مسائل و معالجہ۔۔۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا

واقعی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان کے مسائل سماجی مسائل نہیں بلکہ انہیں عارضہ تصور کیا جاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مسائل کے حل کی خاطر عمرانیاتی، معاشی اور دیگر ماہرین کی بجائے عوام الناس کی اکثریت کی طرح عطائیوں سے رجوع کیا جاتا ہے جو ہائی پوٹینسی اینٹی بائیوٹکس اور کورٹکیو سٹیرائیڈ ادویات سے ان کا عارضی اور حیرتناک علاج کر دیتے ہیں، ان طریقوں کو اختیار کرنے کے مستقبل میں کیا اثرات ہو سکتے ہیں، کس نوع کی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں اور ان پیچیدگیوں سے وہ کیسے نمٹیں گے اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ میٹرو بس کے تجربے کے بعد جس پہ اعتراضات ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہے، ظاہر ہے اس عارضی علاج سے معاشرے کا ایک حصہ خوش نہہیں تو کسی حد تک مطمئن بھی ہوگا کیونکہ ہمارا پورا معاشرہ ہی مذہبی سیاسی عقیدت پہ استوار ہے، ایک اور کار نمایاں کی سوچ کے بارے میں سننے میں آ رہا ہے کہ پنجاب کی حکومت کورس کی کتابوں کو ختم کرکے بچوں کو ” کمپیوٹر ٹیبلٹس” دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس سے متعلق خبر پڑھ کر کے ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔

     میں جس ملک میں رہتا ہوں وہاں جوں کہ الیکٹرونکس گیڈجیٹس قیمت کی بلا کمیشن قسط وار ادائیگی پہ مل جاتے ہیں چنانچہ بیشتر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انہیں اپنے جیب خرچ کی بنیاد پر ہی حاصل کرنے کی استطاعت رکھنے ہیں۔ ان گیڈجیٹس میں ظاہر ہے کمپیوٹر ٹیبز بھی آتی ہیں لیکن میں نے وسائل سے مالامال اور ذہنی بالیدگی کے لیے معروف روسیوں کے سکولوں میں ‘ٹیبز‘ دیے جانے کے بارے میں کبھی نہیں سنا البتہ دوردراز تک کے سکولوں میں بھی کمپیوٹر لیبز ضرور ہیں جن میں کہیں ٹیبل ٹاُپس لیکن اکثر میں لیپ ٹاپس برائے استعمال موجود ہوتے ہیں۔ کتاب کی افادیت ختم ہونے میں ابھی بہت عرصہ باقی ہے۔ نئی ٹکنالوجی کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہوا کرتی لیکن اس کے استعمال کے اثرات سے متعلق ضرور سوچا جانا ہوتا ہے۔ قلم اور نبوں کے استعمال کے متروک ہو جانے اور بال پوائینٹ کا استعمال شروع ہونے کے بعد بچوں کی اکثریت کا خط خراب ہو گیا تھا لیکن اس سے پیشرفتہ ٹکنالوجی نے اس پر پردہ ڈال دیا کیونکہ کمپیوٹر اور پرنٹر عام ہو چکے تھے۔ لیپ ٹاپ کا استعمال بھی ان لوگوں میں عام کیا جانا چاہیے جو کمپیوٹر کے اسرار و رموز سے آشنا ہوں اور کمپیوٹروں سے سود مند کام لینے سے آگاہی رکھتے ہوں وگرنہ انٹرنیٹ تفریحی اور مخرباتی مواد سے بھی بھرا ہوا ہے اور علم کے حصول کی خواہش سے نا آشنا نوجوانوں کی اکثریت اسی سے حظ اٹھاتی ہے۔ علم کی خواہش خدا داد بہت ہی کم ہوتی ہے، اس کو ذہنوں میں جگہ دلوانے کے لیے اساتذہ اور والدین دونوں ہی کی سعی درکار ہوتی ہے۔

     جس ملک کے بچوں کی اکثریت ڈھنگ کے لباس اور مناسب خوراک سے متمتع ہونے کے لیے ترستی ہے، ان کے ہاتھوں میں “ٹیبز‘ پکڑانے کو بھلا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ پھر ٹیب کوئی اسقدر دیرپا آلہ بھی نہیں ہے۔ دوسرے کمپیوٹر کی صنعت بھی کاروں اور دیگر اشیائے صرف کی منڈی کو جاری و ساری رکھنے کی خاطر ان کی ٹکنالوجی میں آئے روز تبدیلیاں اور اضافے کرتی رہتی ہے کیونکہ یہ کاروبار ہے۔ ٹیب اور لیپ ٹاپ اگر خراب ہو جائیں تو ان کو ٹھیک کرنے پہ یا تو اخراجات بہت آتے ہیں اور بیشتر اوقات تو ان کو رد کرنا ہی مناسب ہوتا ہے۔

    کاروبار کی ایسی صنعت کو تعلیم سے وابستہ کر دینا جس میں نت نئی تبدیلیاں اور اضافے ہوتے ہوں، بچوں کی توجہ تعلیم کے دیگر پہلووں سے ہٹائے جانے کا معقول موجب بن سکتا ہے۔ کتابوں کی بالعموم چوری نہیں کی جاتی لیکن کمپیوٹر ٹیب چرا لیا جانا ایک عام سی بات ہو جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اتفاقا” مل جانے والے موبائل فون کو امیر لوگ بھی واپس کرنے کی خواہش نہیں رکھتے، چہ جائیکہ کمپیوٹر ٹیبلٹ۔

     بہتر اور موثر تعلیم کے حصول سے پہلے مستقبل کے ماہرین کی زندگی کے دیگر پہلووں کو آسان اور پر آسائش بنانے کی ضرورت ہے۔ اچھی رہائش،مناسب غذا، پینے کے لیے صاف پانی، حفظان صحت کے انتظامات، ماحول کی صفائی، علاج کی مناسب سہولتیں، بجلی کا خاطر خواہ بندوبست اور بچوں کے والدین کی معقول آمدنی کے ذرائع کا بندوبست کیا جانا حکومتوں کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ یہ سب میسر آ جائے تو حکومت کو لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹس بتاشوں کی طرح بانٹنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کیونکہ طالبعلموں کے والدین یا وہ خود ان کو حاصل کرنے کی استطاعت کے حامل ہونگے، جس کے بعد حکومت کا کام صرف یہ رہ جائے گا کہ وہ تعلیم کے نظام کو بہتر سے بہتر بنائے اور اس کے معیار کو قائم رکھے جانے کی ذمہ داری لے۔

عطائیوں کے ذریعے علاج کروانے کے نتائج بہر حال اچھے نہیں ہو سکتے چنانچہ مسائل کے معالجے کی خاطر ان ماہرین سے رجوع کیا جانا چاہیے جو ارباب اقتدار کے کاروبار و کمیشن کا خیال رکھنے کی بجائے فی الواقعی مسئلے کا حل ڈھونڈیں اور اس پہ عمل درآمد کرونے کی سعی کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر مجاھد مرزا معروف تجزیہ نگار اور مصنف ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply