• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریاست اور پی ٹی ایم، جہاں چاہ نہیں، وہاں راہ نہیں۔۔۔۔۔۔عبدالمجید داوڑ

ریاست اور پی ٹی ایم، جہاں چاہ نہیں، وہاں راہ نہیں۔۔۔۔۔۔عبدالمجید داوڑ

انگریزی ضرب المثل ہے where there’s a will there’s a way، یعنی جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ ہوتی ہے۔ PTM اور ریاستی ادارے دونوں “بظاہر” مسئلے کے حل کی “چاہ” کے دعویدار ہیں مگر وجہ کیا ہے کہ سال بعد بھی انہیں مسئلے کے حل کی “راہ” نہیں مل رہی؟ اگر مگر اور الفاظ چبائے بغیر دونوں طرفین کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ دونوں کو مسئلے کے حل کی سرے سے “خواہش” ہی نہیں، اسی لئے دونوں کو کوئی “راہ” بھی نہیں مل رہی۔ دونوں کو اپنے وکیل کی تقریرسے غرض ہے مقدمے کے حل سے نہیں، چنانچہ دونوں طرف وکلاء صرف اور صرف ایک دوسرے کو اپنے اپنے سپورٹرز کے سامنے “زیر” کرکے واہ واہ، زندہ باد مردہ باد، لائیکس، کمنٹس، مشر، مبارز اورعجیب وغریب خطابات و القابات جبکہ دوسری طرف والے وکلاء افسران بالا کے سامنے نمبر، گریڈ اور تمغے بٹورنا چاہتے ہیں، دونوں طرف کا attitude انتہائی non-serious اورapproach انتہائی materialist ہے۔

سرد مہر جائزہ یہ ہے کہ جس PTM کے مطالبات نے آئین کے runway سے takeoff کیا تھا وہ متنازعہ نعروں کی صورت جغرافیائی حدود پارکرگئے ہیں، انکی قیادت لائیو آکر یا ٹویٹ کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ بیٹھتی ہے اور پھر لڑکے اس ٹویٹ کو ٹاپ پرلانے کیلئے ٹرینڈ چلاتے ہیں۔ اگرچہ انکی قیادت کے سامنے اس سائیکل کا فل سٹاپ واضح نہیں، نہ ہی شاید اس طرف دھیان ہو تاہم انکے نزدیک پشتون مسائل کا حل انکے اس “مبارزة” نامی آلہ دین کے چراغ کو رگڑتے رہنے میں ہے جس سے مسائل “خود بخود” حل ہوجائینگے۔ پشتون امیدوں سے یہ کھلواڑ انکی نالائقی اور مسئلے کے حل کی “چاہ” کا انکی ترجیحات میں شامل نہ ہونے کا عکاس ہے۔

دوسری طرف “ماں” کی دعویدار ایک دیوہیکل ریاست ہے جسکا آئین ہے، ادارے ہیں، ایک خطہ اسکے نقشے میں بند ہے مگر ماں کی حالت دیکھیں، وہ اپنے بچوں ان لڑکوں کے ٹویٹر ٹرینڈ کے جواب میں ٹرینڈ چلاتی ہے، فیس بک کے لائیو بیان کے بدلے پریس کانفرنس کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر ماں کی حالت پر رحم تب آتا ہے جب بندوبستی علاقوں میں پڑے ان غیرمسلح لڑکوں کے جذباتی دھمکیوں کا جواب جدید وسائل سے لیس “ماں” پریس کانفرنس دھمکیوں کی صورت دیتی ہے۔ ریاست کا ناراض شہریوں کو اتنے بھونڈے اورمضحکہ خیز انداز سے mishandle کرنا اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ریاستی اداروں میں بیٹھے مختیاران یا تو انتہا درجے کے نالائق و نااہل ہیں اور یا پھر شہریوں کے مسائل حل کرنا انکی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں۔

ایک دردناک ناامیدی ہے، ریاستی ادارے کہتے ہیں ہم آپکے مسائل حل کرنے کو تیار ہیں مگر”پہلے آپ لاپتہ افراد کی لسٹ ہمیں پکڑائیں، دیگر مسائل کے اعداد شمار ہمیں دیں پھر ان پر بیٹھ کر “مذاکرات” کرتے ہیں”۔ یہ ایک لمحے کو نہیں سوچتے کہ دنیا کی کونسی ریاست، کونسا آئین شہری مسائل پر اپنے ہی شہریوں سے مذاکرات کرتا ہے؟ کاش کسی دن یہ “وار بک” کی جگہ آئین پڑھنے کی زحمت کرلیں جو کہتا ہے کہ اگر مقتول شہری کا قاتل معلوم نہیں تو مقدمہ ریاست کے خلاف درج ہوگا، مگر یہاں قاتل مقتول تو کیا سالم شہری غائب ہے۔ ۔ ۔ کاش یہ اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آپکے ہوتے ہوئے ایک شہری کیوں غائب ہے؟ اگر غائب ہے تو آپکو معلوم کیوں نہیں؟ اسکو ڈھونڈتے کیوں نہیں؟ اگر آپ نے کسی الزام کی پاداش میں غائب کیا ہے تو مجرم ثابت کرنے اور سزا دلوانے آئین کے سامنے پیش کیوں نہیں کرتے؟ الٹا آپ شہریوں سے لسٹ مانگتے ہیں؟ مزاکرات کی بات کرتے ہیں؟ کیا یہ ان شہداء کے خون کے ساتھ مذاق نہیں جنہوں نے اس وطن کے نقشے میں اپنے خون سے رنگ بھرا تھا؟

بہرحال، جو بھی ہے جیسا بھی ہے ہم مذاکرات تو کیا مناظرے، جرگے اور ہر اس حل کے حق میں ہیں جس سے عام شہری کو ریلیف ملے۔ مگرسیانے کہتے ہیں کہ ریاستی اداروں نے “مذاکرات کی  آفر” کی صورت اب PTM کی کمزوری پکڑ لی ہے، کیونکہ PTM کی قیادت لفظ “مذاکرات” سے نہ صرف اپنی نالائقی کی وجہ سے “بدک” رہی ہے بلکہ ریاستی ادارے اس Offer سے عوام کے سامنے اخلاقی طور پربھی بلند سطح پرآرہے ہیں۔ سیانے یہاں تک کہتے ہیں کہ PTM قیادت کا مزاکرات کی Offer سے بدکنا اس لئے فطری ہے کہ انہیں خوف ہے کہ اگر ہمارے اٹھائے گئے مطالبات حل کردیے جاتے ہیں تو ہم مبارزہ نامی سیاست کیسے کرینگے؟ ۔ ۔ ۔ ورنہ یہ تو ایک بچہ بھی سمجھتا ہے کہ بجائے اسکے کہ کسی دور پار علاقے کا فوجی یا سول افسر مسئلہ اپنے ذہن کے مطابق حل کرے، اس سے کئی گنا اچھا یہ ہوگا کہ مسئلہ PTM کے مقامی لڑکوں کے پیش کردہ حل کے مطابق مکمل ہو۔ ۔ مگر وہی نااہلی اور چاہ کی کمی۔

آپ دونوں اگر اپنی نیتوں اور دلوں کی تلاشی لیں تو آپ پر واضح ہوگا کہ آپ دونوں کی سوچ اور رویے میں صرف “بوٹ” کا فرق ہے۔ یقین نہیں تو تھوڑی دیر کیلئے آپ دونوں واہ واہ اور تالیوں کے شور سے نکل آئیں اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوں تو آپکو اپنے وجود پر قول وفعل کے تضاد کے بدنما داغ نظر آئینگے، سوچ اور روئے اور قول و فعل کے تضاد کے ان داغوں کی وجہ سے آپکی چاہ کو مسائل کے حل کی راہ نہیں مل پارہی۔ کیا آپ دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہے کہ جو بات مسائل کے حل کے مطالبات سے شروع ہوئی تھی اب ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کشتی پر کیوں منتج ہوتی جارہی ہے؟ آپ دونوں نے “حل مانگ کر” اور “حل دے کر” Locally مسئلہ حل کرکے ریاست اور شہری کو فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ ایک “کشتی” کی صورت پاکستان دشمن کیمروں کو راہ فراہم کی جو اس مسئلے کرglobally اچھال کر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آپ admit کریں نہ کریں مگر یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ تزوریراتی طور پر آپ دونوں بند گلی میں داخل ہوکر ملک اور شہری دونوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، آپ دونوں کا رویہ اس خطے کیلئے مسئلے کا حل نہیں مسئلے کا حصہ بنتا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا خدارا، God Complex کے خبط سے نکل آئیں،آپ دونوں مختیاران ہیں، ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ایک حل دے اور دوسرا اسکو حل کردے، اس میں مشکل کیا ہے؟ آپ چاہیں تو راہیں متعین کرسکتے ہیں، آپ چاہیں تو ان برباد قافلوں کی آہوں کو چاہتوں کی راہیں دے کر دعائیں سمیٹ سکتے ہیں ورنہ 16 سالہ جنگوں کی آہوں کا یہ لاوا آج نہیں تو کل کسی دوسرے PTM کی صورت کوئی آتش فشاں ڈھونڈ لے گا ۔ ۔ ۔ اس لاوے کو نکلنے کی چاہ ہے، اس کا نکلنا فطری ہے، اسکو ٹھنڈا کرنے کیلئے راہ دیں، ورنہ اس دفعہ لاوا رستہ خود ڈھونڈے گا ۔ ۔ ۔ پر شاید اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی !!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply