معافی اور سزا۔۔۔مہرساجدشاد

طاہر صاحب نے سب کی طرف ایک نظر دوڑائی اور کہا
آپ سب اچھی طرح سوچ لو لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ اسے یہاں سے نکال باہر کریں۔
جمیل صاحب نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ؛
طاہر صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن اتنی تنخواہ میں کوئی اور بندہ ڈھونڈنا بھی مشکل ہے، جو اپنا کام بھی کرے صفائی بھی کرے اور سارے سامان کی چوکیداری بھی۔
تنویر کے چہرے پر افسردگی تھی ، اس نے کہا ۔۔
آپ لوگ معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے، اس پر ہمیں سخت کاروائی کرنا چاہیئے میرا تو خیال ہے صرف نکال دینا کافی نہیں اسے تو پولیس کے حوالے کرنا چاہیئے اور سخت سزا دلوانا چاہیئے۔
ملک لطیف صاحب ہنس کر بولے۔۔
لو جی اور سنو ، یہاں بجلی کے بل دینا اور تنخواہ کے پیسے پورے کرنا مشکل ہوا پڑا ہے اس قانونی کاروائی کے اخراجات کون بھرے گا۔
یکلخت کئی آوازیں ابھریں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک شور برپا ہو گیا، اس ماحول میں مشکل لگ رہا تھا کہ اس اکٹھ کا مقصد حاصل ہو سکے۔
طیب بٹ صاحب نے اونچی آواز میں کہا سب خاموش ہو جائیں،آپ سب اہل محلہ کو بلانے کا مقصد یہ تھا کہ اس سنجیدہ مسئلہ  پر آپ سب کی رائے لی جائے اور حل نکالا جائے ورنہ تو مسجد کمیٹی ہی بیٹھ کر فیصلہ کر سکتی تھی۔
ملک لطیف صاحب بھی ٹھیک کہتے ہیں کہ سارا محلہ کھاتے پیتے گھروں پر مشتمل ہے سب آسودہ حال ہیں لیکن مسجد کیلئے چندہ دینے کی بات آتی ہے تو ماہانہ کیبل فیس جتنے پیسے دینا بھی سب کو مشکل لگتے ہیں، ایسے میں مسجد کے بل اور دیگر اخراجات پورے کر کے مولوی کی تنخواہ پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اتنی معمولی اجرت میں کوئی غیر ہنرمند مزدور بھی کسی کارخانے میں کام نہیں کرتا ہمیں نیا مولوی کہاں سے ملے گا؟؟
تنویر کا غصہ برقرار تھا وہ بولا ۔۔یہ مسجد کمیٹی کا کام ہے کہ چندہ جمع کرے جو لوگ اپنے بچوں کو سینکڑوں روپے روزانہ خرچ کرنے کیلئے دیتے ہیں مسجد کیلئے چندہ بھی دے سکتے ہیں، لیکن یہ معاملہ ایسے ہی چلے یہ قابل قبول نہیں۔
چاچا نذیر بولا تنویر ٹھیک کہتا ہے، مسجد کمیٹی کے ارکان کے بچے تو اپنے اپنے گھروں میں قرآن پڑھتے ہیں مولوی انہیں گھر گھر جا کر پڑھا آتا ہے اسے بھی وہاں سے دو چار سو الگ سے مل جاتے ہونگے، لیکن باقی محلے کے بچے تو مسجد میں پڑھتے ہیں ہماری بچیاں بھی وہیں پڑھتی ہیں، آج بشیر موچی کے بچے کیساتھ زیادتی ہوئی ہے کل یہ دوسروں پر بھی ہاتھ ڈالے گا اسکی معافی اور رونا دھونا جھوٹ اور ڈرامہ ہے۔
ملک لطیف صاحب جو مسجد کمیٹی کے صدر بھی تھے بولے۔۔چاچا جی آپ ٹھیک کہتے ہیں بچوں کو محفوظ بنانا ہمارا فرض ہے، بندے سے ہی غلطی ہوتی ہے بندہ ہی توبہ کرتا ہے، مولوی کو رنگے ہاتھوں ہم نے ہی مسجد سے پکڑا تھا مارا پیٹا بھی، اس نے توبہ کر لی ہے معافیاں بھی مانگی ہیں۔
اب ہم اصول بنا رہے ہیں کہ بچے صحن یا برآمدے میں ہی پڑھیں گے مسجد کے اندر یا مولوی کے حجرے میں کوئی بچہ بھی نہیں جائے گا پھر کیسے کوئی غلط کام دوبارہ ہو سکے گا۔
تنویر نے غصہ سے جھنجلا کر کہا
یہ غریب بشیر موچی کا بچہ تھا جس کیساتھ جنسی زیادتی ہوئی تو آپ لوگ اصلاح و احوال کی کہانیاں سنا رہے ہیں، یہی بدفعلی کسی بڑے گھر کے بچے کیساتھ ہوئی ہوتی تو میں دیکھتا وہ اس مولوی کو مسجد کیا اس شہر میں بھی کیسے رہنے دیتا، بلکہ پولیس کو دے کر عدالت سے سزا بھی دلواتا۔ اب یہ مولوی آئندہ بھی کسی غریب بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنائے گا۔
سب پر پھر خاموشی طاری ہو گئی،
تنویر نے اپنا فیصلہ سنا دیا وہ بولا
اگر اس مولوی کو ہی رکھنا ہے تو میرے بچے وہاں پڑھنے نہیں جائیں گے۔
ملک لطیف صاحب مسجد کمیٹی کے صدر ہی نہیں محلے کے بڑے بھی تھے سب فیصلے کیلئے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے کہا بھئی بات یہ ہے کہ مسجد کمیٹی کوئی بات خود پر نہیں لے سکتی ہم نے یہی بہتر سمجھا کہ معاملہ آپ لوگوں کے سامنے رکھ کر آپ لوگوں سے ہی فیصلہ لیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ آپ لوگ بھی مولوی کو بلا کر اپنے سامنے اسکی حالت اور معافی دیکھ لیں پھر جیسا آپ لوگ بہتر سمجھیں ہمیں بتا دیں۔
ایک بار پھر مختلف آوازیں ابھرنے لگیں ،
“ہاں ٹھیک ہے اسکی بھی سن لیں”
“ یہ ٹھیک ہے اسے بھی تو دیکھیں شرمندہ ہے بھی کہ نہیں“
“ایسا ہی بہتر ہے سب سے پہلے وہ اپنی غلطی تسلیم کرے اور سب کے سامنے معافی مانگے”
“انسان توبہ کرے تو رب بھی معاف کر دیتا ہے، ہاں بھئ رمضان کا رحمتوں والا مہینہ ہے ہمیں بھی خیال کرنا چاہیئے”
لطیف صاحب نے یہ ماحول دیکھا تو اپنے نوکر ہاشم کو آواز دی ، ہاشم جا  ذرا مولوی کو بلا کر لا ، جا ذرا بھاگ کر جانا۔
مولوی حویلی میں داخل ہوا تو وہ سراپا عجز و انکسار بنا ہوا تھا سِمٹا ہوا قینچی چپل پہنے ہوئے، سر پر ٹوپی اور رومال، سفید شلوار سوٹ میں لطیف صاحب کے پاس پہنچ کر اس نے سب کی طرف ایک نظر دیکھا اور بولا۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ اور نگاہ جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
ملک لطیف صاحب بولے ہاں بھئی مولوی کیا ہوا تھا تجھے رمضان کے برکتوں والے مہینے میں کیا کیا تو نے بشیر موچی کے لڑکے کیساتھ،
مولوی بولا،
ملک جی مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا، آپکو پتہ ہے جی شیطان کتنی ظالم چیز ہے اس نے تو اسماعیل علیہ السلام پر بھی بہکانے کو حملہ کیا تھا وہ تو پیغمبر تھے جی وہ بچ گئے ہم گناہ گار لوگ ہیں بدبخت لعین کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔
مسجد میں بیٹھا ظہر کے بعد بچوں کو قرآن پڑھا رہا تھا بس جی شیطان غالب آگیا میں نے سب کو چھٹی دے دی اور اسے حجرے کی صفائی کرنے کیلئے مدد کے بہانے روک لیا، بس جی شیطان نے غلطی کروا دی مجھے معاف کر دیں آئندہ کبھی آپ لوگوں کو شکایت کا موقع نہیں دونگا بس ایک مرتبہ معاف کر دیں۔
آپ لوگ معاف کر دیں گے تو اللہ بھی مجھے معاف کر دے گا اس خبیث شیطان پر لعنت بھی بھیجیں
ساتھ ہی مولوی آنکھوں پر رومال رکھ کر اونچی آواز میں رونے لگا،
نعیم بٹ صاحب بولے بدبخت تجھے روزہ رکھ کر مسجد کے اندر بھی اللہ کا خوف نہیں آیا ؟؟
مولوی رومال سے ناک صاف کرتے ہوئے بولا بٹ صاحب یہ شیطان بڑا ظالم ہے یہ تو ولی اور درویش بھی نہیں چھوڑتا حملہ ضرور کرتا ہے بس ہمارے جیسے کمزور اور گناہ گار اسکا شکار ہو جاتے ہیں مجھے معاف کر دیں مجھے نوکری سے نہ نکالیں۔
ملک لطیف صاحب بولے مولوی تیرے روزے کا فدیہ ساٹھ مسکینوں کا کھانا کون کھلائے گا ؟؟
مولوی جھٹ سے بولا ؛
نہ نہ ملک جی نہ ، میں نے روزہ نہیں توڑا،
مجھے معلوم ہے روزہ توڑنے کی سزا بڑی سخت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply