پیر نانگے شاہ ۔۔۔۔ رضا شاہ جیلانی

افسانہ

ہمارے سماج میں حکمت کا علم اب معدوم پڑ چکا ہے خصوصاً پاکستان کی سوسائٹی جہاں حکمت کے جواہر ایسے انداز میں دیواروں پر لکھے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات آنکھوں پر ہاتھ رکھنے کے ساتھ دماغ کے پردے پر بھی مضبوط پردہ ڈالنا پڑ جاتا ہے کہ کہیں لکھا ہوا خیالات میں گردش نا کر جائے. ہم اگر اپنے روز مرّہ کے معاملات میں مستقل واک کرنے کے ساتھ کچھ ہلکی پھلکی ورزش کو شامل کر لیں تو یقین جانیے کہ ہم اپنی صحت کو مکمل نہیں تو کچھ درست رکھ ہی سکتے ہیں میرا ماننا تو یہ ہے کہ مرنا تو ہم سب کو ایک نا ایک دن ہے ہی تو بندہ عزت کے ساتھ چلتا پھرتا کیوں نا مرے.. بھلا یہ بھی کوئی مرنا ہوا کہ بندہ موٹاپے کا شکار ہو کر دس بیماریوں کے ساتھ بستر کو لگ کر مرے. ہمارے معاشرے میں ایسی ہی کچھ بیماریاں ہیں جو کہ بیماری کم ہوتی ہیں مگر کسی نا کسی کے کہے میں آکر انہیں ہم اپنے دماغ پر اتنا سوار کر لیتے ہیں کہ وہ ہمیں کسی دشمن کی جانب سے کیا جانے والا جادو، بد عمل یا کسی غیر مرئی قوت کا کھیل لگنے لگتا ہے اور چڑھ جاتے ہیں کسی نیم حکیم یا پیر بابے کے ہتھے جو رہی سہی کسر بھی ہمیں زمین سے چھ فٹ نیچے بھیج کر پوری کر دیتا ہے.

ایسا ہی ایک معاملہ میرے ساتھ بھی درپیش ہوا.. ہوا کچھ یوں کے ہمارے ایک سینئر وکیل ہیں انہوں نے مجھے کافی پریشان کر رکھا تھا جب بھی ملاقات ہوتی تو فرمانے لگتے شاہ جی دعا کر دیں، کچھ دم کر کے پھونک دیں، کوئی نسخہ کوئی تعویز دے دیں، میری شوگر کنٹرول نہیں رہتی، کافی کمزور ہوگیا ہوں اور بدہضمی اتنی ہے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ لوگ تو کہتے ہیں دشمنوں نے مجھ پر کالا جادو کروا دیا ہے۔ آپ کسی تعویز یا عمل کا بتا دیں تا کہ میں بہتر ہو جاؤں. ہر بار مجھ سے مل کر یہ ہی پریشانی بیان فرماتے سو میں بھی کہہ دیتا اللہ خیر کرے گا. پر ایک دن تو حد ہی ہو گئی، سرِ شام وہ اپنا گنجا برہنہ سر لیئے بغیر کسی لحاظ کے میرے دروازے پر آن وارد ہوئے. ہم نے بھی چائے سے تواضع کی اور چائے دیتے وقت احتیاطً پوچھ لیا کہ صاحب چینی تو نہیں لیں گے نا… موصوف لگے ناگواری سے اپنے بے بال برہنہ سر پر ہاتھ پھیرنے اور دکھ بھرے انداز میں کہنے لگے کہ شاہ جی ذیابطیس کا مریض ہوں، اب تو چینی کو دیکھوں تو بھی شوگر بڑھ جاتی ہے اسی غرض سے آیا تھا کہ کوئی تعویز عنایت فرما دیں، کوئی دم درود، کوئی نسخہ، کوئی وظیفہ ہی دے دیں. بس جناب ہم نے بھی ٹھیک ٹھاک بہانے تلاشے بلکہ یہاں تک بھی کہہ ڈالا کہ خان صاحب میں وہ والا پیر نہیں ہوں، آپ مجھے منگل بدھ سے پہلے والا ہی پیر سمجھ لیں مگر موصوف تھے کہ مان کے ہی نا دیئے. اصرار پر اصرار کہ آپ کے دادا حضور کے کیئے گئے دم درود کا ڈنکا بجتا تھا، کچھ تو کرامت آپ میں بھی آئی ہوگی. اس ” کچھ ” کو بولتے ہوئے انہوں نے ہمیں بغور ایسے انداز سے گھورا کہ سچ پوچھیئے ایک جھرجھری سی جسم میں آ گئی. چائے ختم کرنے کے دوران سوچنے کا عمل بھی جاری رکھا کہ اس بندے سے مستقل جان کیسے چھڑائی جائے تاکہ یہ دوبارہ ہماری چوکھٹ نہ دیکھے. بس یہ ہی سوچ لیے ہم گھر کے اندر چلے گئے اور دماغ کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا. گھر کا ایک چکر کاٹا دوسرا کاٹا. کچھ دیر ٹی وی پر خواجہ اظہار کو راؤ انوار کے شکنجوں میں پھڑ پھڑاتے ہوئے دیکھتے ہوئے دیکھا. اس دوران بھی سوچتے ہی رہے اور اچانک ایک نتیجے پر پہنچ کر والد محترم کے کمرے کی راہ لی چپکے سے انکی دواؤں کے جار میں سے ایک پیکٹ (بد ہضمی کی دیسی پھکی) نکالا اور اسے کھول کر ایک کاغذ کی پڑیا میں لپیٹ دیا. اور جلدی جلدی فریش ہوکر بیٹھک کی جانب روانہ ہوئے. ہم نے وہ پڑیا خان صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کے اس ” سفوفِ بغدادیہ ” کی دو سے تین چٹکیاں شام میں آٹھ بجے کے قریب منہ میں رکھنی ہیں اور پھر فوراً سے آدھا گلاس پانی کا پی لیں. مگر ایک اور اہم بات وہ یہ کہ یہ جادوئی سفوف اثر تب ہی کرے گا جب آپ اپنے گھر سے عصر کی نماز پڑھ کے شہر سے باہر والے ” پیر نانگے شاہ ” کے مزار تک پیدل جائیں گے اور پیر صاحب کے مقبرے کی زیارت کر کے وہیں بڑے پیر صاحب کی مسجد میں نمازِ مغرب کی ادائیگی کریں گے اور یاد رہے کہ وہاں سے ایک سو ایک بار یاقوی پڑھ کر اٹھنا ہے اور تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب آنا ہے مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا، اگر ایک بار بھی پیچھے مڑ کے دیکھا یا کسی آواز پر بھی توجہ دی یا زرا دیر راستے میں رکے تو معاملہ گڑ بڑ ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ آپ اس جہانِ فانی سے بغیر اطلاع کے کُوچ بھی فرما سکتے ہیں کیونکہ اس عمل میں آپ کے ساتھ کچھ غیر مرئی قوتیں بھی شامل ہوں گی. میں اپنی طرف سے جو کچھ گھڑ سکتا تھا کہہ ڈالا مگر ان صاحب کا چہرہ دیکھنے قابل تھا، ایک رنگ آرہا تھا دوسرا جا رہا تھا مارے خوف سے انکی آواز تقریباً بند ہی ہو چکی تھی. وہ کانپتی ہوئی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ سکے. شاہ صاحب مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلے آپ جامنی کُرتا پہنے تھے اور اب سفید. میں سمجھ گیا تھاکہ موصوف پر لگا وار اب اپنا اثر دکھا رہا ہے. میں نے کہا وکیل صاحب یہ جو پڑیا آپکے ہاتھ میں ہے اس پر کئیے گئے عمل کی وجہ سے مجھے پہلے نماز اور پھر چھت پر جا کر ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر وظیفہ پڑھنا پڑا جو صرف سفید کپڑے کو زیب تن کر کے ہی کیا جاسکتا تھا. آسمان پر گزرنے والی غیر مرئی مخلوق جنہیں آپ جنات کہہ سکتے ہیں کو سفید رنگ اپنی جانب کھینچتا ہے. جس کے بعد وہ فوراً زمین پر آکر وظیفہ پڑھنے والے سے عمل کروانے والے کا نام پتہ پوچھتے ہیں اور پھر اس شخص کے گھر پہنچنے سے قبل ہی اس کی نگرانی شروع کر دیتے ہیں کہ آیا وہ وظیفے پر عمل کر بھی رہا ہے یا نہیں.

وکیل صاحب اب صوفے پر تقریباً پشت کو لگا کر آدھے لیٹے آدھے بیٹھے کی سی کیفیت میں آگئے اور منحنی سی آواز میں بڑبڑانے لگے کہ ” ہائے انسولین ہی لگا لیتا، یہاں آنے کی کیا پڑی تھی۔” بڑی مشکل سے موصوف اٹھے مصافحہ فرمایا اور جاتے جاتے کہنے لگے کہ شاہ جی اگر میں کسی دن یہ عمل نا کر سکا تو. میں نے انہیں دیکھے بغیر ہی جواب دیا کہ ” آپ کی مرضی ہے صاحب یا تو آتے نہیں اب آگئے ہیں تو بلاناغہ چالیس روز یہ عمل کر لیں ورنہ.. ورنہ کیا شاہ جی.. ورنہ یہ کہ برکت باورچی کے ہاں سے جاتے وقت چالیس روز بعد اپنے چالیسویں کا مینیو طے کرتے جائیے گا.

اتنا کہہ کر میں نے جب سر اٹھایا تو وکیل صاحب کا کہیں اتا پتہ نہ تھا. جلدی سے دروازے کا پٹ ہٹا کے دیکھا تو دور ایک شخص تیز تیز قدم اٹھائے تقریباً بھاگتا ہوا جا رہا تھا. غالباً وکیل صاحب ہی تھے… خیر بات آئی گئی ہو گئی اور ہم بھی ہنستے ہوئے گھر کے اندر چلے گئے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی کل ہی وہ وکیل صاحب اپنے ایک دوست کے ہمراہ ہم سے کورٹ میں ملے کافی ہشاش بشاش لگ رہے تھے. ہمیں گلے لگاتے ہوئے کہنے لگے واہ مرشد واہ آپکی اس پڑیا نے تو ہمیں پھر سے زندگی دے دی. ہم بھی حیران تھے کے واقعی اس موٹے تگڑے وکیل کو کیا ہوا. کہنے لگے کے شاہ جی آپ کے بتائے ہوئے وظیفے ہر خوب عمل کیا بس اب دوا ختم ہو گئی ہے مگر پیر ” نانگے شاہ ” کے مزار تک روز جاتا ہوں اور دستگیر بادشاہ کی مسجد میں نماز پڑھ کے وہ جنات والا عمل کرتا ہوں اور اسکے بعد پیچھے دیکھے بنا سر پٹ دوڑتا ہوا گھر کو آتا ہوں. اب میری صحت دیکھیں بلکل ٹھیک ہے۔ شوگر تقریباً نارمل ہو گئی ہے۔ ڈاکٹرز بھی حیران ہیں کہ یہ ایک ہی ماہ میں کیا ماجرا ہو گیا. شاہ صاحب میری جانب سے اپنے جنات دوستوں کو مہربانی کہیے گا اور بس اتنا پوچھ دیں کہ کیا یہ عمل میں آگے بھی جاری رکھوں یا بس اب ختم کر دوں. اور دوسری عرض یہ ہے کہ یہ میرا سالا ہے ان کا کچھ گھریلو مسئلہ ہے اگر مناسب سمجھیں تو زرا سائیڈ میں چلتے ہیں انکے لیے بھی کوئی تعویز کوئی وظیفہ…….!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیر نانگے شاہ ۔۔۔۔ رضا شاہ جیلانی

  1. اعلی شاہ جی …..خوب بھت کمال تحریر …….ھم بھی کافی دنوں سے خود کو ذرا بيمار محسوس کر رھے تھے مگر پھر آپ کى تحریر نے ھشاش بشاش کردیا …..بس جو تھوڑی بھت کمزوری محسوس ھورھى ھےاگر ذرا تھوڑا سا سفوف بغدادى عنایت فرمائیں تو وہ بھی رفع ھو جاوے گی ….ھاھاھا…….دم وغیرہ وتس ايپ کے ذریعے کر ديجے گا …..ايک درباربھى ميرى نظرمين ھے….

Leave a Reply