عبدل جیمز اروڑہ۔۔۔۔ میاں حمید

‘عبدالجیمز اروڑہ’ آج پھر غصے میں تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ کیسا نام ہے؟ تو بات دراصل یہ ہے ہمارے محلے دار اور میرے بچپن کے دوست ‘جِیلے بے ہوش’ پر آجکل دانشگردی کا بھوت سوار ہے اور اس نے اپنا یہ نام بھی اس لئے رکھا ہوا ہے کہ اسکا ماننا ہے کہ وہ ایک بہت بڑا دانشور ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کسی ایک مذہب اور ملک کے لوگ اس پر ملکیت جمائیں اور دوسرا وہ چاہتا ہے کہ اسکی پہچان مختلف مذاہب کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے والے کے طور پر ہو۔

خیر بات ہورہی تھی اسکے غصے کی تو آج بھی اسکے غصے کی ایک ہی وجہ تھی کہ اسکو لگتا تھا کہ سکولوں میں مطالعۂِ پاکستان کے نام پر ہمارے بچوں کو مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جارہی ہے، اور ایسا کرکے ہم اپنی آنے والی نسلوں پر ظلم کررہے ہیں۔ اب یہی دیکھو نا کہ بھارت پاکستان کے مابین ہونے والی تمام کی تمام جنگیں ہم نے شروع کی تھیں اور ہم وہ بہت بری طرح سے ہارے تھے جبکہ ہمارے بچوں کو اس کے بارے میں کچھ اور ہی بتایا جاتا ہے۔ تاریخ کے ساتھ ایسا کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اب اصل تاریخ بتانی ہو گی۔ باتیں کرتے کرتے اروڑہ صاحب تھوڑا جذباتی ہوئے تو ان کو کھانسی کا شدید دورہ پڑگیا۔ کھانسی تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، خیر کافی دیر بعد کھانسی تھمی تو کہنے لگے کہ او میاں تو تو لندن کی موج میں ہے اور پاکستان؟ اب یہیں سے اندازہ لگا لو کہ پاکستان میں کوئی بھی چیز ایک نمبر نہیں ملتی۔ مجھے دیکھ لو کہ ولایتی شراب نہیں ملتی کہیں سے،اور ‘کتے مار’ پی پی کر میری جو حالت ہے وہ تمہارے سامنے ہے۔ میں نے انکی ہاں میں ہاں ملائی،کیونکہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔

اب دیکھو نا میاں صاحب،جب سے پاکستان بنا ہے فوج نے کسی بھی منتخب حکومت کو کھل کے کام نہیں کرنے دیا،اروڑہ ایک بار پھر شروع ہوچکا تھا۔ نہ یہ انڈیا سے دوستی ہونے دیتے ہیں،نہ یہ کسی کو خارجہ پالیسی بنانے دیتے ہیں۔ اوئے تاریخ کے نام پر یہ ہم کو جھوٹ پڑھا رہے ہیں، اور مجھ جیسے اصل تاریخ بتانے والوں کو کوئی پوچھتا نہیں۔ اروڑے کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ اسکو سگریٹ کی طلب ہوئی،اس نے جیب سے سگریٹ نکالا اور اسکو سلگا کے ایک ہی کش لگایا تھا کہ وہ اچانک گالیاں بکنے لگا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگا آج پھر کھوکھے والے نے دو نمبر گولڈ لیف دے دی ہے۔ اسکا اتنا کہنا تھا کہ میں جو پہلے ہی تنگ بیٹھا تھا،میں نے نیچے سے عید پر ‘جھنگ’ سے منگوایا چمڑے کا کھسہ اٹھایا اور کس کے دو چار اسکی ‘تریخ’ پر مار کر اسکی تریخ لالو لال کردی۔ اروڑہ پریشان ہوا کہ یہ مجھے اچانک ہوگیا ہے اور کہنے لگا میاں صاب کی ہوگیا جے تانو؟ میں نے کہا

‘اوئے چولا جہان دیا،اصلی شراب تے دو نمبر گولڈلیف تیرے تو پہچانی نئیں جاندی تے تو لگا ایں سانو اک نمبر تریخ پڑھان، ‘کَھڑ جا ذرا’

(ابے او چول،اصلی شراب اور دو نمبر گولڈلیف کی تو تجھے پہچان نہیں اورچلا ہے ہمیں ایک نمبر تاریخ پڑھانے،کھڑا ہو ذرا)

میرا اتنا کہنا تھا کہ اروڑہ یوں غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں دل ہی دل میں اس سے جان چھوٹ جانے پہ شکر کررہا تھا کہ اچانک گلی سے چندو حلوائی کے کتے کی چیاؤں چیاؤں کی آواز سنائی دی۔ اروڑہ اب یقیناً میرا غصہ اس کتے پر نکال رہا ہوگا

Advertisements
julia rana solicitors

میاں حمید لندن میں رہ کر بھی زرا نہیں بدلے۔ اب بھی بھرپور پاکستانی ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عبدل جیمز اروڑہ۔۔۔۔ میاں حمید

Leave a Reply