• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • صدارتی یا پارلیمانی نظام۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

صدارتی یا پارلیمانی نظام۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

نظامِ اقتدار سے مراد وہ ڈھانچہ ہے جس کے تحت کسی بھی ملک یا ریاست کے اعلی و مرکزی اداروں کا قیام، ان کی تنظیم ، ان کی ساخت، صلاحیت، کسی بھی جماعت یا گروہ کی معیادِ اقتدار، ان کے اختیارات، عموام الناس کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت، حکومت کے قیام اور اس کی سمت میں عوام کا کردار وغیرہ جیسے معاملات کے انتظام کا قیام عمل میں لانا ہے۔
اپنے وقت میں ارسطو نے ریاستی اقتدار کو تین مختلف قسموں میں تقسیم کیا تھا، پہلی شکل وہ ہے جس میں اختیارات ایک شخص کے ہاتھ میں ہیں جسے یونانی زبان میں monarchy کہا جاتا ہے، اس کا سادہ ترجمہ بادشاہت کیا جا سکتا ہے، دوسری قسم میں اقتدار یا اختیارات کا منبع چند مخصوص مگر محدود افراد یا ادارے ہوتے ہیں، Aristocracy اسی شکلِ اقتدار کا یونانی نام ہے، تیسری شکل وہ ہے جس میں کسی ریاست کے تمام عوام یا آبادی کو اقتدار کا حصہ بنایا جاتا ہے، یا کم ازکم اقتدار کی مخصوص شکل کے پنپنے یا کسی مخصوص جماعت و افراد کے ہاتھ میں اقتدار سونپنے کے عمل میں عوام اپنی خواہش کے استعمال کا حق رکھتے ہیں، اسے Democracy یا جمہوریت کہا جائے گا۔

دورِ حاضر میں بھی ریاستی اقتدار کی کم و بیش یہی شکلیں ہیں جو ارسطو نے قبل از مسیح بیان کی تھیں، بحیثیت مجموعی دو ہی شکلیں ہیں ، یہ کہ اقتدار فردِ واحد کے ہاتھ میں رہے یا کوئی منظم جماعت ریاستی لوازمات کو پورا کرنے کی ذمہ داری سر انجام دے ، یعنی کہ بادشاہت یا ریپبلکن شکلِ اقتدار۔

بادشاہت یا ، Monarchy, سے مراد وہ شکلِ اقتدار ہے جو کسی قانون یا میعاد کی پابند نہیں، نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہ ہے، قانون سازی اور دوسرے اداروں کے اختیارات میں کسی قسم کی تبدیلی بادشاہ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں میں بادشاہت کی مختلف قسمیں، مختلف تبدیلیوں کے ساتھ سامنے آتی رہیں، مثلاً  اسپارٹا میں ایک ہی وقت میں دو شاہ بھی قانونی طور پر برسرِ اقتدار رہتے رہے، یہی روایت رومۂ قدیم میں بھی دیکھی جا سکتی تھی، جہاں دو حصوں میں بٹا اقتدار دو مختلف افراد کے ذریعے عوام الناس پر حکمرانی کا حق رکھتا تھا، اگرچہ رومۂ جدید کی سلطنت میں بادشاہ یا سیزر کا کردار جنگی معاملات یا زمیندارانہ نظم و ضبط تک محدود رہا، دوسرے معاملات سینٹ میں باہم مشورے و صلاح مندی سے طے پاتے تھے، مطلق بادشاہت بعد کی ایجاد ہے۔ بادشاہت کے آغاز میں بنیادی کردار مذہبی عقائد کا ہے، بادشاہ کو نمائندۂ خدا منوایا جاتا رہا کہ عوام الناس کسی بھی حکم کی خلاف ورزی کا سوچیں بھی نہیں، بعد میں بادشاہت کے وراثتی انتقال نے اپنی اہمیت منوانا شروع کی۔

ریپبلکن شکلِ اقتدار کی بابت ارسطو نے بہت کم لکھا، اس پر تفصیلی قلم افلاطون نے اٹھایا، بادشاہت کی نسبت ریپبلکن نظام میں عوام کی اکثریت اپنے نمائندے منتخب کرتے ہوئے اقتدار کا حصہ بنتے ہیں، لفظ ریپبلک کا مطلب ہی جمہور ہے، اس شکلِ اقتدار میں عوامی نمائندے ایک خاص مدت کیلئے ایک مخصوص نظام کے ذریعے منتخب ہو کر آتے ہیں، اقتدار کی یہ شکل، پارلیمانی یا صدارتی نظام میں تقسیم کی جاتی ہے۔

بے شمار فیکٹرز ہیں جو شکلِ اقتدار کے انتخاب پر اثر ڈالتے ہیں، اگرچہ کسی بھی صورت میں ملک کی ترقی و استحکام ہی نظامِ اقتدار کے مدِ نظر رہنے چاہئیں۔
پارلیمانی نظام میں قانون سازی اور ایگزیکٹیو کی ذمہ داریاں ایک ہی ہاتھوں، یا جماعت کے پاس ہوتی ہیں، جس سے حکومتی قوانین و احکامات کے پورے ہونے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہ ہونی چاہیے، گویا کہ ایگزیکٹو ادارہ، قانون ساز ادارے کا ہی ایک تسلسل ہے، اور یہی پارلیمانی نظام کا سب سے مثبت پہلو ہے، کہ جب تک پارلیمنٹ میں مخصوص جماعت کی اکثریت ہے، وہ قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔

پارلیمانی نظام کی پہلی خامی یہ ہے کہ گاہے حکومت بنانے کیلئے کسی دوسری یا تیسری جماعت کی تائید درکار ہوتی ہے، یہیں سے ہر جماعت کے اپنے اپنے انٹرسٹس سامنے آتے ہیں، حکومت بچانے کیلئے، اکثریتی جماعت کی توجہ ملکی مسائل کی بجائے دوسری جماعتوں کے ” خدشات” دور کرنے میں صرف رہتی ہے، دوسری خامی اس صورت میں سامنے آتی ہے، اگر ایک جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر اپنی حکومت بنا پاتی ہے، تو ملک و قوم کے مستقبل کی باگ دوڑ اسی جماعت کی اہلیت، کارکردگی، نیک نیتی قابلیت پر منحصر ہے، اور تاریخ میں کئی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان بھاری اکثریتوں نے اپنی نااہلی کے بل بوتے پر کسی بھی ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی۔ صدارتی نظامِ حکومت میں صدر نہ صرف سربراہِ مملکت ، بلکہ سربراہِ حکومت بھی ہوتا ہے، اور حکومتی ڈھانچہ بنانے کے ساتھ ساتھ اسے توڑنے کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے، صدارتی نظام کا مثبت پہلو یہ ہے کہ صدر کو، یعنی ایک شخص کو عوام نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا ہوتا ہے، کہ ملک کی تقدیر یقیناً ایک قابل و ہونہار شخص کے ہاتھ میں دئیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں، اور صدر قوم و ملک کی یگانہ علامت کے طور پر سامنے آتا ہے، مگر اس نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کے متضاد یہاں قانون ساز اور ایگزیکٹیو دو مختلف ادارے ہیں، جن کے درمیان اچھے یا برے تعلقات و معاملہ فہمی جیسے لوازمات، دراڑ یا کم ازکم معاملات کی سست روی کا باعث ثابت ہوسکتے ہیں، اس کے امکانات اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب صدر کا تعلق ایک جماعت سے ہو، اور پارلیمان میں اکثریت مخالف جماعت کی ہو۔

مختلف ممالک میں حکومتی شکل مختلف ہو سکتی ہے، عموماً ایسا بھی ہوا کہ کچھ ممالک پہلے کسی ایک نظام کے تحت کاروبارِ مملکت چلاتے رہے، مگر خاطر خواہ نتائج نہ ملنے پر ایسے ممالک نے دوسرے نظام کو ترجیح دی، اسی طرح کچھ ممالک مخلوط جمہوری نظام کے بھی قائل دکھائی دیتے ہیں،یعنی نیم پارلیمانی یا نیم صدارتی نظام، اس کی سب سے بڑی مثال فرانس کی پیش کی جا سکتی ہے، جہاں 1958 ء سے نیم صدارتی نظام رائج ہے، یعنی کہ صدر عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتا ہے، اور یقیناً  تمام صدارتی اختیارات اس صدر کے پاس ہوتے ہیں، مگر حکومتی ڈھانچہ، یعنی پارلیمنٹ کے انتخاب یا اس کا تعین صدر نہیں کرتا، بلکہ پارلیمنٹ کے نمائندے بھی عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں، یہ نمائندے صرف پارلیمنٹ کو ہی نہیں، بلکہ صدر کے سامنے بھی جواب دہ ہوتے ہیں۔

پاکستان میں کس نظامِ حکومت کو رائج کیا جائے، اس پہ بحث جاری ہے، پارلیمانی نظام کو ہم مدتوں سے آزماتے آ رہے ہیں، مگر نتائج ندارد، اس کی ایک وجہ تو یہ کہ مقامی نمائندے کا انتخاب عموماً میرٹ پر نہیں، بلکہ تعلقات، برادری، جذبات اور گاہے دھونس دھمکی سے طے پاتا ہے، نتیجتاً پارلیمنٹ میں نااہل و بدمعاش طبقات کا جھرمٹ دندناتا پھرتا ہے اور ان کی پہلی ترجیح ً اپنے لوگوں  کی ضروریات کا خیال کرنا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ مختلف جماعتیں اپنے ذاتی مفاد کیلئے پارلیمنٹ میں موجود ہوتی ہیں، حکومت کے استحکام کیلئے حکومتی جماعت کی توجہ دوسری جماعتوں سے اتحاد قائم کرنے میں صرف ہوتی ہے اور حقیقی فرائض ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے پارلیمانی نظام نے جو دھینگا مشتی کا کھیل رچا رکھا ہے وہ سب کے سامنے ہے، بلکہ اکثر فوجی مداخلت کا سبب بھی انہی کی بداعمالیاں اور بد عنوانیاں بنیں، پارلیمانی نظام میں چونکہ قانون سازی کے بعد ایگزیکٹو کا کردار بھی حکومتی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے، تو معاملات کے طے کرنے میں ہمیشہ یہیں پہ عوام کو چکمہ دیا جاتا ہے، کچھ سمجھ نہیں آتی کہ معاملہ کس اسٹیج پہ رکا ہوا ہے، اور امپلیمنٹ کیوں نہیں ہو پا رہا، یہی وہ اسٹیج ہے جہاں بیوروکریسی وہ وہ کھیل کھیلتی ہے کہ جنّات بھی چکرا جائیں، یعنی کہ پارلیمانی نظام کا سب سے مثبت پہلو ہمارے جیسے ممالک میں بدترین نتائج کا نظارہ پیش کرتا نظر آتا ہے، صدارتی نظام میں پہلی بات تو یہ کہ ہر ایک کا اپنا الگ کردار ہے، قانون سازی ایک دوسرے ہاتھ میں ہے اور اس کو لاگو کرنے یا کرانے کی ذمہ داری وزیراعظم اور اس کی کیبنٹ کی ہے، دوسری بات یہ کہ صدرِ مملکت کے عہدے کا ہر امیدوار انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے سو دفعہ سوچے گا کہ یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ کانٹوں کا ہار ہے کہ انفرادی کارکردگی اس عہدے کیلئے ناگزیر ہے، وگرنہ تاریخ شاہد ہے کہ وطنِ عزیز میں فائلیں نہ پڑھ سکنے والے افراد بھی سربراہِ حکومت و مملکت رہ چکے ہیں، کیونکہ پارلیمنٹ میں موجودہ جماعت ان کی نااہلیوں اور بدعنوانیوں کے دفاع کیلئے موجود رہتی ہے، لیکن صدارتی نظام میں ایسا ممکن نہیں ، ویسے بھی مسلم نفسیات میں نظامِ خلافت کی ایک خاص اہمیت رہی ہے، اور عوامی سطح پر قانون کی پاسداری بھی شاید اسی صورت ممکن ہے، اسی عہدِ رفتہ کی یاد میں جدید جمہوری اصولوں کےمطابق صدارتی نظام کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply