میری ہند یاترا( باب نمبر:2 )- جالندھر اور چندی گڑھ/سلمیٰ اعوان

 ۱۔ “حویلی” جالندھر شہر کا وہ ثقافتی لینڈ مارک ہے کہ جس کے اندر جانے اور اُسے دیکھنے سے پورے پُوربی پنجاب کا کلچر سامنے آجاتا ہے۔
۲۔ راک گارڈن کے پستہ قامت دروازوں کا سلسلہ دراصل نک چند کا انسان کو حلیمی ،عاجزی اور انکساری کا درس دینے کی ایک شعوری کاوش ہے۔

julia rana solicitors

یہ میری ہندوستان کیلئے دوسری یا ترا تھی ۔ ورلڈ پنجابی کانگریس کا انیس 19رُکنی وفد فخر زما ن کی زیر صدارت واہگہ کے راستے ایک بار پھر بھارت کیلئے روانہ ہورہا تھا۔ اِس بار سیما پیروز اور رخشندہ نوید ہمراہ تھیں۔ثروت محی الدین تھی۔
اِس دفعہ میں نے کوئی ستّر بہتّر بار واہگہ کو جانے والی سڑک اُسپر بنی عمارتوں، راستے کی دُھول مٹی کا مشاہدہ ایک پاکستانی کی آنکھ سے نہیں بلکہ ہندوستان سے آنے والی آنکھ سے کیا ۔مجھے واہگہ پر دھول اُڑاتے راستوں ،پھل ،سبزی فروش پٹری واسوں اور چنگڑوں جیسے حُلیے والے دوکانداروں نے کوفت زدہ کیا۔
میرے کلیجے سے ہوک سی اٹھی پتہ نہیں اندر کیوں چاہتا تھا؟ ہر چیز لش لش لشکارے مارتی ہو ۔ صفائی ستھرائی کا وہ عالم ہو جو یو رپ جیسے ملکوں میں ہوتا ہے۔ تقابلی جائزے میں پیچھے رہ جانا بڑی سبکی اور شرمندگی والی بات لگتی ہے۔ پر منظر تو مایوس کن ہی تھے۔
سب مراحل سے گزرتے ہوئے اٹاری بارڈر پر آئے تو ڈاکٹر رویندر کو اور چندی گڑھ کے میزبانوں نے استقبال کیا۔ پیجارو ٹائپ گاڑیوں سے باہر تانکا جھانکی ضرور تھی پر
وہ پہلے جیسا تجسس اور اسرار نہیں تھا۔ جالندھر کے قریب اسکے مشہور ریستوران ‘‘حویلی ’’ میں کھانا کھانا خوبصورت اور دلچسپ تجربہ تھا۔
میری ناقص رائے میں”حویلی “جالندھر شہر کا وہ ثقافتی لینڈ مارک ہے کہ جسکے اندر جانے اور اُسے دیکھنے سے پورے پنجاب کا کلچر سامنے آجاتا ہے۔ سیالکوٹی اینٹوں سے بنی اس عمارت کے دروازوں پر کھڑے دربان پنجابی ثقافت کے نمائندے تھے۔دروازے سے ہی کلچر اپنی دھنک رنگ رعنائیوں سے سامنے آتا ہے۔ایک طرف کہیں کنویں سے پانی نکالا جارہاہے۔کہیں رنگ رنگیلے ٹرک میں بیٹھا سکھ ڈرائیور اُسے چلا رہا ہے۔ حسین چہروں والی دو شیزائیں ُپھلکاریاں کاڑھ رہی ہیں۔کہیں کیکلی ڈل رہی ہے اور میرے جیسی یکدم اپنے ماضی میں جا کھڑی ہوتی ہے۔ جہاں وہ دائرے میں گھومتے ہوئے اونچے اونچے گاتی تھی۔ کیکلی کلیر دی
پگ میرے ویر دی
شیشہ میری پابھودا
فٹے منہ جنوائی دا
کہیں روٹیاں تنور میں لگائی جارہی ہیں۔کہیں چاٹی مدانی سے مکھن نکل رہا ہے۔ چھابوں ،چھنیوں،کٹوریوں اور ہاتھ بھر لمبے گلاسوں میں لسّی۔ واقعی پنجاب کتنا رنگین ہے؟ مجھے اپنے پنجاب پر افسوس ہو رہا تھا ۔ ہم نے اپنی روایات اور کلچر سے بہت د‘وری کرلی ہے۔ وہ گدّے ،وہ بھنگڑے ،وہ لڈیاں جو میں نے اپنے بچپن میں گاؤں میں دیکھی تھیں۔اب مجھے وہ سب رنگینیاں گاؤں جانے پر نظر نہیں آتی ہیں۔ مذہب کی انتہا پسندی نے اسے ہندو کلچر کہتے ہوئے صدیوں پرانی روایات کو ٹھوکر مار دی ہے۔
میوزیم کا نام رنگلا پنجاب رکھا گیا ہے ۔تھوڑی سی تحقیق سے جا نکاری ہوئی کہ یہ
کسی انجینئر کا کارنامہ ہے۔ تو بھئی کیا خوبصورت کارنامہ ہے۔ ہمارے لاہور میں ایم ایم عالم روڈ پر” ولیج “میں بھی یہ سب کچھ تھوڑے بہت فرق سے نظر تو آتا ہے۔ مگر” حویلی” میں جو رنگوں کی برسات ہے و ہ اپنا ایک بھر پور تاثر چھوڑتی ہے۔
کھانا تھال میں دھری چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں پروسا گیا تھا۔ ثابت مسور ،چاول، اچار ،پنیر پالک ،دہی روٹی ۔ واہ خوب مزہ آیا ۔
‘‘ لیجیئے بھگواڑا آگیا۔’’
گاڑی میں اُبھرتی آواز نے بے اختیار ہی ہونٹوں کو مسکرانے پر مجبور کر دیا کہ کچھ یاد آیا تھا۔ کِسی انڈین چینل پر تھرکتا شور مچاتا ایک اشتہار جو بھگواڑہ کی بنی ہوئی ساڑھی سے متعلق تھا۔
سارے پنڈ وچ پہ گیا ساڑا (سارے گاؤں نے جلنا اور حسد کرنا شروع کر دیا جونہی میں نے بھگواڑہ کی ساڑھی پہنی)۔
ہمارا پہلا پڑاؤ چندی گڑھ کا تھا۔
چندی گڑھ انڈیا کے شمالی حصہ میں پنجاب کا کیپٹل سٹی، فرانسیسی ماہر تعمیرلی کو ربیوسرLe. Corbusierکا ڈیزائن کردہ شاہکارہے۔
ہریالیوں میں گھرا ،پھولوں میں ہنستا، اشجار میں سے مسکراتا ، انوکھی سی چھب دکھاتااور اپنے اسلام آباد جیسا تاثر دیتا۔ ایک خوبصورت شہر گل لالہ سے سجا پیشوائی کر رہا تھا۔ تھکن تو ساری اُڑنچھوہوگئی تھی۔ شوالک ویو ہوٹل شوالک پربت مالا جیسا حُسن لیئے ہوا تھا۔
خوبصور ت ٹی وی لاؤنج میں ہی بتا دیا گیاتھاکہ تیار ہوکر نیچے آنا ہے کہ دیوسماج کالج میں وفد کے اعزاز میں تقریب تھی۔
استقبالیہ بڑا رنگ رنگیلا سا تھا۔ ڈھول کی تھاپ تھی۔ دل کش اور من موہنی لڑکے لڑکیوں نے رنگوں کی برسات میں جو رقص کیا اُسنے مسحور کیا۔ کالج کے آڈیٹوریم کی سٹیج پر پنجاب کے وزیرتعلیم شری ہرنام داس، جوہر کالج کی پرنسپل مسز ڈھلوں اور پٹیالہ یونیورسٹی کے رجسٹرار پرم بخشیش سنگھ فخر زماں کے ساتھ بیٹھے خوب سج رہے تھے۔برقی روشنیوں میں نوخیز بچیاں بھی بڑی دلکش لگتی تھیں۔
وزیرتعلیم کی تقریر میں بڑا والہانہ پن تھا۔ اچھا لگا۔ اگر اچھا نہیں لگاتو اُس نوخیز بچی کا انداز گفتگو جو بڑے میٹھے لہجے میں سوال کرتی تھی کہ ایک کلچر،ایک جیسی رہتل اور ایک جیسی وسیب کے ہوتے ہوئے بھلا الگ ہونے کی کوئی ضرورت تھی۔کچھ اسی سے ملتا جلتا انداز وزیر تعلیم کے سکریٹری کا تھا۔ جو ہمیں بھارتی پنجاب کے اناج کا گھر ہونے کا مثردہ سُناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ویزہ کی پابندیاں نرم ہونی چاہیئں تاکہ جب اور جسوقت پاکستانی پنجاب کے لوگوں کا دل چاہے بے شک سائیکلوں پر امر تسر آئیں اور گندم کے توڑے اپنے کیئریئر پر رکھ کر لے جائیں۔
چھوٹی سی بچی کے منہ سے بڑی بڑی باتیں اور بڑے آدمی کے منہ سے چھوٹی چھوٹی باتیں تکلیف دہ تھیں۔جی تو چاہا اٹھ کر کہوں۔
‘‘خدا کیلئے بھگوان کیلئے غصے گلے جانے دیں۔ مان لیں ہمیں۔نصف صدی سے بھی کہیں زیادہ عمر ہوگئی ہے ہماری۔پر سچی بات کہنا کتنا جی جوکھوں کا کام ہے۔بندے کے نیچے یا گھوڑا ہویا مصلحتوں سے بے نیاز ہو۔یہاں دونوں میں سے کچھ بھی نہ تھا۔
میرے ساتھ بیٹھی سیما بڑبڑائی تھی۔
‘‘ پاکستانی تو ان کی گندم لے جائیں اور ہندوستانی لاہور سے کیا لے کر آئیں اسکا کہیں ذکر نہیں ہے ۔ہمیں اِس سستی گندم کی بجائے آسٹریلیا کی مہنگی گندم قبول ہے۔’’
میں نے ترچھی نظروں سے اُسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی۔
‘‘قبول ہے۔قبول ہے۔’’
افضال شاہد مرحوم کا ایک گیت ‘‘بوہے کھول دیو’’ جسے شوکت علی نے کمپوز کیا تھا۔ سُنوایا گیا۔
خدا کا شکر کہ اعزاز احمد آذر نے سٹیج پر آکر ہمارے اندر کے مچلتے جذبات کو زبان دی کہ سرحدیں تو اب بن گئی ہیں۔ سلامتی امن قائم کرنے اور اچھے ہمسائیوں جیسے تعلقات رکھنے میں ہے۔ اِسے مزید ٹھنڈک پرم بخشیش سنگھ کے بیان نے دی۔جنہوں نے پاکستان اور ہندوستان کو دو آزادمُملکتیں قرا ر دیتے ہوئے کہا کہ سرحدیں تو قائم رہیں گی کہ تقسیم کی دستاویزات پر گاندھی نہرو ،جناح اور لیاقت علی کے دستخط ہیں ۔ہاں تعلقات بہت اچھے ہونے چاہیئں۔
چلو شکر کوئی تو کلمہ حق بولا۔ کلچرل شو دیکھا اور واپسی ہوئی۔
میں بہت سویرے اُٹھنے کی عادی ہوں نماز سے فارغ ہوکر باہر نکل آئی۔چندی گڑھ اسلام آبا د سے بہت ملتا جلتا شہر ہے۔
نو بجے سے بارہ تک تقاریر اور تجاویز کی بھرمار سُنی۔دونوں ملکوں کی فوج اور بیوروکریسی ویزہ پالیسیاں نرم کرنے کی راہ میں حائل تھیں۔یقیناََ دونوں کے مفادات تھے۔ لُطف آیا ۔دونوں کے لتّے لیے گئے۔
فائدہ ؟میں نے خود سے پوچھا تھا ۔
شاید کبھی ہو۔اندر سے جواب آیا تھا۔
سیما اور میں راک گارڈن دیکھنے کے لئے مری جارہی تھیں۔جونہی لنچ سے فارغ
ہوئے اور سیر سپاٹے کے لئے گاڑی ملی بگٹٹ اس کی طرف بھا گے ۔
نک چندسینی کا عظیم الشان کارنامہ۔
1924ء میں پیدا ہونے اور ایک متوسط کسان برادری سے تعلقات رکھنے والے نک چند سینی جسنے اٹھارہ سال کی عمر میں میڑک کیا۔ جسکا گاؤں لاہور سے کو ئی چھپن میل پر بریاں کلاں تھا۔1947ء کی تقسیم میں نقل مکانی ہوئی اور جب شوالک سلسلہ ہائے کوہ کے دامن میں چندی گڑھ شہر بسانے کا فیصلہ ہوا ۔خوش قسمتی سے اُسے چندی گڑھ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں روڈ انسپکٹر کی نوکری مل گئی ۔سچ تو تھا کہ وہ شوالک کے پہاڑوں اور فطرت کی خوبصورتیوں سے سحر زدہ تھا۔
مر کزی دروازے پر رُک گئے تھے ۔ سنگِ مرمر کی تختی پر لکھے ہوئے کو پڑھنے کیلئے۔
اس عظیم کارنامے کا ۷جولائی 1988ء کو افتتاح ہوا تھا۔
ایک سادہ، عام سے انسان کا عظیم کارنامہ، ایک دیسی بندے کا تخلیقی شاہکار جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی ۔ پستہ قامت دروازوں کا ایک سلسلہ تھا۔ قدرے جھک کر ایلس ان ونڈرلینڈ کی طرح ایک نئی دنیا سامنے آتی تھی۔
یہ پستہ قامتی یقینا قصداََ اپنائی گئی تھی کہ انسان کو عاجزی انکساری اور حلیمی کا درس دینا بھی نک چند کا موٹو تھا کہ وہ بذات خود ایسا ہی ہے۔
ہر پل ایک نئی دنیا میں داخل ہوتے ہوئے میں سوچتی تھی کہ نک چند ایک خود ساختہ فنکار ہیں۔ ایک خیال پرست مصور جسنے اپنی تخلیقات کو روپ دیا ۔ ناکارہ اور دھتکاری ہوئی چیزوں سے مگر ضروری تفصیلات جن میں نفاست اور باریک بینی آتی ہیں انہیں اپنانے سے انکار کر دیا۔
سائیکلوں کے ناکارہ حصے ،ٹوٹی ہوئی چوڑیوں ،بلب ، ٹیوبیں،بوتلوں کے ڈھکن ،ٹوٹی پیالیوں ،ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن ،جلی ہوئی اینٹوں ،نایؤں کی دوکانوں کے باہر پھینکے ہوئے بال، اِس جگہ پر بنے گاؤں کو مسمار کرتے اور نئے خوبصورت شہر کی تعمیر کے دوران فالتوسامان سیمنٹ پتھر جنہیں وہ اپنی سائیکل پر جتنوں سے لادتا اور اِس خفیہ جگہ پر جو تب ایک جنگل تھی لاتا۔
اِس جگہ پر اُسکا آنا بھی ایک معجزہ ہی تھا۔کام کے دوران وہ کہیں اِس مضافاتی جگہ پر آنکلا تھا ۔ پرسکون درختوں اور سبزے سے گھری آبشاروں سے سجی نیلے چمکتے آسمان کی رعنائیوں بھری چھت سے ڈھنپی اُس جیسے مذہبی آدمی کو بھگوان ہی متحدد روپ میں نظر آیا تھا۔
ایک اور بات بھی تھی چندی گڑھ کی تعمیر نے اُن سب لوگوں کو جو یہاں کاشت کار تھے جو یہاں رہتے تھے اور جنہیں اِس نئے شہر کے تعمیری منصوبے نے بے گھر کر دیا تھا۔ انکے بین اور آہوں نے اُسے بھی متاثر کیا تھا۔ اُس نے خود بھی دربدری کا مزہ چکھا تھا۔ یہاں اُسے سکون ملا تھا۔
اب یوں ہوا ۔ وہ کام سے فارغ ہوتا ۔ سائیکل کے پیڈلوں سے کشتی کرتا یہاں آجاتا۔ناکارہ ٹا ئر جلاتا اور انکی روشنی میں کام کرتا رہتا حتیٰ کہ صبح ہوجاتی ۔ اُس کے لیے یہ کام ایک عبادت تھی اور یہ جگہ مقدس ترین ۔
آغازمیں یہاں اُس نے ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنائی جو ایک ندی کے کنارے تھی ۔نہ اُسے جنگل کے مچھروں کا ڈر نہ اُسے سانپوں کا کوئی خوف اور نہ اُسے جنگل کے بھیڑیے اور اژدھوں کا کوئی احساس ۔ وہ مجسمے بناتا جاتا ۔ اپنے تصور کی سرزمین سے نکال کر اُنہیں حقیقی دنیا میں لاتاجاتا۔جانوروں ،پرندوں اور انسانوں کے مجسمے۔ انکے چہروں پر
اپنے ذہن کے مطابق احساسات بکھیرتاجاتا ۔ ہر ایک دوسرے سے مختلف ،تاثرات میں منفرد ،قدرت کے عناصر ،تبدیلی کے نمائندہ ،پانی ،جانور ،پرندے سب اُسکے تخلیقی دوست تھے۔ایک جہان تخلیق ہورہا تھا۔ دنیا سے چوری چُھپے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ راز فاش ہوگیا ۔ گورنمنٹ کی ایک سروے ٹیم اتفاقیہ اِس طرف آنکلی ۔ٹیم کے افراد گنگ کھڑے اِس جہان فن کو دیکھتے تھے ۔ جسکی خوبصورتی اور حُسن نے انہیں سحر زدہ کر دیا تھا۔
کھوج کیا۔ پتہ چلا ایک سادہ سے ،ایک عاجز سے بندے کا یہ عظیم کام ہے۔ لوگ ششدر تھے۔
‘‘یہ غیر قانونی حرکت ہے۔گورنمنٹ کی زمین پر ناجائز طور پر قبضہ ہے۔ اِسے مسمار کر دینا چاہیے۔’’
درمیان میں شازشی اور حاسدی ٹولے بھی تو تھے۔گلے کی پُھولتی رگوں سے چلّاے تھے۔
تاہم بھگوان سے پیار کرنے والے، اُسے اپنے من میں بسانے والے کی مدد خود بھگوان نے کی کہ بیچ میں سے ہی اُسکے حامی لوگ پیدا کر دیئے جنہوں نے نہ صرف اُسے ہلاّ شیری دی بلکہ ہر سہولت بھی مہیا کی۔
لیبر کی آسانی اُسے دستیاب ہوئی تو وہ ایک بڑا مجسمہ تین چار دن میں مکمل کرنے لگا۔ حاسدی بیوروکریٹ ،سازشی وکلاء اُسے عدالت میں بھی گھسیٹ کر لے گئے ۔مگر وہ جیتا، اُسکا عزم جیتا ،اُسکی لگن جیتی اوراُسکی کا وشیں سرخرو ہوئیں۔اُ س نے دنیا کو بتا دیا کہ ناکارہ چیزیں کارآمد ہو سکتی ہیں۔ اور یہی اُسکا آرٹ ہے کہ اُسکا کہنا ہے کہ قدرت تو خود اِس پر عمل پیرا ہے تو اِنسان کیوں نہ ہو؟
جیسا کہ نک چند نے کہا ۔میں نے ہر وہ شے استعمال کی جسے لوگوں نے پھینک دیا تھا۔ دھاگہ اُدھڑے کپڑے جو کسی کے لیے کسی دلچسپی اور کام کے نہیں تھے۔ مگر وہ میرے لیئے تھے۔کپڑوں سے بنے یہ گدھے گھوڑے بہت مظبوط ہیں۔ آپ کو نیچے نہیں گرائیں گے۔
نک چند سے پہلی ملاقات میں مجھے محسوس ہو ا تھا کہ وہ اگر اپنے اندر کی وجدانی ، الہامی اور روحانی قوتوں اورجذبوں سے متاثر تھے تو وہیں ایسی سلطنت بھی کہیں اُنکے خوابوں میں تھی جسے اُنہوں نے ڈیزائن کیا۔
راک گارڈن تین فیزز میں منقسم ہے اور ہر فیز مختلف وقتوں میں مکمل ہوا۔ ہر فیز کا خاکہ اُنکے دماغ میں تھا۔اُنکے دل میں تھا۔ اُنکی رگ و پے میں اُترا ہوا تھا جسے انہوں نے جذبوں کی بلندیوں سے دیکھا۔مسرتوں اور حیرتوں کے حصار میں لے کر اُسکا احاطہ کیا۔
کچھ چیمبرز ایسے ہیں جن میں بادشاہ کی عدالت کے منظر ہیں۔ ملکہ کے محل کا کمپلیکس ہے ۔ موسیقاروں کیلئے انکے فن کی ادائیگی کیلئے خوبصورت جگہ ،کہیں نواب کا شادی بیاہ کی کِسی تقریب میں جانے کا اہتمام، اس کے ساتھ ساتھ دیہاتی زندگی کے منظر۔ کہیں کاشت کاری کرتے ،کہیں دودھ دھوتے ،کہیں جانوروں کا چارہ بناتے لوگ۔
یہ ایک دنیا تھی،دیوی دیوتاؤں کی۔ایک سلطنت ۔نک چند کا کہنا ہے۔ ‘‘آغاز میں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھاجو اس وقت میرے سامنے ہے۔یہ صرف میرے ہاتھ ہیں۔شاید میری چیزیں میری کھیتی باڑی اور میرے ماحول سے جڑی ہوئی ہیں۔میں ایک کسان تھا جوہل چلاتا ،بیج بوتاپھر اس میں پھول پھل نکلتے دیکھنے کا آرزو مند رہتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ میرے یہ شاہکار میرے ماحول کے عکاس ہیں،ان کے نمائندہ ہیں۔
‘‘میں چاہتا ہوں لوگ اپنی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ کریں اور انہیں محفوظ کرنا جاری رکھیں۔ حتیٰ کہ جب میں زندہ نہ ہوں کسی بھی موقع پر راک گارڈن مجھے زندہ رکھے گا۔
نک چند ایک ایسا پروڈیوسر نہیں جسنے آلات کو بیچنے کے لیے بنایا یا کسی مصر ف کیلئے تخلیق کیا۔ اُس کی زندگی اور تخلیق کا مقصد بہت روحانی تھا۔ وہ ایک سادہ لوح ، بہت مذہبی اور عاجز سا انسان ہے۔ اُسے اپنے آرٹ پر، اپنے فن پر بات کرنے کا تو کوئی شوق ہی نہیں نہ وقت، نہ شوق۔ وہ ابھی بھی اپنے کام میں مصروف ہے ۔اسّی سال کی عمر میں بھی۔
فیز اول اور دوم زیادہ تر بھُول بھلیو ں کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ پستہ قامت دروازے ایک کے بعد ایک نئی دنیا میں کھلتے اور آپ پر ایک نیا جہاں وا کرتے ہیں۔ یہاں کے کردار شوخ رنگوں سے جھلملاتے آراستہ پیراستہ بلند و بالا دیواروں میں گھرے چہروں پر مختلف تاثرات کی دنیا بکھیرے آپ کو داستانیں سناتے ملتے ہیں۔ایک سے دوسرے تنگ تنگ راستے ٹیڑھی میڑھی صورتوں میں پراسرار سے انداز میں خود مڑتے اور آپ کو موڑتے ،کبھی اُوپر چڑھاتے کبھی نیچے اُتارتے چلے جاتے ہیں۔یہی تنگنائیاں پھر آپکو ایک کشادہ جگہ لے جاتی ہیں جہاں ایک بڑی آبشار آپ کے ہونٹوں کو متحرک کرتے ہوئے کہتی ہے۔
‘‘ واہ’’۔
ایک فسوں ،ایک خوشگوار حیرت ،ایک اسرار ،ایک تجسس آپکی آنکھوں میں رقصاں آپکے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
شائقین کیلئے فیز سوم باغ کا سب سے زیادہ دلچسپ حصّہ ہے کہ اسمیں کوئی پچاس کے قریب دیو ہیکل قسم کی سیمنٹ کی بنی ہوئی محرابیں ہیں اور ہر محراب میں ایک بڑا فیملی سائز جھولا ہے۔ جسے دیکھتے ہی کیا بچے، کیا بوڑھے، کیاعورتیں اور کیا مرد سب بے چین و بے
تاب ہو اُٹھتے ہیں اور شاعر کے الفاظ میں‘‘ غزل اُسنے چھیڑی مجھے ساز دنیا ’’کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔
سکھنا جھیل پر ہم نے بڑا دلچسپ وقت گزارا۔ میں اور سیما بہت دیر اسکے پانیوں کو دیکھتے ،ناریل کا پانی ڈاب پیتے ،عورتوں اور لڑکیوں سے باتیں کرتی رہیں۔ عورتیں اور مرد جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اسکی سیاحت کیلئے آئے ہوئے تھے۔ نوجوان لڑکیاں جو دلّی کے کسی کالج سے ٹرپ پر آئی ہوئی تھیں۔
یہ انسانی ہاتھوں کا شاہکار تھی جو تین مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی چندی گڑھ کے شہریوں کیلئے ایک تحفے سے کم نہیں۔جس پر بدلتے موسموں میں پرندوں کی ڈاریں مختلف ملکوں اور علاقوں سے اُڈاریاں مارتے ہوئے آتی ہیں اور اس کے پانیوں پر اُترتی ہیں۔
‘‘ ہائے کیسا دل کش سماں ہوتا ہوگا؟’’
ہم ہلکے ہلکے ہلکورو ں میں بہتے پانی جسپر گرتی سورج کی دھوپ اِس پر چلتی کشتیاں ،اُن میں بیٹھے لوگ جنکے چہرے خوشیوں اور مسرتوں سے گلال ہوئے پڑتے تھے۔ چاندنی راتوں میں اسکا حُسن کیسا مدہوش کن ہوگا؟ میں نے سوچا۔
تصور میں اس کے کئی رُوپ آئے اور محظوظ ہوئی۔
اگلے دن شملہ جانے کا پروگرام تھا ۔ہماچل پردیش کا کیپیٹل ۔ مری کا بھائی کہہ لیجیئے ۔ سبھوں نے کہا تھا۔ مری جیسا ہی ہے۔ مگر راستہ بہت ٹیڑھا میڑھا ہے۔بہت بل دار ہے۔ پل پل کے زگ زیگ میں اُلجھا ہوا۔ بندہ پہاڑی راستوں کا عادی نہ ہو تو اُسکا حشر ہو جاتا ہے۔مگر صنوبر،دیودار اور چیڑ کے درختوں کے دامنو ں میں ایک ڈھلوانی ترتیب میں بکھرے دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کی رنگین چھتوں کے بکھرے رنگوں کی برسات نے سفر کی ساری کلفت کو دور کر دیا۔آنکھیں مسلسل انہیں دیکھتے اور گھورتے مسحور ہوتی رہیں۔
شملہ ایک اہم حوالے سے ہر پاکستانی کیلئے مانوس ہے۔ کہ پاکستانیوں کا محبوب لیڈر اپنے محصور فوجیوں کی رہائی کیلئے مسز گاندھی سے ملنے شملہ آیا تھا۔شملہ معاہدہ یہیں ہوا تھا۔
ہمالیہ کے جنوب مغربی سلسلے کی پہاڑیوں میں شملہ بھی استنبول، روم، لزبن ٹوکیو اور ماسکو کی طرح سات پہاڑیوں پر تعمیر ہوا ہے۔ ایک خوبصورت پہاڑی اسٹیشن جسکی دل آویزی آنکھوں کو بھلی لگتی تھی ۔جو دل کو پیارا لگتا تھا۔
‘‘ٹاؤن ہال کو دیکھیں۔’’کسی نے کہا تھا۔فوراً نگاہوں کا مرکز بدلا۔ایک خوبصورت اور شاندار منظر بصارت سے ٹکرایا۔
گاڑی میں بیٹھے بیٹھے شاندار ہوٹلوں کے ظاہری روپ دیکھے۔ سڑکوں کو ایک دوسرے سے ملانے کیلئے لفٹیں ہیں۔ ایک کی سیر بھی کی۔ بچوں کی طرح خوش ہوئے۔
انڈین ایڈوانس سڈیز کی عمارت گوتھک طرز تعمیر کی حامل خوبصورت،شاندار اور پروقار ہے۔یہ کبھی وائسرے لاج تھی۔
شملہ کالجوں، سکولوں اور ریسرچ اداروں کیلئے خصوصی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں مندروں اور گرجاؤں کی بھی کثرت ہے۔ شاید کوئی مسجد بھی ہو مجھے نظر نہیں آئی تھی۔
شملے کو صرف ہاتھ لگانے والی بات ہوئی ۔مال پر گھومتے گھومتے ہی لنچ برگروں کی صور ت کیا۔
ثروت کی فخر زماں سے بحث سُنی کہ جو شملے میں رات گزارنے کیلئے بضد تھی۔ ہم اسکی تائید کرتے تھے کہ ہاں نہ ہم کوئی برگر کھانے تو شملہ نہیں آئے ۔ مگر وہاں انکار تھا۔مال پر سیر کے دوران سکینڈل پوائنٹ بھی دیکھا۔ نام نے حیران سا کیا ۔ معلوم ہو ا تھا کہ پٹیالہ کے کسی راجے نے کِسی گوری کو یہاں سے اغوا کر لیا تھا۔
‘‘واہ جی واہ ۔بڑا جی دار راجہ تھا۔’’
دل کھول کر سراہا گیا۔
شملہ میں بچھی ریلوے لائن دیکھ کر دُکھ ہوا۔میرے ملک میں تو ریلوے کا جو حشر ہوا۔ٹرانسپورٹ مافیا کے چکروں اور خود غرضیوں نے جو کھیل کھیلے۔ انکی تفصیل بہت ہی گھناؤنی ہے۔خود ریلوے کے ملازموں نے اِس سے محبت نہیں کی اور اسے اُجاڑ دیا۔
اگلے دن امر تسر کیلئے روانگی تھی۔استقبال بی، بی کے ڈی اے وی کالج کی پرنسپل مسز جے کا کڑیا اور انکے عملے نے کیا۔
لنچ کے بعد شام کا سیکشن ٹورزم اینڈ ڈویلپمنٹ کے اعتبار سے بہت اہم تھا۔ پروفیسر دربار ی لال جو خود ایک ماہر تعلیم ہیں۔وہ اُن دنوں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے۔ وہی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
اِس سیمینار میں جو بات میرے سامنے کھل کر آئی وہ ہندوستان کی سیاحت کے حوالے سے آگاہی اور شعور تھا۔
مسز کا کڑیا نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
‘‘ہمارے لیے آپ لوگوں کا پنجاب مسلمانوں کے مکے مدینے کی طرح ہے۔آج مذہبی سیا حت صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ ِجدید تقاضوں کی روشنی میں اِسے سمجھنے اور شکل دینے کی ضرورت ہے۔’’
ایک طرح یہ سیمینار پاک بھارت دوستی کا مظاہر ہ بن گیا۔ فخر زماں نے اپنے خطاب میں ٹورسٹ ویزہ کے اجر ا کی تجویز پیش کی ۔ انہوں نے سکھوں کے مذہبی مقامات کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ راج کٹا س کا بھی ذکرکیا۔جسے اب زیارت گاہ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے نفرتوں کی سیا ست چھوڑ کر محبتوں کے راستے اپنانے پر زور دیا۔
کلچرل شو بہت خوبصورت تھا۔ مسز کاکڑیا کی بیٹی پیرول کا کڑیا نو عمری کے باوجو د بہت اچھی فنکارہ تھی۔ مزہ آیا۔ کھانا شاندار تھا۔ ہندو اور سکھ مزے سے چکن کھا رہے تھے۔
کل سہ پہر دلی کے لئے روانگی تھی۔شتابدی سے سفر کرنا تھا۔ ٹرین کا سفر مجھے ہمیشہ بڑا ہانٹ کرتا ہے۔صبح گولڈن ٹمپل گئے۔مگر میں نے تفصیلی سیر واپسی کیلئے اٹھا رکھی ۔ کچھ ایسا ہی حال جلیانوالہ باغ کے ساتھ ہوا۔بازار بھی گئے مگر میں نے کچھ نہیں خریدا ۔کسی نے کہا تھا کہ واپسی پر امر تسر ٹھہرنا ہے ۔
چلوآرام سے سب کچھ کروں گی۔کون سی سوڑ (جلدی )ہے۔
٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply