• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عالمی برادری بھارتی جنگی جنون کا نوٹس لے ۔۔۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

عالمی برادری بھارتی جنگی جنون کا نوٹس لے ۔۔۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

جنگیں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں لاتیں۔ انسانی تاریخ اس امر پر شاید ہے۔ جنگ شروع کرنا نہایت آسان اور اس کے نتائج بھگتنا صدیوں کے مصائب کو دعوت ہے۔ اگر تاریخ کے صدیوں دور بند دریچے سے جھانکنا مشکل ہے تو لمحہ موجود میں افغانستان، شام، عراق، لیبیا اور یمن کے عوام کی کسمپرسی دیکھ لی جائے۔ اگرچہ مذکورہ ممالک کی جنگی کیفیت اور محرکات و ترجیحات اور ہیں، بھارت کی خواہش اور مگر جنگ کے نتائج ایک سے ہوتے ہیں۔ تباہی اور صرف تباہی۔ پاک بھارت جنگ اگر خدانخواستہ چھڑ جاتی ہے، جیسا کہ بھارت نے ماحول پیدا کر رکھا ہے تو یہ روایتی کے بجائے غیر روایتی بھی ہوسکتی ہے۔ ایسا اگر ہوا تو خطے ہی کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے خطرناک نتائج ساری دنیا بھگتے گی۔ ضروری ہے کہ عالمی برادری کے قابلِ ذکر ممالک بھارت کی پیٹھ تھپکنے کے بجائے اس جنگ کے نتائج اور عالمی برادری کے لئے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھی سامنے رکھیں۔ بھارتی حکومتوں کی تاریخ یہی ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کی بلا تحقیق ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتی ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف واضح اور تحریک آزادی کی حمایت آشکار ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین کو بھارت کے خلاف استعمال کرا رہا ہے، البتہ بھارت ایسا عشروں سے کر رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارتی کردار بھارت سرکاری سطح پر تسلیم کرچکا ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں بھارت اپنے ’’دہشتگرد کرداروں‘‘ کی مدد سے پاکستان کے داخلی حالات کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی کوششوں میں ہے، جبکہ کالعدم تنظیموں کے ذریعے بھی بھارت اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔

تازہ المیہ یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مداخلت کرنے کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ اس المیے کی کئی سیاسی و تاریخی وجوہات ہیں۔ مثلاً نریندر مودی کی حکومت بھارتی جنتا کے لئے وہ خوشیاں نہیں لا سکی، جس کے خواب دکھائے گئے تھے۔ ایک وجہ عالمی برادی کی، ان مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہے، جو بھارتی فوج کشمیر میں کر رہی ہے۔ کیا اڑی میں حملہ پاکستانی فوجیوں نے کیا؟ بالکل نہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے چند دن قبل ایسا واقعہ اور پھر بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف مہم ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے، تاکہ پاکستان کی اس سفارتی مہم کو نقصان پہنچایا جا سکے، جو پاکستان کشمیر کے ایشو پر جاری کئے ہوئے ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں اوڑی کے مقام پر ہونے والے حملے کے بعد لائن آف کنٹرول پر فضا کشیدہ ہے۔ ایک طرف انڈیا کی فوجیں حملے کے لئے تیار ہونے کی خبریں آ رہی ہیں تو دوسری جانب پاکستانی فوج بھی سرحدوں پر چوکنا ہے۔ اس ساری صورتحال میں لائن آف کنٹرول پر بسنے والے لوگ غیر یقینی کا شکار ہیں۔

چکوٹھی اور اس کے نواحی علاقے اوڑی سے کافی قریب ہیں۔ چکوٹھی کا بازار، ہسپتال، کالجز اور سکولز ایسے مقام پر ہیں جو بھارتی فائرنگ کی براہ راست زد میں ہیں۔ ایل او سی کے قریب تمام سرکاری سکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ تاہم بعض نجی سکولوں میں امتحانات کے پیشِ نظر فوج نے سکول انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ حالات خراب ہونے کی صورت میں بچوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنائیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو سکول ایک ہفتے کے لئے بند کر دیئے جائیں۔ لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کی جانب جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اوور لوڈنگ نہ کریں، تاکہ اچانک فائرنگ کے نتیجے میں انہیں علاقے سے نکلنے میں مشکل نہ ہو‘‘۔ فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت اور میڈیا میں آنے والی سنسنی خیز خبروں کے بعد بیشتر مقامی لوگ غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے بچوں کو محفوظ جگہوں پر منتقل کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ بھارتی جارحانہ بیان بازی سے نکل کر عملی جارحیت کا بھی سوچ رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتی فوج نے کئی جگہوں پر بھاری اور درمیانے درجے کے ہتھیار اگلے مورچوں پر پہنچانا شروع کر دیئے ہیں، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے دفترِ خارجہ نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کی فوج کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔

جمعرات کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے زیادہ وقت ملٹری آپریشن روم میں گزارا، جہاں وہ لائن آف کنٹرول پر فوج کی نقل و حرکت کی تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیتے رہے۔ دوسری طرف پاکستان کی فضائیہ نے ملک کے شمالی حصے کی فضائی حدود اور موٹر ویز کو بند کرکے جنگی مشقیں مکمل کر لی ہیں۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے پریس بریفنگ میں فضائیہ کی جانب سے فضائی حدود اور موٹر ویز پر جنگی مشقوں کو معمول کی کارروائی قرار دیا۔ البتہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے انڈیا کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں کے بارے میں کہا کہ پاکستان کی فوج ملک کے دفاع کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی بھارتی دھمکیوں کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج پاکستانی قوم کے ساتھ مل کر ملک کے انچ انچ کا دفاع کرے گی۔ بے شک جارحیت کی صورت میں دفاع پاکستان کا حق ہے۔ قطع نظر اس سے کہ جنگ کون شروع کرتا ہے، جنگوں کے نتائج کبھی بھی ویسے نہیں ہوتے جیسے میز پر ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ایک پورا دن ملٹری آپریشن روم میں گذارانا، اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت اپنے جنگی شوق کی تکمیل کے قریب ترین ہو رہا ہے۔ مگر بھارتی منصوبہ ساز اپنی سول حکومت کو یہ نہیں بتا رہے کہ بھارت کی جانب سے سرجیکل سٹرائیک کی کوشش کسی بھی تباہ کن جنگ کا پیشہ خیمہ ہوگی، جس کے نتائج عالم انسانیت کو بھگتنا پڑیں گے۔ بھارتی میڈیا کو بھی سنسنی خیزی سے اجتناب کرنا چاہیے اور تجزیہ کاروں کو بھی حقائق کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے اور فوج و قوم کے حوصلے بلند۔ اس کے باوجود عالمی برادری بھارتی جارحیت، جارحانہ بیانات اور فوجوں کی نقل و حرکت کا نوٹس لے اور خطے کو تباہی کی طرف لے جانے والی بھارتی کوششوں کو روکے۔ کشمیر پر بھارتی مظالم کشمیروں کو بھارت کے خلاف جوابی کارروئی کا جواز فراہم کرتے رہیں گے۔ عالمی برادری بھارتی حکومت کو خوش فہمیوں سے نکال کر حقائق کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بھارت ان خوابوں کی تعبیر ٹینکوں کی گھن گرج میں نہ ڈھونڈے، جو اس نے خطے کا نمبردار بننے کے لئے دیکھ رکھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

طاہر یاسین عملی صحافت سے وابستہ ہیں اور ترقی پسند صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply