معیشت، تبدیلی اور پارلیمنٹ۔۔۔توقیر یونس

گوادر بندرگاہ، کوسٹل ہائی وے، پہاڑوں کو کاٹ کر سرنگیں بنا کر ان میں موٹر ویز، صنعتی ترقی، نان ٹیکنیکل تعلیم کی بجائے ٹیکنیکل تعلیم اور نئی یونیورسٹیوں کا قیام، پی ایچ ڈی لیول تعلیم پر خصوصی توجہ، 192 بڑے پروجیکٹس، 3400 اسکیمیں، دور دراز کے دیہاتوں تک سڑکوں کا جال، ڈالر پر کنٹرول، درآمدات کم کردی گئی کچھ پر پابندی لگا دی گئی زرعی مشینری کی درآمد پر پابندی صرف اندرون ملک تیار کرنے کی اجازت، اندرونی اور بیرونی قرضوں میں کمی، ملکی ذخائر اور سرمایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ، قانون سازی، نئے اداروں کا قیام، ریفارمز وغیرہ وغیرہ،۔۔۔ چند برے کاموں کو چھوڑ کر یہ صدر مشرف کی آمریت کے وہ اچھے کام تھے جو اسکے بعد مسلسل آنے والے جمہوری سیاستدان نہ کرسکے۔

پیپلز پارٹی اور زرداری کے دور حکومت, اٹھارویں ترمیم، صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنا، گلگت بلتستان کو نمائندگی اور نام دینا، صوبائی کی خود مختاری، سیاسی انتقام نہ لینا کے علاوہ ایک بدترین دور تھا نہ قانون سازی اور نہ ہی سرمایہ کاری، قرضوں اور لوڈشیڈنگ میں ریکارڈ اضافہ، اقرباء پروری، تاریخ کی بدترین منی لانڈرنگ، صنعتی زوال، صنعتکاروں کا پاکستان کو چھوڑ کر بنگلہ دیش میں صنعت سازی کرنا، ایبٹ آباد آپریشن، مہنگائی، تعلیمی بدحالی، بیروزگاری غرض آپکو کوئی بھی اچھی چیز اس دور کی نہیں مل سکتی۔

پھر نواز شریف اور مسلم لیگ نے کشکول توڑنے اور زرداری سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا وعدہ کیا اور حکومت بنا لی، حکومت بننے کے شاید دو ماہ بعد آئی ایم ایف کے پاس کشکول لیکر پہنچ گئے ورلڈ بینک، چین سعودی عرب اور امارات سے قرضے لیے گئے ان قرضوں سے موٹر ویز، بجلی کی پیداوار بڑھانے، ایرپورٹ، میٹرو اور لاہور کو نوازنے کا کام کیا گیا، پھر چین کی سرمایہ کاری کروائی گئی جو لانگ ٹرم قرضوں پر تھی جس کے بدلے، قرضوں سے بنائے ہوئے ایرپورٹ، موٹر ویز، بندرگاہوں زرعی زمین اور ریلوے ٹریک کو رہن رکھوایا گیا اور قرض لینے کی باقاعدہ تقریبات رکھی گئی، مہنگائی بیروز گاری قانون سازی نئے اداروں کا قیام ریفارمز یہ سب مسلم لیگ ن بھی نہ کرسکی، چند اسکیمیں شروع کی گئی جن میں کرپشن کی نیب ابھی تک تحقیق کررہی ہے اور ملزم ملک سے فرار ہیں، منی لانڈرنگ ہوئی، وزیروں کے گھروں سے نقد روپیہ برآمد ہوا، ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کروائی گئی، برآمدات گھٹا کر درآمدات میں اضافہ کیا، نہ احتساب ہوا نہ زرداری کی دولت واپس لائی گئی اور نہ ہی خزانے کو بھرا جاسکا بلکہ ماہرین کے نزدیک قرضوں کے مصنوعی بوگس مارکیٹوں بنا کر ترقی دکھائی گئی اور حکومت جاتے ہوئے پاکستان کے بیرونی قرضے 99.1 بلین ڈالر پر چھوڑ گئی جو 2006 میں صرف 36 بلین ڈالر تھے.۔

گزشتہ تمام حکومتوں نے حسب  استطاعت قرض لیا اور بڑھایا لیکن قرض واپس کیسے ہوگا اسکا کوئی لائحہ عمل نہ طے کرسکے، نہ ہی کوئی ایسا پروجیکٹ لگا سکے جو ملکی قرض اتارنے میں مددگار ہوتا بلکہ پورے ملک کا نظام ڈالر اور برآمدات پر کھڑا کردیا اسوقت پاکستان اور پاکستانی مقروض بھی ہیں اور غیر ملکوں کے محتاج بھی، پاکستان 200 ادارے خسارے میں چل رہے ہیں جو لگاتار سبسڈی سے چلائے جارہے ہیں، کوئی بھی پاکستانی پاکستان کی مصنوعات استعمال کرتا نظر نہیں آتا اور کرے بھی کیوں دودھ سے لیکر ادویات تک جعلی مصنوعات ہیں اور قانون لولا لنگڑا لاچار، رمضان میں افطاری ایران اور سعودی کجھور سے ہوتی ہے جو صرف صفائی اور اچھی پیکنگ کی وجہ سے دل کو لبھاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

پھر باری آئی تبدیلی کے نعروں اور وعدوں کی جس نے روایتی سیاستدانوں سے بیزار عوام کو متوجہ کیا اور اپنا ووٹ تبدیلی کے پلڑے میں ڈال دیا، کپتان کی حکومت میں زیادہ تر نئے چہرے شامل تھے جن کو ٹیکنو کریٹس کہہ کر متعارف کرایا گیا، اب تقریباً 9 ماہ کی حکومت ہے جو اپنے پہلے 100 روزہ پلان میں ناکام ہوگئی، پھر پچھلی حکومتوں کے قرضے اور کارنامے گنوائے جاتے رہے اسی دوران ہمسایہ دوست ممالک سے قرضہ جات کا حصول جاری رہا، حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے متعلق کشمکش کا شکار رہی جو بظاہر ناقص مشوروں کا نتیجہ رہا، ڈالر نے اونچی اڑانیں بھرنی شروع کردی ملک میں آہستہ آہستہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر ٹیکس لگنا شروع ہوگیا، حکومت بظاہر اپنے اعلانات میں سنجیدہ لگتی رہی کہ درآمدات کو کم کرنے کے بعد برآمدات کو بڑھایا جارہا ہے اسد عمر صاحب نے امپورٹڈ چیز cheese پر پابندی لگا دی جس سے آپکی ٹیم کی ترجیحات کا اندازہ ہوگیا ،۔

ملک درست سمت میں ہے عوام براہ راست مہنگائی سے متاثر نہیں ہوگی لیکن سب کچھ اسکے برعکس ہوا، حکومت ممالک سے شخصی قرض لینے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام میں چلی گئی، بانڈ بنا لیے ان پر مزید قرضے لیے جائینگے، ایمنسٹی اسکیم تیار کردی گئی، ٹیکس ریونیو نہ بڑھ سکا لیکن عوام پر پٹرول، بجلی، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کو بڑھا دیا گیا، یہ سب وہ کام ہیں جو پچھلی حکومتوں نے  تواتر سے کیے اور جناب تو ریفارمز اور ان چیزوں سے نجات دلانے کا وعدہ کرتے تھے لیکن نہ ہی قانون سازی کرسکے نہ ہی ریفارمز، وہی گھسی پٹی اسکیمیں غریبوں کیلئے سڑکوں پر خیمے نما گھر صحت کارڈ وغیرہ لیکن یہ تو ایسی اسکیمیں ہیں جن کو اگلی آنے والے حکومت یکدم ختم کرسکتی ہے جیسے اس حکومت نے میٹرو اور حج پر سبسڈی ختم کردی، ساہیوال، گوادر، کراچی، جیسے واقعات    رونما ہونے لگے لیکن آپ نہ تو نئے اداروں کا قیام  عمل میں لا کے نہ ہی پرانے اداروں میں ریفارم کراکے، جو آپکے ساتھی منتخب نہ ہوسکے وہ آپ نے وفاق اور صوبوں میں مشیر اور معاون خصوصی لگادیے جس پارلیمنٹ نے آپکو وزیراعظم منتخب کیا آپ نے وہاں جانا ہی چھوڑ دیا آپ جرمنی اور جاپان فرانس وغیرہ کی مثالیں دیتے ہیں کرتار پور بارڈر کھول دیتے ہیں جنگی قیدی واپس کردیتے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں منتخب اراکین کو آپ غیر ملکی مہمانوں سے نہیں ملاتے،اپوزیشن کا کوئی پنچھی اڑ کر آپ کی چھت پر آجائے تو آپ اسکو مشیر وزیر اور معاون لگالیتے ہیں لیکن اپوزیشن سے آپ مفاہمت نہیں کرتے حالانکہ آپ کی حکومت اپوزیشن کی وجہ سے کھڑی ہے، آزاد امیدوار جو بقول آپ کے جیت کر اپنی قیمت لگواتے ہیں ان کو شامل کرنے میں اگر ترین کی بجائے آپ کا کچھ خرچ ہوتا تو شاید آپ انکی اہمیت سمجھتے۔ آپ کہتے ہیں اداروں اور پولیس نیب وغیرہ کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف آپ کہتے ہیں آپ نہ کسی کو چھوڑیں گے نہ این آر او کریں گے، یہ آپ کسی  اختیار کے تحت ایسا کرسکتے ہیں؟ آپ کے پولیس، نیب، عدلیہ، میں ریفارمز دو نہیں ایک پاکستان، احتساب، انصاف کے نعرے سب کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور آپ وہی کچھ کررہے ہیں جو پہلے والے کرتے آرہے تھے، آپ کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن آپ کے ٹیکنو کریٹس سیاستدان نہیں جن میں فیصلہ سازی کی قوت نہیں یہ ملازم ہیں جو پالیسیاں تو شاید بنا دیں لیکن فیصلہ نہ کرسکیں کہ پاکستان کیلئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں، اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور حکومت کو سمجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کے ذخائر سے بھی نوازے.. آمین.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply