جمعیت میری محسن۔۔۔ محمد فیاض قرطبی

چھٹی کلاس میں داخلہ لیا تو ہر سال چھٹی سے میٹرک تک اسکول کے باہر بکس اسٹال لگتا اور وہاں ایک سوالنامہ تقسیم کیا جاتا جس میں ان کتب میں سے معلومات عامہ کے سوال کئے جاتے اور درست جواب لکھنے والوں کو انعام ملتا۔ بارہا یہ انعام ہم نے جیتے اور اسطرح کتب بینی کا شوق پیدا ہوگیا۔ یہ اسٹال لگانے والے کون تھے کیوں یہ اسٹال لگاتے تھے اس کا اتنا شعور نہی تھا

جب اسکول سے کالج کا سفر شروع ہوا تو وہاں بھی اسٹال لگے دیکھا اور تعارف ہوا تومعلوم ہوا کہ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان ہیں جو طلبہ کی راہنمائی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اٹھتے بھیٹھے مطالعہ کے شوق کو مزید مہمیز ملی اور ان کے انعقاد کردہ اسٹڈی سرکل میں شامل ہوا تو کتاب کو مطالعہ کرنے اور اسکے مندرجات کو سمجھنے کا موقع ملا ،

میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھر سے تھا والدین کی اپنی تعلیم پرائمری تک تھی۔ گھر کا ماحول بھی روایتی چھوٹے قصبہ والا ہی تھا اسلئے اسکول لائف کے دوران اور کالج کے ابتدائی دنوں میں میں کم گو اور لوگوں سے میل میلاپ کم رکھتا تھا جسکی وجہ شاید خود اعتمادی کی کمی ہونا تھا۔ جمعیت کے نوجوانوں سے دوستی ہوئی تو ان کی صبحت کا یہ اثر ہوا کہ اب لوگوں سے پراعتماد ہو کر ملنا اور اپنا مدعا بیان کرنا آگیا۔ پروگرامات کے سلسلہ میں اسلامی یونیورسٹی اور جامعہ پنجاب دیکھنے اور وہاں کے سیئنر طلبا سے ملنے کا موقع ملا اور جمعیت کی ورکشاپس /تربیت گاہوں میں آنے والی علمی شخصیات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا اور اسلام کو شعوری طور پر سمجھنے کا موقع ملا۔ مغربی تہذیب کیا ہے اور اسلامی تہذیب سے کیسے مختلف، اسلامی تہذیب کے کیا محاسن ہیں اور مغربی تہذیب  میں کیا خامیاں ہیں، اس کا ادارک بھی جب ہی ہوا۔

آج جب میں یورپ میں ایک کامیاب کاروباری ہوں تو عملی زندگی میں جمعیت کی تربیت بہت کام آرہی ہے۔ کئی بار احساس ہوا کہ اگر دور طالبعلمی میں جمعیت سے وابستہ نہ ہواہوتا تو عملی زندگی میں اس مقام  کو ہرگز نہ پہنچ پاتا۔ جمعیت کے نوجوانوں کا شکریہ مجھ پر واجب ہے کہ ان کا قرض ہے میری زندگی پر۔ انکی بدولت زندگی کا شعور ملا، خود اعتمادی ملی، سینکڑوں مخلص دوست ملے۔ یہ تو تصویر کا وہ رخ ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا سو یہ تو میری آپ بیتی ہے، اسلئے اگر کوئی میرے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ کے باکردار نوجوانوں کے کردار اور ان کی سرگرمیوں کے خلاف کچھ کہے تو میں اس سراسر جھوٹ سمجھتا ہوں بہتان سمجھتا ہوں۔

ایک معاصر سائیٹ پر اسلامی جمیعت طلبہ کے خلاف مسلسل مضامین لگائے گئے۔ میں تو گواہی کے طور پر خود کو پیش کرتا ہوں کہ جمیعت سے وابستگی نے میری زندگی پر کیا اچھے اثرات ڈالے۔ کیا تنقید کرنے والے بتائیں گے کہ جن طلبہ سیاسی جماعتوں سے وہ وابستہ تھے، سماج یا خود انکی ذات پر ہی سہی، کیا فرق ڈال سکیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ادارے کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply