کائرہ صاحب اور صحافی ۔۔۔ طاہر علی خان

 

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ کو صحافیوں سے بات چیت کے دوران جس انداز سے ان کے بیٹے کی اطلاع دی گئی اس پر مذکورہ صحافی کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ خبر بہت نامناسب اوربھونڈے طریقے سے دی گئی اور یہ ہمارے صحافیوں کی کم اور خام پیشہ ورانہ تربیت کی عکاس ہے۔

کیا واقعی مذکورہ صحافی نے جس انداز میں خبر دی وہ غلط تھا؟ اس کے پاس اطلاع دینے کے کون سے متبادل طریقے تھے؟

واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ کائرہ صاحب صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے اور حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس دوران ایک صحافی ان سے کہتا ہے سر آپ کا بیٹا ایکسپائر۔۔ لیکن پھر وہ رک جاتا ہے۔ اس پر ایک اور صحافی ان سے کہتا ہے” کائرہ صاحب ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ آپ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔“

کائرہ صاحب  اس پر فوراً شکریہ کہتے ہوئے گفتگو ختم کر دیتے ہیں اور پھر ایک طرف کھڑے معاملے کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے فون کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے رہنمإ نیر حسین بخاری ان کے ساتھ کھڑے ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب روانہ ہو جاتے ہیں۔

اس واقعے کو لے کر سب اس صحافی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں اس وقت کیا کیا ممکن تھا۔

جس وقت حادثے کی خبر آئی اس وقت کائرہ صاحب کی میڈیا ٹاک جاری تھی۔ ظاہر ہے ان کو جلدی بتانا ضروری تھا اور یہ خبر میڈیا بات چیت ختم ہونے تک ملتوی کرنا معیوب ہوتا۔ اب اس کے کئی طریقے ہو سکتے تھے۔

اول۔ کہ کائرہ صاحب کو ایک ضروری بات کا کہہ کر سائیڈ پر لے جایا جاتا اور انہیں اطلاع دی جاتی۔

دوم۔ صحافی خود یہ خبر دینے کے بجائے ان کے کسی ساتھی کے ذریعے یہ پیغام پہنچاتا۔

سوم۔ صحافی کائرہ صاحب کو صاف صاف ان کے بیٹے کی موت کا فوراً بتادیتا۔

چہارم۔ انہیں صرف ایکسیڈنٹ کا، نہ کہ موت کا، مناسب طریقے سے بتادیا جاتا تاکہ وہ بات چیت ختم کرتے اور گھر روانہ ہوتے۔

ان میں سے پیغام رسانی کے مناسب ترین طریقے تو اول و دوم تھے۔ مگر یہ شاید معاملے کی نوعیت، ایمرجنسی اور وقت کی کمی کو دیکھتے ہوئے اختیار نہ کیے جا سکے۔

تیسرا طریقہ حد درجہ معیوب اور نامناسب تھا۔ یہ نہ صرف بتانے والے کی بد تہذیبی کا ثبوت بلکہ کائرہ صاحب کے لیے بھی انتہائی تلخ ہوتا۔ ایک صحافی نے کائرہ صاحب کو بیٹے کی موت کا کہا لیکن جلدی احساس ہونے پر بات ختم کر دی۔ دراصل یہ سب کچھ اچانک ہوا اس میں سوچنے کا وقت نہ ملا لیکن اگر ایک صحافی نے غلطی کی تو دوسرے نے فوراً درست طریقے سے انہیں ایکسیڈنٹ کا، نہ کہ موت کا کہا۔

ظاہر ہے بتانے والا صرف کائرہ صاحب کو ایمرجنسی سے مطلع کرنا چاہتا تھا اور وہ باپ کی حیثیت سے ان کے احساسات کی بھی سمجھ بوجھ رکھتا تھا۔ ہوسکتا ہے سب سے پہلے خبربریک کرنے کا جذبہ بھی اس بات کے پیچھے ہو مگر جس وقار، ہمدردی اور مناسب الفاظ کے ساتھ دوسرے صحافی نے کائرہ صاحب کو اطلاع دی وہ اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔

کائرہ صاحب کے لیے جوان بیٹے کی موت یقیناً ایک بہت بری خبر تھی۔ لیکن حادثہ رونما ہوگیا تھا اورانہیں مناسب طریقے سے جلدی اطلاع دینا ضروری تھا۔ کائرہ صاحب ایک شریف النفس، باکردار اور باوقار سیاسی کارکن اور ٹھنڈے مزاج کے زیرک انسان ہیں۔ خبر انہیں مناسب ترین اگر نہیں تو اس وقت ممکن اور مناسب طریقے سے ہی دی گئی۔ رہی کائرہ صاحب کا فوراً بات چیت ختم کرنا اور غمگین ہوجانا تو یہ ایک مشفق باپ کے لیے جوان سال بیٹے کی موت کی خبر سننے پر ایک فطری ردعمل ہی تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس اچانک رونما ہونے والے طرزعمل کو لے کر اس صحافی یا دیگر صحافیوں کے اخلاق و کردار پر تنقید نامناسب ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply