بھارت اور پاکستان میں تھنڈ پروگرام۔۔۔تنویر عارف

بھارت اور پاکستان، دو جڑواں بھائی جو اپنی پیدائش کے فوری بعد سے ہی گتھم گتھا ہیں اور اب ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے کوئی معمولی سا تنازعہ بھی ایٹمی جنگ کی وجہ بن کر پورے خطے ہی کو بھسم کرسکتا ہے۔

جب سے آنکھ کھولی ہندوستان اور پاکستان کو دست و گریباں ھی پایا، ۱۹۶۵ کی جنگ میں تو ہوش نہیں سنبھالا تھا مگر ۱۹۷۱ کی جنگ کے دوران گھروں کو مٹیالا کیچڑ پوت دینا، رات کو بلیک أؤٹ سائرن بجنا، سب گھر والوں کا مورچہ میں دبک جانا اور کراچی میں ہونے والی بمباری اور دیو ہیکل بموں کے گرنے کے فوری بعد چندھیا دینے والی روشنی اور پھر چند سیکنڈ بعد کی ہولناک دھمک،، سب یاد ہے، بہت خوفناک تھے وہ ایام، دوسرے شہروں کا تو پتہ نہیں مگر کراچی میں میڈیکل اسٹورز پر دستوں کی دوا نایاب تھی، پتہ نہیں جنگ اور دستوں میں کیا سمبندھ ھے مگر ڈاکٹرز کا بتانا تھا کہ شدید خوف کے عالم میں لوز موشن ہونا معمول کی بات ہے۔ ان جنگوں جو کہ جنگ سے ذیادہ جھڑپیں تھیں، ممکنہ ایٹمی جنگوں سے کوئی تقابل نہیں جاسکتا، جاپان پر ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرنے والے ایٹم بم تو بھیا آجکل کے نیوکلئر بموں کے مقابلے میں شب برات کے پٹاخے تھے۔

جب زرا بڑے ہوئے تو دونوں نوزائدہ ممالک کے درمیان تنازعات کا ادراک ہوا، جن میں مسلہ کشمیر سر فہرست ہے ۔ دونو ممالک میں متعدد مرتپہ جنگیں، اور سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

اب آپ زرا سے غور سے پڑھیے گا، ہم ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس دیرینہ ٹنٹے کا فوری اور مستقل حل نکالنے جارھے ہیں، اس فارمولے پر عمل کرکے بغیر خون کا قطرہ بہائے کشمیر بھی آزاد ہوجائگا، دہلی کے لال قلعے پر سبز ھلالی پرچم بھی لہرائے گا اور تمام تنازعات کا راتوں رات حل نکل آوے گا۔ اور ہاں ہم، اس فارمولے کو اپنے نام سے پیٹنٹ بھی کرائیں گے۔

تو چلیے جی آج اس مسلے کے حل کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز دی جاتی ہیں جنکو آپ تنویر عارف امن فارمولا کا نام دے سکتے ہیں اور بھیا اگر کوئی ہم کو نوبیل امن انعام کے لئے نامزد کردیوے تو اسکی مہربانی، ہم کو منظور ہوگا، آئیے ہمارے امن فامولے کی طرف؛

۔ ہمارے اولالعزم مجاہدین قبلہ زید حامد اور اوریا مقبول جان اکثر غزوہ ہند اور دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی بات کرتے ہیں، بھارتی حکومت کو چاھئے کہ وہ اس خواہش کے احترام میں فوری طور پر ترنگا کے برابر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لال قلعے پر لہرادیوے۔

۔ متحدہ یونین آف انڈیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام فوری تبدیل کرکے ہندوپاکستان رکھ دیا جاوے۔

۔ تمام سرحدوں کو کالعدم قرار دیکر تمام گیٹ کھول دیے جاویں۔

۔ دونوں ممالک میں دونوں ہی کرنسیوں کو قابل قبول قرار دیا جاوے۔

۔ حکومتی فارمولا کے تحت آیئن میں ترمیم کرکے صدر کو بااختیار بنایا جائے، اور انڈیا پاکستان مشترکہ پارلیمنٹ کے زریعے ہندو صدر، مسلمان وزیراعظم، کرسچن چیف جسٹس، سکھ اسپیکر مقرر کیا جاوے، یعنی اس فارمولے کے مطابق مودی صدر، نوازشریف وزیراعظم بن جاویں۔

۔ آخری مغل بادشاہ کے لگڑ سگڑ پوتے کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالا جاوے اور اسے شہنشاہ ہندوپاکستان کا لقب دیکر آئینی سربراہ مقرر کردیا جاوے، اس طرح مسلمانوں کی مغل سلطنت کا احیا بھی ہوجاوے گا لگے ہاتھوں۔

۔ نئی آئینی ترمیمات کے زریعے تمام صوبوں کو خودمختاری اور ذیادہ اختیارات دیدئے جاویں اور صرف کرنسی، فوج، نیب، ایف آئی اے، ہائی ویز اور سول ایوایشن اتھارٹی وفاق کے پاس رہ جاوے۔

۔ صوبے اپنی مرضی کا قومی مذھب، قومی زبان، قومی تہوار، قومی کھابے، قومی جانور، قومی پھول وغیرہ اختیار کرنے میں آزاد ہوں۔

۔ ہندو مسلم اکثریتی علاقوں میں نئے صوبے بنالئے جاویں۔

۔ موجودہ دونوں  قومی پرچموں کو ملا کر ایک نیا ہندو پاکستانی پرچم بنایا جاوے اور اسی طرح علامہ اقبال کے سارے جہاں سے اچھا ہندوپاکستان ہمارا کو قومی ترانہ قرار دی دیا جاوے۔

۔ دونوں ملکوں کے قومی رہنماؤں اور ہیروز کو قومی ہیروز مان لیا جاوے۔

۔ آبادی میں تناسب کے لحاظ سے وفاق میں نوکریوں کا کوٹہ طے کردیا جاوے۔

۔ جموں کشمیر و گلگت بلتستان و فاٹا کو خودمختار آٹونومس ریاستیں قرار دے دیا جاوے، تاھم اسکے دفاع اور دوسرے وفاقی اداروں کی زمہ داری ہندوپاکستان کے پاس رہے

۔ فوج کو ایسٹرن اور ویسٹرن کمانڈ میں تقسیم کردیا جاوے، اور ویسٹرن کمانڈ جس میں موجودہ پاکستان کی فوج جوں کی توں ہو، باری باری سرکولیشن اصول کے تحت ایک ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی کو آرمی چیف مقرر کیا جاوے۔

۔ اب چونکہ اس قومی ادغام کے بعدمیزائلوں، جدید طیاروں کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہ جائیگی، لہزا انکو بیچ کر ٹکے کرلیا جاوے، اور حاصل شدہ کثیر رقم سے صحت تعلیم اور ترقی پر خرچ کیا جاوے، ایٹمی ہتھیار اقوام متحدہ کی نگرانی میں تلف کردیا جاوے۔

۔ دونو سابقہ ممالک کی تمام چھٹیاں برقرار رکھی جاویں۔

اس فارمولے کو آپ ہندو پاکستان ٹھنڈ پروگرام بھی کہ سکتے ہیں، کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلئے کہ اس فارمولے سے تمام فریقین کو یہ لگے گا کہ وہ جیت گئے۔ جماعت اسلامی اور اس قبیل کی جماعتوں کی دہلی کے لال قلعے پاکستانی پرچم لہرانے اور کشمیر آزاد کرانے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوجاوے گی، تبلیغی جماعت کو تبلیغ کرنے کو ایک بہت بڑا گراؤنڈ مل جائگا، مغل سلطنت اور مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کا احیا ہوگا دوسری جانب ہندو انتہا پسند جماعتوں راشٹریہ سیوک سنگھ اور جن سنگھ وغیرہ کا اکھنڈ بھارت کا سپنا بغیر کوئی جنگ لڑے پورا ہوجاوے گا، موجودہ پاکستان کے نوجوانوں کو بمبئی کی فلمی صنعت میں کام ملیگا، تجارت کو فروغ ہوگا اور برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ غربت، جہالت اور بے روزگاری سے اکھٹا مل کر لڑینگے اور امن اور چین سے ایک طاقتور ریاست کے شہری بن کر عزت سے جی سکیں گے، اور مزے کی بات ہے اس سے موجودہ دونوں ہی ممالک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply