قوم اور قوم پرستی کا فلسفہ۔۔۔ عمران شاھد بھنڈر

دوسرا حصہ:

زبان کے علاوہ اقوام کی تشکیل کے تصور میں مذہب نے ہمیشہ سے ایک فیصلہ کن کردار دا کیا ہے۔ مختلف ممالک میں زبان کے فرق کے باوجود عقائد کی یکسانیت لوگوں کے درمیان اتحاد کو قائم رکھتی ہے۔ اٹھارویں صدی میں جرمن فلسفی یوہان فختے نے انقلابِ فرانس کی تضحیک کی اور جرمن قوم کو زبان اور نسل کے اعتبار سے یکتا قرار دیا۔فختے نے فلسفہ خودی کو محض فرد تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے اپنے تصورِ قوم کی بنیاد بنایا۔علامہ اقبال نے فختے سے فلسفہ خودی کو مکمل طور پر مستعار لیتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر’ مّلّت‘ کے تصور کو استوار کیا۔ پاکستان کے قیام میں مسلمانوں کو ایک الگ قوم کے طور پر پیش کیا گیا اور مذہب کے نام پرپاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ اسی طرح کانگریس میں شامل ہندوؤں نے مذہب کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کو تسلیم کرکے اپنی ہندو شناخت کو بھی تقویت دی۔ہندوستانی پنجاب میں خالصتان کے حصول کے لیے سکھ قوم کی جداگانہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر چلنے والی سیاسی تحریک ماضی قریب کا ایک اہم واقعہ ہے۔عہد حاضر میں ’’ورلڈ ہندو کونسل‘‘ ہندوستان کو صرف ہندوؤں کا ملک سمجھتے ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کا سفاکانہ قتلِ عام،باببری مسجد کی شہادت اور 1984 میں سکھوں کے بہیمانہ قتلِ عام کے واقعات ہندو فلسفہ شناخت کا شاخسانہ ہیں۔ اسی طرح آئیرلینڈ میں پروٹیسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے برطانیہ کے ساتھ اتحاد قائم رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ کیتھولک برطانیہ سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ یہاں مذہب اتحاد میں فیصلہ کن کردار ادا کررہا ہے۔امریکہ میں صیہونیوں کے مقتدر ہونے کی وجہ سے اسرائیلی بربریت و وحشت کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے صیہونی مذہب کی بنیاد پر اپنی ’شناخت‘ قائم کرتے ہیں اور اسرائیل کو فکری و عملی سطح پر مدد پہنچاتے رہتے ہیں۔ امریکہ کو ’’مہاجروں کی زمین‘‘ تصور کیا جاتا ہے، تاہم ژاک دریدا سمیت بہت سے ’سیکولر‘ مفکر امریکہ کو ایک مسیحی ریاست گردانتے ہیں۔ 11ستمبر کے واقعات کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، ڈک چینی اور جان ایشکرافٹ کے بیانات سے مسیحی و صیہونی شاونیت نمایاں دکھائی دے رہی تھی۔

قوم کا تصور کوئی ایسی سچائی نہیں ہے کہ جس کی حیثیت ماورائے تاریخ ہو۔ کسی بھی قوم کے نامیاتی وحدت ہونے کے تصور میں اتنی ہی سچائی ہے جتنی سرمایہ داری نظام کو ایک حتمی نظام سمجھنے میں ہے۔اور اس کے علاوہ اس بات پر یقین کرنا کہ سرمایہ داری نظام ایک ابدی نظام ہے اور آزادی، انصاف، مساوات اور انفرادیت جیسی اقدار اسی نظام میں رہ کر ممکن ہوسکتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں درست نہیں ہیں۔اعلیٰ اقدار کا تعین کرنا اور ان کے حصول کے لیے حالات کا موجود نہ ہونا کسی بھی نظام کے باطنی تضادات کو منعکس کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بعض مفکرین سرمایہ داری نظام کو تو زوال و انحطاط سے تعبیر کرتے ہیں مگر قوم پرستی جو اسی نظام کا شاخسانہ ہے اسے ایک قدامت پسندانہ اور متشدد رجحان کے طور پر تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔قوم پرستی کے جس رجحان نے فرانسیسی انقلاب کے ساتھ جنم لیا وہ مغربی دنیا میں بیسویں صدی کے آغاز تک ایک حقیقت بننے کے بعد اپنے زوال کی جانب گامزن ہوچکا تھا۔ قومی تعطیل ، قومی ترانہ، قومی شاعری اورقومی کھیل وغیرہ جیسے رجحانات عوام میں قومی یگانگت اور واتحاد کو شدید نوعیت کی جذباتیت کی سطح تک لانے کے لیے لازمی تھے۔ قوم پرستی جو سرمایہ داری کے ارتقا کے ساتھ ایک ترقی پسندانہ رجحان کے طور پر سامنے آئی، وہ ہر اس نظریے کی طرح اپنے ہی تضادات کا شکار ہوگئی جو نئے رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی نے جس طرح سرمایہ داری نظام کے اندرونی تضادات کو جنگوں کی صورت میں نمایاں کیا ہے تو وہاں قوم پرستی کا شاویانہ رجحان ہی ہے جس نے انیسویں صدی کے اختتام تک کالونیل ازم کے لیے راستہ ہموار کیا۔ فلسفیوں، ادیبوں، فنکاروں اور شعرا کی اکثریت قوم پرستانہ جذباتیت کی آڑ میں فسطائیت کی تبلیغ پر کمر بستہ رہی ہے۔مظلوم و مقہور اقوام پر قبضہ حد سے بڑھی ہوئی قوم پرستی ہی کا نتیجہ ہے، جبکہ پسی ہوئی اقوام میں قوم پرستی کے رجحان کی تشکیل غاصب اقوام کی غاصبانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہی قوم پرستانہ شاونزم بیسویں صدی میں ایک توسیع پسندانہ سیاسی اصول اور بورژوازی کی اپنی سلطنت قائم کرنے کی آئیڈیالوجی کے تحت وحشیانہ جنگوں کا باعث بنتا رہا ہے۔مسولینی کے اس فقرے کو بھلایا نہیں جاسکتا کہ ’’جنگ مردوں کے لیے وہی درجہ رکھتی ہے جو ماں کے لیے اس کی مامتا۔‘‘ جرمنی، اٹلی اور جاپان ا س قوم پرستانہ فسطائی رجحان کی واضح مثالیں ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم صرف سرمایہ داری نظام ہی کی شکست کا اعلان نہیں کرتیں،بلکہ رجعت پسندانہ قوم پرستی کی شکست و ریخت کو بھی عیاں کرتی ہیں۔

مغربی ریاستوں نے کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اپنے اغلاط کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ قوم پرستی جس نے فسطائی شکل اختیار کی، وہ آخر کار یورپی یونین کی شکل میں متحد ہوگئی ہے۔ایک وہ وقت تھا جب مغربی دنیا میں ’’خالص نسل‘‘ کی بحثیں ہوتی تھیں۔ اب برطانیہ، امریکہ اور مغربی ممالک خود کو ’تکثیری‘ معاشرے کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگوں کی اکثریت ایک ہی مذہب، زبان، اور ممالک سے تعلق رکھنے والے اپنے حکمرانوں کی دہشت پسند اور استحصالی پالیسیوں سے بچنے اور معاشی مقاصد اور بہتر زندگیوں کے حصول کے لیے اپنی مرضی سے مغرب، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اب فرانسیسی یا جرمن قومی شناخت کی بجائے یورپی یونین کی شناخت کا سوال اہم متصور ہوتا ہے۔ اس طرح ہر اس تصور کی نفی ہوجاتی ہے جو کبھی بہت اہم متصور ہوتا تھا۔قوم پرستی، نسل پرستی، علاقہ پرستی اور فرقہ پرستی وغیرہ میں نظریاتی سطح پر کوئی فرق نہیں ہے، یہ سب سیاسی اصول ہیں، قدامت پسند بورژوازی اور جاگیردار اشرافیہ کے آئیڈیولاجیکل ہتھیار ہیں، جنہیں اقتدار اور طاقت کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لسانی سیاست کرنے والا یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ اگر علاقائی ،نسلی ، مذہبی یا قومی بنیاد پر آزادی کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے تو لسانی بنیاد پر کیوں نہیں؟ قوم پرستی، فرقہ پرستی، نسل یا لسانی شناختوں وغیرہ میں سے صحیح اور غلط کا تعین کیسے کیا جائے؟حقیقت میں یہ سب اپنی سرشت میں قدامت پسندانہ اور فاشسٹ رجحانات ہیں، جنہیں بوقتِ ضرورت پراپیگنڈا سے تقویت دی جاتی ہے۔

عہد حاضر کے غالب نظریاتی مباحث سے قومی ، لسانی یا علاقائی نوعیت کی شناختوں کے مباحث سے یہ تصورات ابھرے ہیں کہ تمام آئیڈیولاجیکل تشکیلات اب ناقابلِ مدافعت ہیں۔ لوگوں کے اذہان سے قومی ، لسانی، علاقائی اور مذہبی شناختوں کے نقوش بہت مدھم پڑ گئے ہیں۔ ان کی بنیاد پر اب آزادی کی تحریک چلانا کسی باشعور معاشرے میں ممکن نہیں ہے۔ آئیڈیولاجیکل شناختیں اس نظام کی پیداوار ہوتی ہیں جس میں ان کے تصورات تشکیل پاتے ہیں۔عہد حاضر کی نظریاتی اساس اور اس کی متغیر و متبدل اشکال سرمایہ داری نظام کی عطا ہیں، جو اس نظام کے ارتقا سے نئے قالب میں ڈھلتی رہتی ہیں۔ رد و نمو کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ثقافتی اور آئیڈیولاجیکل رجحانات کے معیشت کی سطح پر آنے سے معیشت (بنیاد) اور اس کی بالائی اشکال (ثقافتی، سیاسی اور مذہبی نظریات) کی تفریق بھی دھندلا سی گئی ہے۔ مغربی ممالک میں لوگوں کی اکثریت قومی شناختوں اور ثقافتی رجحانات جیسے تصورات کو جنس(Commodity) کی سطح پر لاکر دیکھتی ہے۔ 1950 کے بعد سرمایہ داری معیشت جس تیزی سے آگے بڑھی ہے اس نے ممالک کے درمیان سرحدوں کو منہدم کرتے ہوئے شناختوں کا بحران بھی پیدا کردیا ہے۔ سرمایہ داری معیشت کی مثال اس وقت ایک ایسے متن (Text) کی سی ہے جو ’علیحدگی ‘میں تشکیل نہیں پاسکتا۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اس وقت معاشی سطح پر بین المتونی (Inter-text) صورتحال پیش کرتا ہوا انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک طرف منڈی کو کنٹرول کرنے کے لیے سامراجیوں کی یلغار ہے تو دوسری جانب غیر ترقی یافتہ ممالک اپنی بقا کے لیے سامراجی ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔فی الوقت عالمگیریت کا یہ عمل یکطرفہ ہے، یعنی مغرب اور امریکہ سے ’تیسری دنیا‘ کی جانب ! ایسے میں اصل سوال یہ جنم لیتا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں کو زوال و انحطاط سے بہتری کی جانب کیسے لایا جائے؟ تعلیم، صحت، روزگار، اور رہائش جیسے اہم اور بنیادی مسائل کا تدارک کرکے ان کے ذہنوں اور زندگیوں میں معاشی استحکام کو کیسے یقینی بنایا جائے؟عوام کو بہت بیوقوف بنایا جاچکا ہے۔ اب مقتدر طبقات سے حساب چکتا کرنے کا وقت ہے۔آزادی یا علیحدگی کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے سرمایہ داروں کے آپسی جھگڑوں کا حصہ بن کر محنت کشوں کو نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ رنگ، نسل، قوم، اور علاقائی بنیادوں پر قائم کی گئی تقسیم کا تصور اپنی سرشت میں ایک فسطائی تصور ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان محنت کش طبقات کو ہوتا ہے۔ نظریاتی وابستگیاں ان کو مستقل غلامی کی زنجیروں میں جھونکی رکھتی ہیں۔

قومی شناخت کا تصور لبرل آئیڈیالوجی کا تخلیق کردہ ہے، جسے لبرل، قدامت پسند، فاشسٹ اور سوشلسٹ اپنے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتے رہے ہیں۔ طبقاتی شناخت کا تصور اشتراکی فلسفے کی عطاہے، جس کا کردار قومی نہیں، بین الاقوامی ہے۔ طبقاتی شناخت رنگ، نسل مذہب اور لسانی تفریق کو ملحوظ خاطر نہیں لاتی۔انقلابات کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر تمام آئیڈیولاجیکل شناختوں کے انہدام کی تاریخ بھی ہے۔ انقلابات کے دوران ایک ہی رنگ، نسل مذہب، اور زبان سے تعلق رکھنے والے استحصال زدہ طبقات اسی رنگ ، نسل، مذہب سے تعلق رکھنے والے استحصالی و جابر مقتدر طبقات کو نیست و نابود کرنے کے لیے صف آرا ہوتے ہیں۔اس طرح کسی بھی ملک میں جنم لینے والا قومی سوال بنیادی طور پر ایک مقرونی (Concrete) سوال ہے، یعنی مقرونی صورتحال میں طبقاتی شناخت کو ممیز کرتے ہوئے طبقاتی جدو جہد کے نقطہ نظر سے اس سوال کا جواب تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ممالک کی تقسیم اور نئی سرحدوں کا قیام حقیقت میں طبقاتی تقسیم کے تصور کو دھندلا کرتا ہے۔ جہاں طبقاتی بنیادوں پر اتحاد کی بجائے جھنڈوں کے نیچے اور ترانوں کے تقدس کے تحت اتحاد پروان چڑھنے لگتے ہیں وہاں فتح بلآخر انہی نظریات کی ہوتی ہے جن کے خلاف جدوجہد انقلابیوں کا فرضِ اولین ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سرمایہ داری نظام میں آزادی کی ہر وہ تحریک جس میں قومی سوال کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اس میں طبقاتی جدوجہد کے سوال کو مرکز میں لانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے قومی سوال کو سرمایہ داری نظام میں حل کیا ہی نہیں جاسکتا،جبکہ بقو ل لینن ایک اشتراکی سماج میں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سوال کی بجائے طبقاتی سوال کو اٹھایا جائے اور تمام پسے ہوئے ، مظلوم و مجبور اور استحصال زدہ طبقات کو ایک مرکز پر اکھٹا کر کے استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے حقیقی آزادی حاصل کی جائے، جو اس جابر و استحصالی نظام میں ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ختم شد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply