تماش بین ۔۔۔ معاذ بن محمود

لڑکپن سے سنتے آئے ہیں محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت ہر دوسرے عاشق اور جنگجو کی خباثت کا جواز یہ فقرہ یقیناً نہ کسی صلاح الدین ایوبی کا ہوگا اور نہ ہی کسی ہیر، لیلی یا فرہاد کا۔ پتھر کھاتا عاشق پہلے ہی مجبور ہے سو ناجائز کام کرنے کا حوصلہ نہیں۔ گھر بار بیوی بچے چھوڑ کر دوسروں کی بیویوں کو بیوہ بچوں کو یتیم بنانے کو جائز قرار دینے کا دعوی پہلی بار یقیناً کوئی فوجی یا جنگجو نہیں کر سکتا۔ یہ فقرہ یقیناً کسی ایسے انسان کی ذہنی اختراع ہوگا جس کے لیے یہ سب ذہنی سکون کا باعث ہو۔ ظلم، جبر اور زیادتی کا یہ جواز گھڑنے والا یہ شخص یقیناً کوئی تماش بین ہوگا۔

انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں یہ حقیقت بھی ہے یا نہیں مگر پھر بھی اس مبینہ حقیقت کو پیدائش کے بعد ہر ہر لمحے غلط ثابت کیا جاتا ہے۔ نومولود کا مذہب کیا ہوگا، کپڑے کیا پہنے گا، تعلیم کیا حاصل کرے گا، زبان کیا بولے گا یہ سب دوسروں کے فیصلے ہوا کرتے ہیں۔ یہی وہ دوسرے ہوتے ہیں جو بس کے کسی کنڈکٹر مرد کو یا حالات سے مجبور کسی عورت کو جسم بیچ دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آزادی ایسے میں ایک حقارت بھرا طنز بن کر رہ جاتی ہے۔ ایک قید جس کی اذیت قیدی سہہ سکتا ہے۔ اور اس قیدی کی تکلیف سے اذیت کون اٹھاتا ہے؟ تماش بین۔ صرف تماش بین۔

میڈیا پر روزانہ رات کو ایک تماشہ چلتا ہے۔ سیاستدان، فلمی ستاروں، کھلاڑیوں الغرض مختلف انسانوں کو بلا کر انہیں کتوں کی طرح اختلاف رائے کے نام پر لڑوایا جاتا ہے۔ منفی رویوں کی جہنم میں جلتے یہ ایندھن روزانہ رات کو باقاعدگی کے ساتھ قوم کی رگوں میں نفرت اتارتے ہیں۔ یقیناً کوئی انسان یہ نفرت دل سے پھیلانا نہیں چاہتا ہوگا۔ پھر بھی اتارتے ہیں۔ کیوں؟ تسکین کی خاطر۔ اور یہ تسکین پہنچتی کسے ہے؟ تماش بین کو۔

کم عمری کہہ لیں، بیوقوفی یا کچھ بھی۔ آج تک جو بت بنایا الو کا پٹھہ ہی نکلا۔ کوئی انسان آزاد نہیں۔ کوئی ٹھرک کا غلام کوئی دولت کا غلام کوئی نظریے کا غلام۔ اور جو آزادی کے نام پر بغاوت کا اظہار کر ڈالے اسے سب مل کر غلام بنانے میں جت جاتے ہیں۔ ایسے باغی کی آزاد طبیعت کو سب مل کر پٹہ ڈالتے ہیں اور پھر اسے سوچ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ ان باغیوں کی سوچ پر پتھر مارے جاتے ہیں۔ یہ اجتماعی طور پر سنگسار کیے جاتے ہیں۔ اور اس سب کھیل کا مزا کون لیتا ہے؟ تماش بین۔

مظلوم ظلم کا فسانہ بیان کرتا ہے۔ تماش بین اسے پڑھ کر ٹسوے بہاتا ہے۔ ظالم ظلم کو ایک شان کے ساتھ فخریہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ واہ واہ کون کرتا ہے؟ تماش بین۔ ایک سرکس ہے جس میں سب کا ایک رول ہے۔ کوئی موت کے منہ میں گاڑی چلا کر زندگی خطرے میں ڈال رہا ہے تو کوئی بھوکے شیروں سے کھیل رہا ہے۔ یہ سب کس لیے ہو رہا ہے؟ تماش بینوں کو خوش کرنے کے لیے۔

واقعی، دنیا فقط تماشہ ہے ان کے آگے۔ یہ اخلاق کا تماشہ دیکھتے ہیں، جذبات کا تماشہ دیکھتے ہیں، حالات کا تماشہ دیکھتے ہیں، اجسام کا تماشہ دیکھتے ہیں، اغلاط کا تماشہ دیکھتے ہیں، اوصاف کا تماشہ دیکھتے ہیں، اولاد کا تماشہ دیکھتے ہیں، افکار کا تماشہ دیکھتے ہیں۔

یہ اس قدر بے حس ہیں کہ انسان ہو کر بھی انسان کا تماشہ دیکھتے ہیں۔

اور میں روز انہیں دیکھ کر اپنا دل جلاتا ہوں۔

کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کیونکہ میں خود بھی کسی کے کھیل کا تماش بین ہوں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply