ڈاکٹر رشید جہاں: انگارے والی یا سراپا چراغ؟۔۔طاہرہ کاظمی

” ڈاکٹرنی نے مجھ سے میری عمر پوچھی میں نے کہا بتیس سال۔ کچھ اس طرزسے مسکرائی جیسے کہ یقین نہ آیا۔ میں نے کہا، مس صاحب آپ مسکراتی کیا ہیں؟ آپ کو معلوم ہو کہ سترہ سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی اور جب سے ہر سال میرے ہاں بچہ ہوتا ہے۔ سوائے ایک تو جب میرے میاں سال بھر کو ولایت گئے تھے اور دوسرے جب میری ان سے لڑائی ہو گئی تھی۔
اور یہ دانت جو آپ غائب دیکھ رہی ہیں یہ ڈاکٹر غیاث نے اکھاڑ ڈالے۔ ساری بات یہ تھی کہ ہمارے میاں جو ولایت سے آئے تو ان کو ہمارے منہ سے بو آتی تھی۔
ہر بچے کے بعد میں کتنی مصر ہوئی کہ میں خود دودھ پلاؤں گی لیکن سنتا کون ہے؟ دھمکی یہ ہے کہ دودھ پلاؤ گی تو میں اور بیاہ کر لوں گا۔ مجھے ہر وقت عورت چاہیے، میں اتنا صبر نہیں کر سکتا کہ تم بچوں کی ٹلے نویسی کرو……”

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھی کسی حساس دل کے لئے عورت ہونا ایک روگ بن جاتا ہے اور اس روگ کا جوگ لینا ایسا دلخراش زخم ہے جو مندمل ہی نہیں ہوتا۔ معاشرے کی کچلی ہوئی بے بس عورت کی مظلومیت دیکھ کے ان کا کلیجہ منہ کو آتا ہے جن پہ آسمان مہربان رہا اور ساتھ میں درد دل بھی عطا ہوا۔
پدرسری نظام میں عورت ہونا ہی کیا کسی آزمائش سے کم ہے، کجا یہ کہ عورت ادیب بھی ہو اور طبیب بھی جو اطراف میں پائی جانے والی عورتوں کو دیکھ سکے، سن سکے اور پھر اشک بھی بہا سکے، کبھی آنکھ سے اور کبھی دل سے!
ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ان بھولے بسرے قصوں کو پھر سے چھیڑنے کی کوشش کی ہے جو آج سے ایک صدی قبل ایک حساس دل رکھنے والی ادیبہ نے کہے، وہ تعفن زدہ کہانیاں جہاں سے شرفا منہ پھیر کے گزر جایا کرتے تھے۔
‎کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے
‎کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی
انسان ہو کے خط انسانیت سے نیچے زندگی گزارنے والیوں کے نوحے لکھنے والی کو یہ انعام ملا کہ گلی گلی طعن وتشنیع سے نوازی گئی۔ منبر ومسجد سے دشنام طرازی کا تحفہ ملا لیکن رگوں میں اس باپ کا خون تھا جنہوں نے سرسید کے نظریات سے ٹکر لے کے مسلم گرلز سکول اور کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ اس ماں کی گود میں پلی تھیں جو بھرا گھر چھوڑ کے گرلز ہوسٹل میں آ بیٹھیں تھیں تا کہ دور دراز سے اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کی خاطر بھیجنے والے کسی شک وشبے کا شکار نہ رہیں۔ اس بہن کی آپا تھیں جنہیں ہم بچپن میں غرارا پہنے، نستعلیق اردو بولتے، سفید بگلا سے بالوں کے ساتھ شفیق دادی کے روپ میں ٹی وی پہ دیکھا کرتے تھے۔
یہ تھیں ڈاکٹر رشید جہاں!
عورت کی کسمپرسی پہ شعلہ جوالا، انگارے اگلتی، زمانے سے نبرد آزمائی کرتی، ان بنیادوں کی معمار جس پہ عصمت چغتائی، رضیہ سجاد ظہیر ، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور اور فہمیدہ ریاض چلیں، شیخ عبداللہ اور حمیدہ جہاں کی بڑی صاحبزادی، بیگم خورشید مرزا کی آپا، برصغیر پاک وہند کی وہ دبنگ عورت جس پر ملک کے طول وعرض میں پائے جانے والے سب ملاؤں نے نفرین کی اور واصل جہنم ہونے کے فتوے دیے۔
شیخ عبداللہ یقیناً عورت نامی مظلوم سے پہلے سے محبت و عقیدت رکھتے تھے مگر پاپا میاں کی یہ محبت دیوانگی میں تب بدلی جب انیس سو پانچ میں رشیدہ جہاں آنگن میں اتریں اور انیس سو چھ میں مسلم گرلز اسکول کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ باپ کا جنون رشید جہاں کی رگوں میں دوڑنے لگا، سو تعلیم نسواں ان کا اوڑھنا بھی بنی اور بچھونا بھی۔
کم عمری سے وہ ہندوستان کے سماجی اور معاشرتی مسائل سے متاثر ہوئیں اور اس کا مظہر انتہائی چھوٹی عمر میں کھدر پہننے کے فیصلے سے ہوا۔ ڈاکٹری کی تعلیم لیڈی ہارڈنگ کاکج دہلی سے حاصل کی اور انیس سو انتیس میں ڈاکڑی کی سند مل گئی۔
ننھیال کی حویلی دلی اندرون شہر “فراش خانہ” میں تھی۔ میڈیکل کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے حویلی آتیں تو چاروں طرف بہشتی زیور پڑھتی ہوئی، حویلیوں، شہ نشیوں، کوٹھڑیوں میں قید ان عورتوں کی کسمپرسی کا نظارہ کرتیں جنہیں ابھی تک انسان تو کیا، کسی جاندار مخلوق تک کا درجہ نہیں ملا تھا۔ ٹکے بندھے کپڑوں میں قید، زیوروں کے بوجھ تلے دبی، ایک بچہ گود میں، ایک پیٹ میں اور تین چار پلو سے لٹکے، نسوانی امراض کا شکار ان عورتوں کی زندگی کا مصرف استعمال میں لائی جانے والی کسی بھی بے مصرف چیز کا سا تھا جس سے دل بہلایا جا سکے۔ جب بوسیدہ ہو جائے تو بدل لی جائے اور ان فرسودہ روایات کا مذموم کھیل صدیوں سے مذہب کی آڑ میں جاری تھا۔
ڈاکٹر رشید جہاں نے ان تمام مظالم کو دیکھا، سنا اور سوچا، ایسا کیوں؟ کب تک؟ اس کا حل؟
اور پھر انہوں نے اپنے قلم کی کاٹ سے ان روایات میں شگاف ڈال دیا۔ یاد رکھیے، دبنگ ادیب کا قلم اور لفظ آہنی دیواروں کو کاٹنا سکھا کے نئے رستے تراشنے کے خواب دکھا سکتا ہے لیکن وہیں مفادات میں محصور ادیب کچلے ہوؤوں کو صبر اور شکر کا پیالہ پلا کر خاموش رہنے کا درس بھی دے سکتا ہے۔ نظر دوڑائیے آپ کو بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔
لیکن رشید جہاں کے لہو میں تو انصاف کی بجلی کوندتی تھی سو قلم کے جہاد کے حوالے سے ان کی ملاقات سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی۔ معاشرے کی روایات کو ضرب لگاتے ہوۓ انیس سو بتیس میں ان چاروں کے افسانوں کا مجموعہ “انگارے” شائع ہوا۔
رشیدجہاں کا ڈرامہ” پردے کے پیچھے” انگارے میں چھپنے کی دیر تھی کہ ہنگامہ برپا ہو گیا۔ چھٹکی سی مسلمان لڑکی اور عمامہ و دستار کو للکارے، کٹھ ملا برافروختہ ہوئے۔ منبر سے “رشید جہاں انگارے والی” کے خلاف وعظ ہوئے، جہنم کی وعید سنائی گئی اور کتاب “انگارے” بحق سرکار ضبط ہوئی۔
وہ جو ہم نے شروع میں کہا نا کہ درد دل والی ادیب، طبیب بن جائے تو کہانیاں چوکھٹ پہ خود حاضری دیا کرتی ہیں۔ قلم اور نشتر کا ساتھ ہو جائے، خون جگر سیاہی کا کام دے تو کون ٹھہر سکتا ہے سچ کے سامنے اور سچ بھی وہ جو روح کو لرزا دے۔
صاحب، ہم رشید جہاں کے قلم سے گرنے والے آنسو پیش کیے دے رہے ہیں جن میں بے انتہا کرب ہے، کراہیں ہیں اور زندگی کے بے مول ہونے کی آگہی۔ پڑھنے کے بعد دل پہ ہاتھ رکھ کے کہیے گا یہ فحاشی کی داستانیں ہیں یا درون خانہ وحشتوں اور بے رحمی کے سلگتے ہوئے فسانے جن کو ڈھٹائی سے کام لے کر اگر جھٹلایا نہ جائے تو علم ہو گا کہ تعفن اور سڑاند آج تک اٹھ رہی ہے۔ نہ صرف ان کہانیوں سے بلکہ ان تمام گھروں سے جہاں آج بھی یہ کردار زندہ ہیں اور ان کرداروں کے دکھ سچے ہیں۔ یہ ہم سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ دائی سے پیٹ کہاں چھپا رہتا بھلا؟
“اے آپا خدا کی قسم! دیدوں میں گھس گئے کہ کیا برائی ہے اور میں تو رضیہ سے شادی کروں گا، چاہے تمہیں طلاق دینی پڑے۔ جب میں بگڑی اور صلواتیں سنائیں تو خوشامد کرنے لگے، کہ میں اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔ ہائے خدا کے لئے میری مدد کرو، میری مدد کرنا تمہارا فرض ہے۔ قران شریف کھول کر بیٹھ جائیں اور آیتیں پڑھیں کہ میں ان کی مدد نہ کروں تو مرنے کے بعد یہ ہو گا، وہ ہو گا۔ اب اس سے زیادہ کیا آگ ہو گی وہاں؟ یہ ہر وقت کا جلنا، رضیہ ہائے رضیہ ہو رہی ہے اور میں سن رہی ہوں”
(پردے کے پیچھے- انگارے)
” سوکن کے ڈر سے میں نے کیا کیا نہ کیا؟ دو دفعہ آپریشن بھی کروایا۔ رحم اور نیچے کا حصہ جھک آیا تھا تو اس کو ٹھیک کروایا کہ پھر سے میاں کو نئی بیوی کا لطف آئے۔ اے بوا جس عورت کے ہر سال بچے ہوں اس کا بدن کب تک ٹھیک رہے گا؟ پھر کھسک گیا، پھر میرے پیچھے پڑ کر ڈرا دھمکا کر مجھے ذبح کروایا اور پھر بھی خوش نہیں ہیں “
(پردے کے پیچھے)
“اس کو دیکھ کر سب عورتیں بچنے لگیں۔ ڈاکٹر نے بھی اپنی کراہت کا ذکر آنکھیں بند کر کے کیا۔ گھن تو مجھ کو بھی آئی۔ اس کی ناک سرے سے غائب تھی، دو بڑے بڑے لال لال سے چھید اس کی ناک کی جگہ پر تھے، ایک آنکھ بھی نہ تھی اور دوسری سے بھی بغیر گردن کے سہارے نہ دیکھ سکتی تھی۔ کمپونڈر نے بغیر پوچھے بتانا شروع کر دیا، یہ بدمعاش عورت ہے، رنڈی ہے رنڈی سڑ سڑ کر مر رہی ہے نکال باہر کریں سسری کو”
(افسانہ – وہ)
” ہر دوسرے دن وہ کالج آجاتی، میں کہتی تشریف رکھیے۔ وہ ذرا دیر کو بیٹھتی اور میری طرف دیکھتی رہتی۔ ہماری کبھی باتیں نہیں ہوئیں۔ کیا یہ سمجھتی ہے کہ مجھ کو اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ وہ صرف دیکھتی رہتی، اپنی بغیر ناک اور ٹیڑھی سی آنکھ والے گھناؤنے چہرے سے۔ مجھے شبہ سا ہوتا کہ اس کی آنکھ اشک آلود ہے۔ مجھ کو بے چینی ہوتی، کیا دیکھتی ہے؟ کیا سوچتی ہے؟ کیا یہ بھی کبھی میری طرح تھی؟ کیا یہ نہیں جانتی کہ لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ کیا اس کے پاس آئینہ نہیں ہے؟ کیا اس کو معلوم نہیں کہ یہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے؟ یہ کون ہے؟ یہ کون تھی؟ کہاں پیدا ہوئی؟ کیسے اس حال کو پہنچی؟ “
(افسانہ- وہ)
“ کل رات سامنے کے میدان میں ایک مولوی صاحب وعظ فرما رہے تھے۔ ہر چیز پہ حملہ تھا، سکولوں،کالجوں، لڑکے لڑکیوں کی تعلیم، پردہ، میاں بیوی، ترقی، خوشی، مغرب، ایشیا، غرض کوئی موضوع ایسا نہیں تھا جس پر انہوں نے رائے زنی نہ کی ہو۔ انگریزی تعلیم کی برائی اور میاں کے رتبے پر بہت دیر تک روشنی ڈالتے رہے۔ سب سے زیادہ انہوں نے ٹاکیز کی خبر لی، آپ لوگ ٹاکیز دیکھنے جاتے ہیں، وہاں کنجریاں ہوتی ہیں، آنکھیں مٹکاتی ہیں، اپنی برہنہ چھاتیاں آپ کو دکھاتی ہیں، ننگی آپ کے سامنے آ جاتی ہیں۔
یہ ہے ہمارے مولویوں کی دماغی تصویر، ان کی آنکھوں میں ہر وقت ننگی عورتیں ناچتی ہیں۔ خیالات ہر وقت عورتوں میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کے جسمانی حصوں کا نام لینے کے لئے وہ وعظ میں بھی جگہ نکال لیتے ہیں” (واللہ ہمیں مولوی عبد القوی یاد آ گئے)
(افسانہ -سڑک)
بڑھیا ہنسی اور پنکھے کا ہاتھ بدل کر بولی،
“لگائی جب پیاری جب للا جنے اور بھینس جب پیاری جب پڑیا جنے”
” ایک عورت اور تین مرد اور تینوں اتنے سخت بے چین اور بےتاب۔ ان کی آوازیں جوش حیوانی سے کانپ رہی تھیں، جس طرح کہ ان کے جسم متحرک تھے۔ یہ عورت با لکل خاموش تھی۔ بازار میں جب ایک کتیا کے پیچھے تین چار کتے پڑتے ہیں اور اسی طرح جوش اور بے تابی دکھاتے ہیں تو کم بخت کتیا بھی اتنے خریداروں کا ہجوم دیکھ کر جان چھپا کر بھاگتی ہے۔ لیکن یہ عورت جس کو مالداروں اور نیک شریف عورتوں نے کتیا سے بھی نیچے کر دیا تھا ایک ہاتھ سے کار پکڑ کر جھولتی رہی. چند منٹ بعد اوپر سے ٹارچ چمکی۔ روشنی چمکتے ہی ایک مرد نے فوراً اپنا منہ عورت کے برقع میں چھپا لیا۔ ڈر تھا کہ پہچان نہ لیا جائے۔ گناہ کرنا گناہ نہیں، اس کا پکڑا جانا گناہ ہے۔ پھر قہقہے اور مردہ قہقہے، اس لڑکی کے سنائی دیے. وہ ان کتوں پہ ہنس رہی تھی”
(افسانہ – سودا)
” چھدا کی بہو اور ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے عجیب جوڑ تھے ایک دوسرے کی دنیا سے قطعی ناواقف! وہ مجھ سے کالج کے حالات سن کر تعجب کرتی تھی اور میں اس کی گاؤں کی زندگی کی باتیں سن کر حیران ہو جاتی تھی۔ میں اپنے ملک میں رہ کر بھی اپنے ملک کے لوگوں سے کتنی انجان تھی”
(افسانہ – چھدا کی ماں)
” ایک دن وہ آئی، اس کی آنکھیں لال اور منہ سوجا ہوا تھا چوڑیاں ٹوٹی ہوئی ، بانہہ پر کئی جگہ خون جما سا تھا۔ ساس نے کئی دن سے ہر وقت چیخنا شروع کر دیا تھا۔ کبھی پکی پکائی دال میں نمک جھونک دیتی، کبھی روٹیوں پر جھوٹے ہاتھ مل دیتی۔ جب لڑکے نے کچھ نہ کہا تو آج اس نے ایک نیا شگوفہ چھوڑا، کہنے لگی کہ یہ چھنال…عیدو سے ہنس رہی تھی۔ اس بات پر چھدا نے بیوی کو خوب پیٹا”
(افسانہ – چھدا کی ماں)
” میرے اس کہنے پر کہ ممانی جان آپ کیوں ایسے آدمی کو اپنے ہاں رکھتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بیٹی کس کس کو نکالوں، دھوبی ہے وہ کئی بدل چکا ہے، مالی چار کو نکال چکا ہے، عیدو بھی دو کو طلاق دے چکا ہے۔ عورتیں ہی اس ملک میں اتنی سستی مل جائیں تو میں کیا کروں”
(افسانہ – چھدا کی ماں)
” ایک مسلمان عورت کالے تنگ پاجامے، گلابی دوپٹہ اور چاندی کے زیور سے لدی ہوئی اٹھی۔ بلاق اس کا اتنا بڑا تھا کہ اس کا منہ اور دانت سب بلاق کے پیچھے چھپ گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں عورت کی چڑ چڑ سے تھک کرکسی مرد نے بلاق نکالا ہو گا تا کہ عورت کی آواز منہ میں ہی پھنس جائے۔ لیکن عورتیں بھی کیا بے وقوف ہیں کہ اس کو رواج بنا لیا۔ جبھی تو ہر مذہب سکھاتا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے”
(افسانہ- میرا ایک سفر)
“لڑکیوں کی تعلیم کے حامد حسن بہت خلاف تھے۔ قران شریف، دو ایک دینیات کی کتابیں صدیقہ بیگم کو پڑھا دی گئی تھیں۔ صدیقہ بیگم کی ماں احمدی بیگم نے بالکل بھنورے میں پالا تھا۔ ہر ملنے جلنے والی سے پردہ کروایا جاتا، نہ کوئی سہیلی اور نہ کسی سے ملنا جلنا، نہ کہیں آنا نہ کہیں جانا”
(افسانہ- بے زبان)
” جسٹس صاحب بیٹے سے نالاں خود کلامی میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سما لینا یہ کون سی دانش مندی ہے، سارے جہاں کا درد، تمہیں دوسروں سے کیا؟ اگر لوہار کے لڑکے بھوکوں مرتے ہیں تو تمہاری بلا سے، جو بھنگی ہیضہ سے مر گئے تو تمہیں کیا؟ تم اپنی فکر کرو، روپیہ کماؤ آرام سے رہو نا! دوسروں کی دولت چھین کر بانٹیں گے، کبھی دولت جمع کی ہو تو جانیں دولت کن مصیبتوں سے جمع ہوتی ہے؟
ہم نے افسروں کے کیا کیا نخرے سہے ہیں، کیا کیا حرکتیں ان کو خوش کرنے کو نہیں کیں۔ بہت سی باتیں تو ایسی کی جاتی ہیں کہ انسان خود اپنے سے اعتراف نہیں کر سکتا اور جو ایسی باتیں نہ کرو تو پڑے رہو گڑھے میں۔ اگر میں نے بے ایمانیاں کی ہیں اور ہر قسم کی ذلیل حرکتیں کیں تو کس کے لئے؟ اسی لئے نا کہ آگے چل کر میں اور بچے سکون سے رہیں۔ کل میں غصے میں فیاض کو ایک تھپڑ مار بیٹھا تو میری جان کے پیچھے پڑ گیا۔ اب نوکروں پر بھی ہمارا حق نہیں؟ نوکر نہ ہوئے، ہمارے آقا ہو گئے اب نوکروں کو بھی نہ پیٹیں تو پھر کام کیسے چلے؟”
(افسانہ- صفر)
یہ خونچکاں حکایتیں صفحہ ابیض پہ رقم ہوئے لگ بھگ سو برس بیت گئے۔ رشید جہاں اپنے دیس کے لوگوں کے لئے روگی بھی ہوئیں اور جوگن بھی بنیں، قضائے قدر محض سینتالیس برس کی عمر میں انہیں اس دنیا کے غموں سے آزاد کر گئی ۔
لیکن صد افسوس عورت کے پاؤں میں آج بھی وہی زنجیریں ہیں جو اس وقت تھیں۔ عورت کل بھی پل پل مرتی تھی، آج بھی نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں۔ کل بھی چلمن کے پیچھے جھوٹی عزتوں کا بوجھ اٹھائے ہانپ ہانپ کے زندگی گزارتی تھی، آج بھی سر مو فرق نہیں۔
رشید جہاں اس درد کے سفر کا ہراول دستہ بنیں۔ طبیب بن کے زندہ لاشوں کو ٹٹولا اور ادیب بن کے معاشرے کی بوسیدگی کو للکارا۔ وہ ایسا ستارہ تھیں جو ہمیشہ آسمان پہ اپنی روشنی بکھیر کے اندھیری راتوں کے مسافروں کو رستہ دکھایا کرتا ہے۔
نہ جانے کیسے ہوا کہ طبیب ہوتے ہوئے ہم کم مایہ کو بھی ان زندہ کہانیوں تک رسائی ہو گئی اور وہی درد جگر فگار کر گیا جس نے رشید جہاں کو شعلہ جوالا بنا دیا تھا۔ ایسا تو پھر ہونا ہی تھا کہ آگہی کا تاوان درد دل ہی بھرا کرتا ہے۔
ہمیں فخر ہے کہ ہماری ہم صنف رشید جہاں نے برسوں پہلے گھپ اندھیری رات میں یہ دیا انبوه جہلا کے سامنے تن تنہا دلیری اور سرفروشی سے جلایا۔ ہم بھولے نہیں کہ انہوں نے گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشن صبح کی تمنا کی تھی۔
جنم دن مبارک، ڈاکٹر رشید جہاں!
آپ کو ہمارا سلام!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply