں۔۔۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ اسے سپر ذہانت میں تبدیل ہونے سے روکا جائے۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply