الیکشن2018۔۔۔محمد فیاض حسرت

ملک   کی اس وقت جو صورتِ حال ہے  وہ  ہر پہلو سے مایوس کن ہے ۔معاشی ،معاشرتی  اور اخلاقی  ہر لحاظ سے  ہم پستی میں چلے جا رہے  ہیں۔ سوال  یہ پیدا ہوتا ہے   کیا الیکشن   کا اس پہ کوئی اثر پڑتا ہے ؟  جواباً یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ   ہاں الیکشن کا کہیں نہ کہیں اس پہ اثر ضرور پڑتا ہے ۔ خواہ وہ ووٹ کا  حق  نہ ادا کرنے کی صورت میں  ہو یا کوئی اور دوسری صورت ہو  ۔دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا  ہم  اس مایوس کن صورتِ  حال  میں  الیکشن کے ذریعے کچھ بہتری لا سکتے ہیں ؟تو اس کا جواب بھی  ہاں میں ہی ہے ۔ تیسرا  سوال یہ  ہے کہ  ہم کس طرح الیکشن کے ذریعے بہتری لاسکتے ہیں ؟  اس سوال کے جواب کے لیے چند ضروری باتیں  سمجھنی ہوں گی ۔

اس ملک  میں رہنے والے  ہر شخص   کا حق ہے کہ وہ  اپنی مرضی  کا  لیڈر چنے  ۔ہر  شخص   کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے  جسے چاہے انفرادی طور پہ   ووٹ کے ذریعے   کامیاب کرے   اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ وہ ووٹ کا حق صحیح معنوں میں ادا کر رہا ہے ۔ کہیں  اس نے ووٹ کے  حق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی برت لی  تو اس ووٹ کے برعکس  اگر کل کو کوئی برا نتیجہ آتا ہے تو   وہ شخص بھی اس برے نتیجے کا ذمہ دار ہو گا ۔

لیڈر  کے انتخاب میں   اس ملک کا ہر شخص یہ ضروری سمجھے کہ  جو  لیڈر سب سے زیادہ شخصیت کے اعتبار سے  اچھا ہو  اسی  لیڈر کا انتخاب  کرے ۔بعض     اشخاص یہ خیال کرتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی اچھا لیڈر ہی نہیں  یعنی  ہر لیڈر برا ہے ۔ تو ان اشخاص   کو اگر ہر لیڈر برا نظر آ رہا تو اس کا  مثبت پہلو ہر گز یہ نہیں کہ چونکہ وہ  کسی بھی لیڈر کو اچھا نہیں سمجھتے  اس لیے اپنا ووٹ ہی نہ دیں بلکہ مثبت پہلو یہ ہے کہ   وہ  تمام لیڈروں کو اس طرح پرکھیں کہ سب سے زیادہ برا پھر اس سے کم برا اور پھر اس سے کم  ، اس طرح جو سب سے کم برا ہو اسے  ووٹ کا حق بجا لاتے ہوئے اپنی طرف سے منتخب کریں ۔

ہر صورت یہ  ممکن  بنائیں کہ  وہ ووٹ  اپنے  انفرادی  ، ذاتی مفاد  کی خاطر  نہیں دے رہے  بلکہ  اجتماعی ، ملکی مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے   دے رہے ہیں ۔ اگر انفرادی نوعیت سے ہٹ کر اجتماعی نوعیت کی طرف   چلتے ہیں تو ضرور  یہ مثبت پہلو انفرادی و اجتماعی    دونوں صورتوں میں مفید ہو گا۔

عوام ہر صورت  یہ کوشش کرے  کہ  وہ سیاست سے  دور رہے ۔ بھلا عام آدمی کا سیاست سے کیا لینا دینا ؟  ہم جو  اس کی خاطر  اپنوں میں نفرت  کا بیج بو دیتے ہیں  حتی کہ خونی رشتوں کا تقدس پامال کردیتے ہیں    جو  ایک خطرناک پہلو ہے جس کا اثر   انفرادی نوعیت سے اجتماعی نوعیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ یعنی یہ نفرت ایک آدمی سے ہوتی ہوئی پورے معاشرے  میں پھیل جاتی ہے ۔ہم نے یہ عزم کرنا ہے کہ نفرت کی بجائے محبت کو معاشرے میں پھیلانا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے خیال سے  بیان کردہ   چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو ملک کی  خراب صورتِ حال  میں بہتری  لائی جا سکتی ہے ۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply