فاروقی صاحب اور نئے لکھاری۔۔۔رانا تنویر عالمگیر

میں رعایت اللہ فاروقی صاحب کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا لیکن “مکالمہ” پر ان کی کچه تحریریں پڑهی ہیں، اس سے اندازہ ہوا کہ بڑے آدمی ہیں… اللہ انہیں مزید بڑا بنائے. یقینا وہ مجهے نہیں جانتے ہونگے کیونکہ میں ایک عام آدمی ہوں جسے “خاص” ہونے کا زعم بهی نہیں ہے اور بننے کی خواہش بهی نہیں ہے. “مکالمہ” پر محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب کی تحریر پڑهی “سیاسی کالم کیسے لکهیں” اس میں انہوں نے نئے لکهاریوں کو بتایا کہ سیاسی موضوع پر لکهنے کے لوازمات کیا ہیں؟ میں بذات خود تو سیاسی تجزیہ نگار نہیں ہوں لیکن یہ تحریر پڑه کر مجهے محسوس ہوا کہ ہمارے روایتی سینئرز کی طرح فاروقی صاحب نے بهی جونئیرز کا گلا دبانے کی کوشش کی ہے.

جیسے ساس خود پہ ہوئے تمام ظلم کے بدلے اپنی بہو سے گن گن کر لیتی ہے بلکل اسی طرح ہمارے سینئر لکهاری بهی نئے لکهاریوں کو ایسا گهماتے ہیں کہ اس گهن چکر میں انهیں کچه سمجه نہیں آتا کہ کیا کریں. ان کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں کہ اپنے استاد محترم قبلہ کی فوٹو کاپی بن جائیں یا لکهنے سے توبہ کرلیں اور بیچارے نئے نئے شعراء کرام کی تو پوچهیں ہی مت… جس کے پاس بهی اصلاح کروانے گئے، آدها پاگل تو وہ اپنی شاعری سنا سنا کر دیتا ہے، اور آدها پاگل تمام شاعروں کی شاعری میں نقص نکال نکال کر اور بندہ جب وہاں سے اٹهتا ہے تو بس یا تو وہ خود اس دنیا میں شاعر ہوتا ہے یا اس کے وہ استاد محترم.

چونکہ ہمیں غلامی کی عادت سی ہوگئی ہے اس لیے آزادی ہمیں معیوب سی لگتی ہے. ہمارے سکول، کالج، یونیورسٹیز، مدارس ،اساتذہ ، مولوی، لکهاری، دانشور ، شاعر سبهی اس غلام قوم کو غلامی پہ رضامند کرنے پہ لگے ہوئے ہیں. فاروقی صاحب نے بهی اس کالم میں ایسی ہی کوشش کی ہے تاویل-مسائل کو بہانہ بنا کر۔ مثلا فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ

“لازم ہے کہ آپ کی اطلاعات کے مراکز تک رسائی ہو. اطلاعات کے مراکز چار ہیں. 1اعلی سیاسی حلقے. 2 اعلی فوجی حلقے. 3 اعلی سفارتی حلقے. 4 اعلی صحافتی حلقے”۔۔۔۔۔۔

 اب یہ شرائط فاروقی صاحب نے نئے لکهاریوں کے لیے رکهی ہیں. فاروقی صاحب کو کوئی جا کر بتائے کہ یہ پاکستان ہے. یہاں زیادہ تر لکهنے والوں کا تعلق متوسط اور غریب گهرانوں سے ہے. یہاں تو ایک کونسلر اور پولیس کا سپاہی بهی خود کو “بڑی شے” سمجهتا ہے. اعلی سیاسی و فوجی و سفارتی و صحافتی حلقوں تک رسائی تو کسی غریب یا متوسط طبقے کے آدمی کے لیے عام حالات میں ممکن ہی نہیں ہےاور ان تعلقات کے بنا لکهنا آپ کے نزدیک “گناہ کبیرہ” ہے.

جہاں تک آپ نے اندر کی خبروں کا تذکرہ فرمایا تو آپ جیسے “بڑوں” نے پوری قوم کو اس زعم میں مبتلا کر دیا ہے کہ بس اندر کی خبر تو اسی کے پاس ہے اور سب چوک چوراہوں اور گلی محلوں میں آپ کی اندر کی خبروں کی بدولت ایک دوسرے کو جهٹلا رہے ہوتے ہیں اور بات ہمیشہ گالم گلوچ پر ہی ختم ہوتی ہے. ہمارے دانشوروں کو بهی مجبورا ” چڑیا طوطے” وغیرہ کا ذکر کرنا پڑتا ہے ورنہ ان کی کوئی سنتا نہیں ہے. باقی آپ کی اس تحریر سے مجهے تو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ کے اعلی سیاسی و فوجی و سفارتی و صحافتی حلقوں سے گہرے مراسم ہیں اور گمان غالب ہے کہ آپ کا اپنی تحریر میں ان کا ذکر اور مختلف ذاتی نوعیت کی مثالوں سے وضاحت کا بهی یہی مقصد ہے.

محترم فاروقی صاحب! ہمیشہ نیچے سے ہی اوپر جاتا ہے. اگر کوئی بهی لکهاری لکهنے سے پہلے آپ کے ارشاد کردہ لوازمات پورے کرنے کے چکر میں پڑ کیا تو امید واثق ہے کہ وہ پاکستانیوں کی اوسط عمر میں یہ لوازمات پورے نہیں کرپائے گا اور لکهنے کی خواہش کو حسرت کا روپ دے کر کنج مزار پاوں پهیلا کے سو جائے گا. اگر “مکالمہ” یا دیگر ویب سائیٹس نئے لکهنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں تو اسے سراہیے نہ کہ استادی کے چکر میں حوصلہ شکنی کرکے انہیں ایسا ڈرا دیجئے کہ قلم پکڑتے ہوئے بهی ان کے ہاته کانپنے لگیں. رہنمائی ضرور کیجئے مگر رہنمائی کے اصولوں کا مطالعہ بهی ضرور فرما لیجئے… تنقید ضرور کیجئے مگر تعمیر کی غرض سے…تذلیل کی غرض سے نہیں…. کیا آپ نے اپنے ارشاد کردہ تمام لوازمات پورے کرنے کے بعد لکهنا شروع کیا تها؟؟؟؟

لکهنے دیجئے.. لکهیں گے تو لکهنا آئے گا… علم کی جستجو بڑهے گی… پڑهنے کا شوق پیدا ہو گا… علم بڑهتے بڑهتے بڑه جائے گا… تعلقات بنتے بنتے بن جائیں گے… قلم تلوار سے بہرصورت بہتر ہے… مکالمہ کرنے دیجئے… شکریہ… امید ہے کہ برا نہیں مانیں گے…

Advertisements
julia rana solicitors london

محترم رعایت اللہ فاروقی لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس مضمون کا جواب وہ خود دیں تو بہتر ہے اور مکالمہ کے صفحات حاضر۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply