مسافر طیارہ کا المناک حادثہ

مسافر طیارہ کا المناک حادثہ
طاہر یاسین طاہر
حادثات ہمیشہ اپنے ساتھ دکھ،درد،اور وچھوڑے لاتے ہیں جبکہ اپنے پیچھے تلخ یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔گذشتہ روز پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے۔تاہم حادثے کی وجوہات فوری طور پر سامنے نہ آسکیں۔ترجمان پی آئی اے دانیال گیلانی کے مطابق طیارے میں 42 مسافر، عملے کے پانچ ارکان اور ایک گراؤنڈ انجینئر موجود تھے۔حادثے کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی گئی۔پی آئی اے کی جانب سے جاری کی جانے والی مسافروں کی فہرست کے مطابق متاثرہ طیارے میں 31 مرد، 9 خواتین اور 2 بچے سوار تھے۔یاد رہے کہ طیارہ 3 بج کر30 منٹ پر چترال سے روانہ ہوا جبکہ 4 بج کر 40 منٹ پر اسے اسلام آباد میں لینڈ کرنا تھا مگر پرواز کے دوران ہی اس کا ریڈار سے رابطہ منقطع ہوگیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ طیارے کے بائیں انجن میں خرابی تھی اور وہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔تاہم طیارہ گرنے کی کوئی حتمی وجہ سامنے نہیں آسکی اور نہ ہی پی آئی اے کی جانب سے کوئی تصدیق کی گئی، جبکہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔طیارے کا بلیک باکس مل گیا ہے جس کے بعد تحقیقات میں مدد ملنے کے امکانات ہیں۔
پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق کنٹرول ٹاور کو خطرے کا سگنل بھیجا گیا تھا جس کے فوری بعد طیارے کے تباہ ہونے کی اطلاع آگئی۔انہوں نے بتایا کہ تباہ ہونے والا طیارہ اے ٹی آر 42 ایئرکرافٹ تھا، جو تقریباً 10 برس پرانا اور اچھی حالت میں تھا۔پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے چیئرمین اعظم سہگل کا کہنا ہے کہ چترال سے اسلام آباد کے سفر کے دوران تباہ ہونے والے مسافر طیارے میں پرواز سے قبل کوئی فنّی خرابی نہیں تھی تاہم حادثے کی اصل وجوہات کا اندازہ تحقیقات کے بعد ہی ہو سکے گا۔یاد رہے کہ پرواز پی کے 661 کی روانگی کا وقت تین بج کر تیس منٹ تھا جبکہ اسلام آباد آمد کا وقت چار بج کر 40 منٹ تھا۔پی آئی اے کا کہنا ہے جہاز میں عملے کے پانچ افراد سوار تھے جن میں طیارے کے کپتان کیپٹن صالح جنجوعہ، معاون پائلٹ احمد جنجوعہ، فرسٹ آفیسر علی اکرم اور فضائی میزبان عاصمہ عادل اور صدف فاروق شامل ہیں۔اس سلسلے میں بدھ کی شب اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی آئی اے کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ میتوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے جمعرات کی صبح اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔پی آئی اے کے چیئرمین اکرم سہگل نے اس خیال کو بھی رد کیا کہ پرواز سے پہلے طیارے میں کوئی فنی خرابی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا ایک ماہ قبل معائنہ کیا گیا تھا۔اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں خبروں کے مطابق حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہونے والے پی آئی اے کے طیارے میں سوار تمام افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔مسافروں میں معروف گلوگار،نعت خواں اور مبلغ جنید جمشید سمیت ڈی سی او چترال بھی اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ جہاز میں سوار تھے۔
یہ امر واقعی ہے کہ پاکستان کی قومی ایئر لائن سمیت پاکستان کی نجی ایئر لائنز بھی محفوظ فضائی سفر کے لیے قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ایئرلائن سیفٹی کے حوالے سے ایک تقابلی جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی آئی اے تسلسل کے سا تھ ایئرلائن سیفٹی کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے، اور یہ دنیا کی سب سے پرخطر ایئرلائنز میں سے ایک ہے۔ اعداد و شمار اس امر پہ گواہ ہیں کہ،پی آئی اے دنیا کی بد ترین تیسری فضائی سروس ہے۔پی آئی اے کے  67حادثات میں اب تک 1067افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پی آئی اے کے دباو پر اے ٹی آر طیاروں کو پروازوں کی اجازت ملی۔اتھارٹی نے ستمبر2016 میں اے ٹی آر طیاروں پر پابندی لگائی تھی۔ اوور ہالنگ کے بعد پی آئی اے کے دباو پر ان طیاروں کو پرواز کی اجازت ملی،اس کے باوجود یہ طیارے ساحلی و گردآلود علاقوں کے لیے خطرناک قرار دیے جا چکے ہیں۔یہ اعداد و شمار جو ہم نے سطور بالا میں درج کیے ہیں یہ مختلف ویب سیٹس سے لیے ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ ایسے قومی حادثات کے متعدد واقعات رونما ہونے کے باوجود فضائی سفر کے لیے کوئی محفوظ پالیسی کیوں نہ بن سکی؟ اس سے قبل بھی بھوجا ایئر لائن اور بلیو ایئر لائن بھی اسلام آباد میں فضائی حادثات کو شکار ہو چکی ہیں جبکہ پی آئی اے کی لندن کے لیے افتتاحی پرواز بھی بیروت میں لینڈنگ کے دوران میں تباہ ہو گئی تھی جس میں سوار تمام مسافر جاں بحق ہو گئے تھے۔جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ ہر صاحب درد اظہار ہمدردی ضرور کرتا ہے جبکہ ہماری حکومتیں روایتی تعزیتی بیانات کے ساتھ فی کس لاش کی قیمت لواحقین کو ادا کر کے نئے حادثے تک بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔ یہ امر واقعی ہے کہ ایسے حادثات میں انسانی غلطی کے احتمال،فنی و موسمی خرابیوں کا تذکرہ کر کے اور تکنیکی پہلووں کو زیر بحث لا کر غم کو وقت کی دھول میں گم کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمیشہ سے ریلوے و فضائی حادثات کے ادارہ جاتی ذمہ داروں کو کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔ یہی ہمارا مرمعاشرتی الیہ ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply