میرا برہان شہید رحمہ اللہ

تاریخ لکھنے والے کی روشنائی تو عام ہی ہوتی ہے۔ مگر کچھ باب ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم سنہری باب کہتے ہیں۔اس سنہری باب کو لکھنے والے اور اس باب کا حصہ بننے والے واقعتاً سونا ہوتے ہیں۔ تاریخ ایسے افراد پر نازاں ہے جو تاریخ کو چار چاند لگاتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں افراد میں چند لوگوں کو خدا یہ شرف بخشتا ہے کہ انہیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر بناتا ہے۔
قارئین کرام! تاریخ انسانی اور بلخصوص تاریخ اسلامی اپنے اپنے اندر بہت سے ایسے درخشاں ستارے رکھتی ہے جنہوں نے تاریخ کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے.
ایسا ہی ایک کردار ماضی قریب میں چشم فلک نے دیکھا۔ اور جس کے کردار نے تاریخ کے اوراق کو منور کیا۔۔ظلمتوں کی گھنی رات میں اجالوں کا نور بن کر چمکنے والا یہ آفتاب جنت نظیر عرض کشمیر کا جواں دل مجاہد برہان مظفر وانی شہید رحمۃ اللہ تھا ۔ شرک و مشرک کی مسلط کی گئی ظلمت میں توحید کا چراغ لیے تیز و تند ہوا کے مقابل، غم و آلام کی بارشوں کو سہتا ہوا، جبر استبداد کی چکی پاؤں تلے روندنے کا عزم لے میرا برہان دس لاکھ فرعونی و نمرودی فوجوں کے خلاف برسرپیکار رہا۔ آتش نمرودی کے پھیلے آلاؤ میں مثل ا براہیم کودنے والا میرا برہان ۔۔۔۔۔۔۔۔

سال ہونے کو ہے۔ یہی عید کی خوشیوں کے دن تھے ۔ عید ملن پارٹی میں شرکت کی تیاری کرتے ہوئے موبائل فون پر واٹس ایپ کے میسجز کا سرسری جائزہ لینے لگا۔اچانک ایک خبر اور تصویر پر نظر رک گئی ۔”برہان مظفر وانی کو شہید کر دیا گیا”۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔خبر پڑھ کر کچھ دیر تو صدمہ ہوا۔ پھر شہادت جیسا باکمال رتبہ اور اس پہ دکھ کیونکر۔ رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور بے ساختہ زبان سے نکلا ۔ یا رب اس نوجوان کے خون میں برکت ڈال دے۔ یا رب العالمین اتنی برکت ڈال کہ قاتل کو اس قتل پہ پچھتاوا ہو۔برہان. نے سنت اسماعیلی کی ایسی پیروی کی کہ جس کے لیے عید الاضحٰی کا انتظار بھی نہ کیا۔شہید برہان کی تصویر ڈاؤن لوڈ کی ا ور دیکھنے لگا۔ویسے تو شہید حق کی تصویریں اور ویڈیوز پیغامات پہلے بھی دیکھا کرتا تھا اور دیکھ کر اکثر ہی سوچا کرتا تھا کہ کیسا باکمال شخص ہے۔ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے اور مرتبہ وہ کہ فرشتے بھی سلام کرتے ہیں۔ کبھی برہان کی تصویر اور کبھی خود کو آئینے میں دیکھ کر سوچتا۔ واللہ خدا نے حسن بھی برہان رحمۃ الله کے مقدر میں لکھ دیا۔ ایسا خوبرو کہ اگر کوئی اس کی آنکھوں کو دیکھے تو گھنٹوں انہی سے ہمکلام رہے۔ چمکتے گال باریک ہونٹ خوبصورت ناک۔۔۔ گویا خدا نے حسن کے معاملے میں کوئی کسر باقی رکھی ہی نہ تھی ۔ اس چاند سے روشن مکھڑے کی اس پیشانی کے کیا کہنے ۔ جس پر کلمے والی ایک سبز پٹی جو مجھے سبحان اللہ ماشاء اللہ کہنے پر ابھارتی .

کیا ہی روشن چہرہ ہے اور کیا درخشاں قسمت کہ اسی رب کی توحید کے لیے سربکف رب کا یہ خوبصورت بندہ۔ جس کا حسن کسی مغربی فیشن، مہنگی کریموں اور بناؤ سنگھار کا محتاج نہ تھا۔ مگر اس دن جب برہان نہیں بلکہ شہید برہان کی تصویر دیکھی تو آنسو ضبط نہ کر سکا۔ گردن میں اور چہرے پر مقدس لہو اور مسکراتے چہرے کے نقوش ۔۔۔ نور تھا کہ آج پہلے سے کہیں زیادہ ،حسن تھا کہ گویا چودھویں کا چاند۔حسن کو بنانے والے رب کی قسم ۔۔ برہان شکل ،عقل،رتبے، اور اخلاق میں ہم سے بہترین تھا۔سوچا کرتا ہوں کہ ایک نو عمر نوجوان جس کو خدا نے اس بات کی سمجھ دی کہ خدا کی زمیں پر کفر کی حکمرانی نہیں چل سکتی۔اس کی صراط مستقیم کی دعا بھی اللہ نے خوب قبول فرمائی اور دنیا کا سب سے بہترین راستہ اور اعلی ترین منزل کی ہدایت دی۔غلبہ توحید براستہ جہاد شہادت تک ۔

میرا برہان مظلوم بہنوں کا درد مند تھا تو وادی کی ہر بہن میرے برہان کی درد مند تھی۔اگر ماؤں کے آنسو وہ صاف کرتا تھا تو واللہ وہ مائیں بھی آنسو بہا بہا کر رب سے ایسے بیٹے مانگتی تھیں ۔جن بھائیوں کا وہ بازو تھا وہ بھائی بھی اپنی طاقت پر فخر کرتے تھے۔ حسن اخلاق کا پیکر میرا برہان ہر آنکھ کا تارہ تھا۔ ہر ایک کو پیارا تھا ۔میرے برہان کو اللہ نے کشمیر کا درد اور پاکستان سے محبت دونوں سے نوازا تھا۔وہ اس پاکستان کو اپنے لیے مقدس اور مقدم سمجھتا تھا۔ کشمیر و پاکستان میں کوئی تفریق نہ کرتا تھا ۔میرا برہان جب تحریک میں تھا تو کفر پر ہیبت تھا۔ اس کا ایک پیغام شرک کے ایوانوں میں طوفان مچاتا تھا۔ ہندی فوجیں اس کے تصور سے بھی خوف کھاتی تھیں۔اور جب وہ رب رحمن کا مہمان بن گیا ۔ جب رب نے اسے شہادت سے سرفراز کر دیا تو ہندو کے لیے وہ بھیانک خواب بن گیا۔ اس کے ایک جنازے نے ہندو فوج کی نیندیں حرام کر دی۔ تحریک میں اس کا ہونا تو بابرکت تھا ہی ۔ مگر اس کے پاکیزہ اور باعزت خون کے فوارے نے تحریک کو زمین سے اٹھا کر ثریا کی بلندی تک پہنچا دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی شہادت پر ہر ماں کو یوں لگا کہ جیسے اس کے بیٹے کو سر مقتل ذبح کیا گیا ہے۔ہر بہن سمجھنے لگی کہ اس نے بھائی کھو دیا۔میرا برہان سب کا اپنا تھا۔ اس نے کسی کو غیر نہ کہا ۔ اور اسے کسی نے غیر نہ سمجھا۔وہ لائق طالب علم۔ شجاع جہادی، خوبصوت نوجوان، اچھا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور بہترین مسلمان تھا۔ اپنی شہادت سے کتنے ہی دلوں میں جہاد کو بیدار کر گیا۔باشعور اور غیور تھا۔ اس کے قاتل اسے قتل کر کے بھی رسوا ہو گئے اور وہ شہید ہو کر بھی دو جہانوں میں سرفراز و کامران ہو گیا۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی!

Facebook Comments

نعمان علی ہاشم
کالم نگار بننے کی مسلسل کشمکش میں ہیں۔ امی ڈاکٹر اور ابو انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے کالج سے راہ فرار لی اور فیس بک سے باقاعدہ دانشوری شروع کر دی۔ اب تک چند اخباروں میں مہمان کالم چھپ چکا ہے۔ مگر کسی نے مستقل قبول نہیں کیا. قبول سے یاد آیا کسی نے ابھی تک قبول ہے قبول ہے قبول ہے بھی نہیں کیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply