صاحبزادہ محمد امانت رسول
ایک سوال اکثر لوگوں کو پریشان کیئے رکھتا ہے کہ ہم زندگی میں کامیاب انسان کیسے بن سکتے ہیں؟۔میرے مطابق ،اس کے لئے چار خوبیاں اپنی ذات میں پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جن کے بغیر کبھی کوئی کامیاب انسان نہیں بن سکتا۔ پہلی خوبی یہ ہے کہ انسان کا ہدف بالکل واضح ہونا چاہئے کہ وہ زندگی میں کیا کرنا اور کیا بننا چاہتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑا ہوتا ہے۔وہ حادثاتی طور پر کچھ بھی بن سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ تمام زندگی Rolling Stoneبنے رہتے ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ اس لیئے کام، محنت اورکوشش سے پہلے ہدف اور مقصد کا واضح ہونا بے حد ضروری ہے۔ دوسری خوبی قناعت پسندی ہے۔ آپ کو دوسری خوبی کامیابی کے حوالے سے اجنبی اور غیر متعلق محسوس ہو گی لیکن اگر آپ گہرائی سے اس کا جائزہ لیں گے تو آپ سمجھ پائیں گے کہ یہ صفت آپ کو کامیاب انسان بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قناعت پسندی کے دو فائدے ہیں ۔پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی صلاحیت ، دولت اور وقت کو غیر ضروری تقاضوں میں خرچ نہیں کرتے، قناعت پسندی کی وجہ سے آپ جلد تھکتے،بیزار اورمایوس نہیں ہوتے۔ یہ صفت آپ کے جسم اور ارادوں میں ایساکردار ادا کرتی ہے، جیسے گاڑی میں پٹرول کام کرتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے آپ نفسیاتی حوالے سے مستحکم اور مضبوط رہتے ہیں۔ تیسری خوبی”جہدِ مسلسل“ ہے قناعت پسندی کا ہر گز یہ مطلب نہ لیجئے کہ آپ نے محنت اور کوشش ترک کر دینی ہے۔ قناعت پسندی کےساتھ محنت اور کوشش کا عمل آپ کو کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہے ۔ ایک طرف آپ کی صلاحیت ،وقت اور دولت ضائع ہونے سے بچ رہا ہوتا ہے ، دوسری طرف یہ سب کچھ کسی مقصد میں خرچ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ قناعت پسندی جہدِ مسلسل کے ترک کر دینے کا نام نہیں اور نہ ہی جہدِ مسلسل کا مطلب اپنی خواہشات و مراعات کے لئے ”کھپ“ جانے کا نام ہے۔ جہدِ مسلسل ہدف کی وضاحت کے ساتھ ہو تو انسان جلد اپنے مقصد کو پا لیتا ہے ورنہ صورتِ حال ایسی ہوتی ہے کہ ٹکٹ لینے کے باوجود آپ تذبذب کی کیفیت میں ہیں کہ میں نے جس شہر کے ٹکٹ لی ہے وہاں اترنا بھی ہے یا نہیں ، اس طرح محنت کے باوجود آپ کہیں نہ پہنچ پائیں گے۔
چوتھی اور آخری خوبی آپ کی آدرشوںکے ساتھ Commitmentہے ۔اگر آپ مسلمان ہیں توآپ کا دین آپ کو زندگی کے متعلق راہنمائی دیتا ہے کہ آپ کو کچھ ضوابط اورقوانین کا پابند رہنا ہے۔ اس نے آپ یہ کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں یہ تمام آپ کے آدرش ہیں ۔میں نے مسلمان کی مثال دی ہے ورنہ دنیا کا کوئی مذہب اور نظریہ اپنے ماننے والوں کوکبھی جھوٹ ،دھوکہ دہی، ظلم اور بدعنوانی کی تعلیم نہیں دیتا۔ جب آپ اپنے مذہب کی تعلیم پہ عمل پیرا ہوتے ہیں تو آپ فقط خود کو کامیاب انسان بنانے میں کامیاب نہیں ہو تے بلکہ آپ ایک ایسا سماج تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جہاں اعلیٰ اقدار کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوتی ہیں ۔ یہ چار خوبیاں ہیں جنہیں بیک وقت اختیار کرنے سے ہم کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔ یہ چار خوبیاں صرف نظریاتی نہیں عملی بھی ہیں۔ دنیا میں کامیاب انسانوں نے ان چار خوبیوں سے استفادہ ضرور کیا ہے۔ اگرچہ ان کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں ہیں لیکن اگر غورکیا جائے تویہ چار خوبیاں اصول کی طرح اہم ہیں جن کے بعد دوسری خوبیاں خودبخود انسانی شخصیت میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ میں نے یہ چارخوبیاں بہت سے کامیاب لوگوں کی خودنوشت ، سوانح عمری اور حالات زندگی کو پڑھ کرلکھی ہیں۔
قدرت نے خوبیوں کو آپس میں ایسے جوڑ دیا ہے کہ ایک خوبی اختیار کرنے سے باقی خوبیوں کا راستہ خود بن جاتا ہے ۔انسان اپنے مقصد اورہدف میںکسی قسم کے ابہام وشک کاشکار نہ ہو، یہی وضاحت واطمینان اس کے لئے باقی خوبیوں کا راستہ بنا دیتی ہے ۔ ورنہ ابہام و تذبذب میں رہنے والے لوگ زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں اورشکوہ کناں رہتے ہیں کہ ہم اپنی محنت اور کوشش کے مطابق نتائج حاصل نہ کر سکے۔ آیئے! اپنے ہدف کی وضاحت ، قناعت پسندی، جہدِ مسلسل اور آدرشوں کے ساتھ زندگی گزاریئے اور کامیاب انسان بنیئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں