• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ’’علامہ اقبال کی’’ قصرِ شرف النسائی‘‘ ایک یادگار نظم‘‘۔۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

’’علامہ اقبال کی’’ قصرِ شرف النسائی‘‘ ایک یادگار نظم‘‘۔۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

آخر جب مغلیہ سلطنت جاتی رہی اور سِکھی زمانہ آیا تو سکھوں نے اس تلوار و قرآن کو اندر سے نکالا۔ کہتے ہیں کہ کئی ہزار روپے کی مالیت کا وہ قرآن اور تلوار تھی‘‘ تو کیا شرف النساء کی داستان پر ایک دیو مالائی کہانی کا گمان نہیں ہوتا کہ گئے زمانوں کا قصہ ہے شہر لاہور کے گورنر کی بیٹی اپنے لئے ایک برج نما مقبرہ تعمیر کروایا۔ اس کی چوکور طرز تعمیر کے چاروں اور چار چار سرو کے درختوں کی تزئین کروائی کہ سرو کا درخت چمن زاروں کی زینت ہوتا ہے وہاں یہ قبرستانوں میں بھی آرائش کی خاطر لگایا جاتا ہے۔ گویا سرو بیک وقت زندگی اور موت کی علامت ہے۔ اس برج کی بلندی پر ایک دروازہ جہاں تک رسائی کے لئے سیڑھیاں نہیں ہیں بلکہ وہ شہزادی ایک زینہ استعمال کرتی ہے جسے آسانی سے اوپر کھینچ لیا جاتا ہے اور یوں وہ دنیا سے کٹ جاتی ہے۔ ایک مکمل بلند تنہائی میں چلی جاتی ہے وہ ایک خصوصی منقش سنہری حروف میں خطاطی کیا گیا قرآن پاک کھولتی ہے۔ قرآن کے پہلو میں ایک برہنہ مرصع تلوار رکھ دیتی ہے اور پھر تلاوت میں مگن ہو جاتی ہے اس کی وصیت کے مطابق اس مقام پر اسے اسی قرآن پاک اور مرصع تلوار کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ کیا یہ گمان کی سرحدوں سے پرے کی ایک ایسی داستان نہیں ہے جس کی حقیقت ایک سراب لگتی ہے ‘اس کو س مینار کی مانند ان زمانوں میں اس سرو والے چوکور برج مقبرے کے آس پاس دور دور تک ویرانیاں ہوں گی جن میں کہیں کہیں دیگر مغل مقابر اور باغات دکھائی دیتے رہیں گے۔ البتہ سرو والا مقبرہ ان سب میں ساخت اور آرائش کے اعتبار سے نمایاں نظر آتا ہو گا۔ وہ لاہور کے گورنر کی بیٹی تھی وہ تنہا تو اس ویرانے میں نہ آتی ہو گی۔ مسلح محافظ اس کے ہمراہ ہوتے ہوں گے جو اس کے بالائی منزل پر چلے جانے کے بعد مقبرے کے آس پاس موجود رہتے ہوں گے تو پھر وہ قرآن پاک کی تلاوت کے دوران پہلو میں ایک ننگی تلوار کیوں رکھتی تھی۔ کیا وہ تلوار کسی بھید کی علامت تھی جو قرآن سے منسلک تھا۔ یقینا ایسا تھا ورنہ وہ اپنے قرآن اور تلوار کے ہمراہ دفن ہونے کی وصیت کیوں کرتی۔ آثار قدیمہ کا محکمہ بھی تو اس داستان سے واقف ہو گا تو اس کی تفصیل تعارفی بورڈ پر کیوں درج نہ کی گئی۔ جب کبھی میں قدیم آثار کے بارے میں ان کی تحقیق اور تاریخ درج کرتا ہوں تو مجھے خدشہ رہتا ہے کہ اس تفصیل سے قاری کہیں اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائے چنانچہ میں کسی ایسی تاریخی حقیقت کی کھوج میں رہتا ہوں جس کا اضافہ بیانیے میں قاری کی دلچسپی کا باعث بن جائے جیسے شیخ اسماعیل عرف میاں وڈا کی کچی قبر پر اگنے والی گھاس کی تاثیر یا کوس مینار کے حوالے سے خالہ جان کے محاورے کا تذکرہ ۔ اس طور شرف النساء کے سرو والے مقبرے کے بارے میں کھوج کرتے ہوئے ڈاکٹر انیس احمد کے توسط سے میں ’’جاوید نامہ‘‘ میں درج علامہ اقبال کی نظم’’قصرِ شرف النسائ‘‘ تک جا پہنچا اور یہ میری کم علمی اور بے خبری کے لئے تو ایک خبر تھی کہ یہ نظم سرو والے مقبرے میں دفن شرف النساء کے بارے میں تھی اور اس حیرت بھری داستان کی منظوم ترجمانی تھی۔ اگرچہ یہ شاہکار نظم اس لائق ہے کہ پوری کی پوری درج کر دی جائے لیکن میں چیدہ چیدہ شعر اپنی پسند کے مطابق فارسی اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرتا ہوں اور اردو ترجمے کے لئے بھی میں ڈاکٹر انیس احمد کی فارسی دانی پر انحصار کرتا ہوں۔ گفت ایں کاشانۂ شرف النسأست مرغ باش یا ملائک ہم نواست خاک لاہور از مزارش آسماں کس ندند رازِ رورا درجہاں آں سراپا ذوق و شوق و دردوداغ حاکمِ پنجاب را چشم و چراغ در کمر تیغِ دو رُو قرآں بدست تن بدن ہوش و حواس اللہ مست خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عُمرے کہ رفت اندر نیاز وقت رخصت با تو دارم ایں سخن تیخ و قرآں راجُدا از من مکن دل باں حرفے کے مے گویم بند قبرمن بے گنبد و قندیل بہ! مومناں را تیغ با قرآں بس است تربت مارا ہمیں ساماں بس است عمر ہادر زیر ایں زریں قباب بر مذارش بود شمشیر و کتاب پیر رومی نے کہا یہ شرف ان کا کاشانہ ہے اور اس کی چھت کا پرندہ فرشتوں کا ہمنوا ہے۔ ہمارے سمندر نے ایسا گوہر پیدا نہیں کیا اور نہ کسی ماں نے ایسی بیٹی۔ اس کا فقر ایسا نقش ہے کہ تاقیامت رہے گا۔ کیونکہ قرآن وجود کو پاک کرتا ہے وہ اس کی تلاوت سے ایک لمحہ فارغ نہ رہتی۔ کمر میں دو دھاری تلوار رکھتی اور اس کے تن بدن ہوش و حواس اللہ مست رہتے۔ مرتے وقت ماں سے کہا تو اگر میرا راز جانتی ہے تو اس قرآن اور تلوار کو دیکھ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے محافظ ہیں اور کائنات زندگی کے محور ہیں۔ میری قبر بے گنبد و قندیل بہتر ہے خاک لاہور اس کے مزار سے آسماں ہوئی کوئی اس راز کو اس جہاں میں نہیں جانتا مومن کے لئے قرآن کے ساتھ تیغ کافی ہے میری قبر کے لئے یہی سامان کافی ہے لیجیے علامہ اقبال نے تو اس نظم میں بہت سے مقدمے وا کر دیے۔ وہ جو الجھنیں تھیں انہیں سلجھا دیا۔ ذرا غور کیجیے وہ سرو والے مقبرے کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ خاک لاہور اس مزار سے آسماں ہوئی (جاری ہے) یعنی وہ اس کی بُرج نما بلندی کو بیان کر رہے ہیں اور جب فرماتے ہیں کہ شرف النسا کا کاشانہ ایسا ہے کہ اس کی چھت کا پرندہ فرشتوں کا ہمنوا ہے تو یہاں بھی اس کی اونچائی کو بیان کر رہے ہیں۔ اس کی چھت کو پرندے سے تشبیہ دینا کیسا بے مثل اظہار ہے۔ اسی طرح وہ قرآن اور تلوار کو ایک دوسرے کے محافظ قرار دے کر انہیں کائنات زندگی کا محور ٹھہراتے ہیں۔ میں صدق دل سے یقین رکھتا ہوں کہ علامہ اقبال متعدد بار سرو والا مقبرہ دیکھنے اور اس کی بلندی اور رومانی کیفیت محسوس کرنے کے لئے آتے ہوں گے۔ تادیر یہاں قیام کیا ہو گا کہ عمیق ذاتی مشاہدے کے بغیر’’قصر شرف النسائ‘‘ ایسی موثر نظم لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ کیا سینکڑوں ماہرین اقبال میں سے کسی ایک نے تحقیق کی ہے کہ وہ کیسے اور کب سرو والا مقبرہ دیکھنے آئے تھے۔ کیا احباب کے ساتھ تشریف لائے تھے یا تنہا آئے تھے۔ یہ تشنگی کوئی تو دور کرے۔ میری شدید خواہش ہے کہ کوئی ایسا سبب بن جائے کہ سیڑھی کے ذریعے اس دروازے تک پہنچوں جس کی چھت ایک پرندہ ہے۔ دروازہ کھول کر دیکھوں تو سہی کہ شرف النسا کی قبر بے گنبد و قندیل کیسی ہے اور کس حال میں ہے لیکن شائد یہ بے ادبی ہو وہ خاتون اتنی بلندی پر اس لئے دفن ہوئی کہ کوئی غیر نظر اس کی قبر پر بھی نہ پڑے۔ اس خواہش میں جہاں ایک تجسس پنہاں ہے وہاں ایک ڈر بھی جاگزیں ہے۔ کیا پتہ جب میں زینے پر قدم رکھتا اس بلند دروازے تک پہنچوں اور اس کے کواڑ واکروں تو‘ شرف النساء کا شائبہ وہاں موجود ہو۔ قرآن پاک کے اوراق پر جھکا ہوا اور برابر میں ایک برہنہ تلوار رکھی ہو۔ کیا پتہ ہو‘ اس لئے مخل ہونا جائز نہیں: بر مزارش بود شمشیرو کتاب۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply