بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔۔۔۔ حفیظ نعمانی

دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ نہ سوچیں کہ میں جو کہہ رہا ہوں اس سے اسی(۸۰) فیصد لوگ ناراض ہوجائیں گے اور صرف ۲۰ فیصدی خوش ہوں گے لیکن اس کی پرواہ نہ کریں اور جسے حق سمجھیں وہ کہہ دیں۔سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر مارکنڈے کاٹجو بھی ان میں سے ایک ہیں جو کبھی اس کا خیال نہیں کرتے کہ کون خوش ہوگا اور کون ناراض۔ وہ اس بات کو کہہ دیتے ہیں جسے سمجھتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں جو ہوا وہ اب آخری مرحلہ میں ہے اور جسے سزا دینا تھی دے دی گئی اور جسے رہا کرنا تھا رہا کردیا گیا، صرف دو چار معاملات ایسے بچے ہیں جن کا فیصلہ ہونا ہے۔ وہ بھی دیر سویر ہو ہی جائے گا اور وہ جو ہر زبان پر گودھرا اور احسان جعفری کی کہانی رہا کرتی تھی وہ اب کبھی کبھی کسی کی زبان پر آجاتی ہے۔

ایسے ماحول میں جسٹس کاٹجو کو نہ جانے کیسے خیال آگیا اور انھوں نے کہہ دیا کہ میری رائے میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے سابرمتی ایکس پریس میں اپنی ہی کمیونٹی کے کچھ لوگوں کے قتل کی سازش رچی تھی تا کہ اس کا الزام مسلمانوں پر ڈالا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات مجھے ہضم نہیں ہوتی کہ گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کا قتل کسی عمل کا ردّ عمل تھا؟ جسٹس کاٹجو نے نازی جرمنی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نازیوں نے بھی ۱۰؍ نومبر ۱۹۳۸ء میں یہودیوں کے قتل عام کو پیرس میں جرمنی سفارت کار کے قتل کا فوری ردّ عمل کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

جو بات جسٹس کاٹجو نے کہی ہے یہ بات ہم بھی کہتے ہیں اور اس وقت کے ریلوے کے وزیر شری لالو پرشاد یادو نے بھی تحقیقات کرانے کے بعد کہی تھی اور جس رفتار سے سابرمتی ایکس پریس گذر رہی تھی اس رفتار سے ٹرین کو گذر کر باہر سے پانی پھیکنے کے بار بار تجربے کیے گئے لیکن پانی معمولی سی مقدار بھی اندر نہیں جا سکی اور یہ یقین ہوگیا کہ آگ اندر ہی لگی۔ وہ لگائی بھی جاسکتی ہے اور لگ بھی سکتی ہے لیکن اندر سے ہی۔

اس زمانہ کے سب سے بدنام پولیس افسر ڈی جی پی ونجارہ جنھوں نے نہ جانے کتنے مسلمان لڑکوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر انکاؤنٹر کہہ دیا اور کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ شری مودی کو قتل کرنے آرہے تھے وہ اس وقت مودی کی ناک کا بال تھے اور انسانی خون بہانا ان کا سب سے دلچسپ مشغلہ تھا۔ اگر ہمیں یہ یقین ہوجاتا کہ سات برس جیل میں رہ کر ان میں انسانیت واپس آگئی ہوگی تو کہتے کہ وہ گیتا کی قسم کھا کر کہیں کہ سابرمتی ایکس پریس کے بارے میں ان کا کیا کردار تھا۔ اور فیصلہ ان کے بیان پر چھوڑدیتے۔ لیکن دو مہینے پہلے انھوں نے ABPکے پروگرام میں ’’پریس کانفرنس‘‘ میں عشرت جہاں کے قتل کے بارے میں کئے گئے اس سوال کے بارے میں کہ آپ کو کیسے معلوم ہوجاتا تھا کہ اس گاڑی میں دہشت گرد آرہے ہیں؟ انھوں نے یہ جواب نہ دیا ہوتا کہ ہم نے گاڑی کو روک کر کہا کہ ہم پولیس ہیں۔ آپ لوگ ہتھیار ڈال دیجئے اور انھوں نے جواب میں فائرنگ نہ کی ہوتی تو ہم گولی نہ مارتے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور ونجارہ آج بھی اس جھوٹ کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں۔

پورے ملک میں 1947ء سے 2002تک سیکڑوں وزیر اعلیٰ ہوئے اور چند کے علاوہ سب ہندو ہی ہوئے۔ پھر آخر مودی میں کون سا سرخاب کا پرلگا تھا کہ پاکستان کی ہر دہشت گرد تنظیم صرف مودی کے قتل کرنے کے لیے بھیجتی تھی اور سب اتنے اناڑی ہوتے تھے کہ سب کو ونجارہ گولی مار دیتے تھے اور ان کی گولی سے ونجارہ کا کتا بھی نہیں مرتا تھا؟اور مودی کے قتل کے ارادہ کے علاوہ جو دہشت گرد آتے تھے وہ چاہے کشمیر میں آتے ہوں، جموں میں آتے ہوں، پنجاب میں آتے ہوں یا ۱۸؍ ستمبر کو اری میں آئے ہوں وہ مرتے تے کم ہیں اور ان کی گولیوں سے ہمارے جوان زیادہ مرتے ہیں۔ اگر یہ ونجارہ کا کمال تھا کہ دہشت گرد ان کے سامنے چوہے بن جاتے تھے تو نریندر مودی نے انہیں جیل میں کیوں ڈلوایا؟انھیں سرحد کا انتظام سپرد کیا ہوتا تاکہ ہر دہشت گرد انہیں دیکھ کر ہتھیار ڈال دیتا اور موت کو گلے لگا لیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاش جسٹس کاٹجو نے یہ بات اس وقت کہی ہوتی جب صرف گودھرا کے علماء اور معزز مسلمانوں کو 56کارسیوکوں کو بوگی جلا کر مارنے کے الزام میں نہ صرف اندھادھند گرفتار کیا بلکہ ٹاڈا بھی لگایا کہ ضمانت بھی نہ ہوسکے اور عدالتیں مودی کی ڈگڈگی پر ناچتی رہیں اور بے گناہ جانتے ہوئے بھی ان پر ۳۰۲/۱۲۰ اور ٹاڈا لگاتی رہیں اور برسوں کے بعد انھیں چھوڑنا بھی پڑا اگر اس وقت کہا ہوتا تو سیکڑوں مسلمان مودی کے عذاب اور نفرت کا شکار ہونے سے یا تو بچ جاتے یا ان پر ہونے والے عذاب میں کچھ کمی ہوجاتی۔ ہم جسٹس کاٹجو کی نیت پر تو شک نہیں کرتے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ۱۴ برس کے بعد اپنے احساس کے اظہار سے اس کے علاوہ اور کیا فائدہ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم کش فسادات کی تاریخ لکھنے والے کو ایک سند مل گئی کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ کے ایک جج نے بھی کہا ہے کہ صرف گجرات کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے دہشت زدہ کرنے کے لیے پہلے ہندو کارسیوکوں کو جلا کر مارااور پھر ۲ ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو ا بدی نیند سلادیا اور جو صاحب حیثیت تھے انھیں بے اثر کردیا تاکہ وہ کبھی سر نہ اٹھا سکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply