میر تقی میر۔۔۔۔۔۔۔ اویس قرنی

آگرہ شہر کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہے. عالمِ خاک کے عجائبات میں سے تاج محل اور عالمِ معانی کے عجائبات میں سے مرزا غالب کا مولد ہونے کے علاوہ زبان اردو کے شیخ سعدی, استاد الاساتذہ میرتقی میر کی جائے پیدائش ہونے کا شرف بھی رکھتا ہے.

میرصاحب کے اجداد حجاز سے ہجرت کے بعد دکن پہنچے تھے. ان میں سے میر تقی میر کے پردادا نے آگرہ میں توطن اختیار کیا. ان کے دادا کے دو بیٹے تھے. جن میں سے بڑا بیٹا خلل دماغ کے باعث جوانعمری میں وفات پاگیا اور چھوٹے بیٹے میر عبداللہ تھے. جواپنی درویشی اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے علی متقی کے نام سے مشہور ہوئے.سنہ 1723ء میں , مورخہ تاحال نامعلوم کو انہی میر عبداللہ کے گھر میں صبح صادق کے وقت ایک بچہ پیدا ہوا. جس کا نام محمد تقی رکھا گیا.

جب میر کی عمر تقریبا دس گیارہ برس تھی. ان کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے. بڑے بھائی حافظ محمد حسن نے بہت بے مروتی کی اور باپ کے کُل ترکہ پر قابض ہوگئے. ناچار میر کو تلاشِ معاش میں آگرہ سے نکلنا پڑا. دہلی میں خواجہ محمد باسط کے توسط سے نواب صصمام الدولہ کے ہاں ملازم ہوگئے. کچھ عرصہ بعد نواب صاحب نادرشاہ کے حملے میں مارے گئے اور میر بیروزگار ہوگئے.

دہلی سے آگرہ لوٹ آئے مگر جب گزراوقات کی کوئی معقول صورت نظر نہ آئی تو پھر دلی کا رخ کیا اور بڑے بھائی کے خالو خان آرزو ہاں ٹھہرے , مگر بڑے بھائی کے اُکسانے پر خان آرزو درپے آزار ہوگئے. اس سے میر صاحب کو اس قدر صدمہ ہوا کہ کمرے میں بند پڑے رہتے. اور جنون کا عارضہ لاحق ہوگیا. حکیم فخرالدین خاں کے علاج سے رفتہ رفتہ وہ حالت جاتی رہی. اسی زمانے میں سید سعادت علی خان کے شاگرد ہوئے اور باقاعدہ اردو شاعری کا آغاز کیا.

جب سوتیلے خالو کے سلوک سے تنگ آگئے تو ان کا مکان چھوڑ دیا. اس کے بعد مختلف امرا اور نوابوں کی ملازمت imageمیں رہے. مگر وہ ہندوستان میں خانہ جنگی کا زمانہ تھا. میر صاحب کے سرپرست یکے بعد دیگرے قضا کا شکار ہوتے رہے اور میر صاحب ایک سے دوسرے نواب کی ملازمت میں آتے رہے. دلی میں آخری ملازمت مہاراجہ ناگرمل کے یہاں کی. جب ایک خانہ جنگی میں دلی لٹی تو میر صاحب کا مکان بھی لٹ گیا. ناچار میر دلی سے نکل کر متھرا میں کچھ دن قیام کے بعد کمہیر میں پہنچے. جہاں تیس سال راجہ سورج مل کے ملازم رہے. تیس سال بعد میر صاحب آگرہ آئے اور چار مہینے وہاں قیام کیا. اس عرصے میں ان کے شعر و سخن کی شہرت بھی پھیلنے لگی.

چار ماہ بعد میر واپس لوٹ گئے. مگر کچھ عرصہ بعد وہ علاقہ بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا اور راجہ کو وہاں سے بھاگنا پڑا. اور میر ایک بار پھر بیروزگار ہوگئے. مغل بادشاہ عالمگیرثانی نے بلوایا مگر وہ نہ گئے. البتہ لکھنؤ کے وزیراعظم کی دعوت قبول کر لی اور لکھنؤ جا پہنچے.

خود فرماتے ہیں:- “اول سالار جنگ کے یہاں گیا انہوں نے میری بڑی عزت کی اور جو کچھ مناسب تھا بندگانِ عالی جناب میں کہلا بھیجا, چار پانچ روز بعد اتفاقاً نواب مرغوں کی لڑائی دیکھنے کیلئے تشریف لائے. میں بھی وہاں حاضر تھا. محض فراست سے دریافت فرمایا کہ کیا تم میر تقی میر ہو؟ اور نہایت لطف و عنایت سے بغلگیر ہوئے اور اپنے ساتھ نشست کے مقام پر لے گئے.”

فطرت میں سریع الغیض (جلد برہم ہونے والے) تھے. اس پہ مستزاد سیادت اور نازک مزاجی تھی. جسے آزاد سمیت اکثر تذکرہ نگاروں نے ان کی بددماغی لکھا ہے.

ایک دن نواب نے غزل کی فرمائش کی. دو تین دن بعد پھر ملاقات ہوئی تو نواب نے پوچھا “میر صاحب! ہماری غزل لائے” میر صاحب نے تیوری بدل کر فرمایا:-” جنابِ عالی! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کردے”

ایک دن نواب نے بلا بھیجا. جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں, ہاتھ میں چھڑی ہے. پانی میں رنگا رنگ مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں اور نواب تماشا دیکھ رہے ہیں.
میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے. اور کہا “میر صاحب کچھ فرمائیے”
میر نے غزل سنانی شروع کی. نواب صاحب سنتے جاتے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے رہے. میر بہت چیں بجبیں ہوئے. اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے. نواب صاحب کہتے کہ ہاں پڑھیے. آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب رک گئے. اور فرمایا:-“پڑھوں کیا. آپ تو مچھلیوں سے کھیلتے ہیں. متوجہ ہوں تو پڑھوں.”
نواب نے کہا “جو شعر ہوگا آپ متوجہ کرے گا” میر صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری. کاغذ لپیٹ کر غزل جیب میں ڈالی اور پھر جانا چھوڑ دیا.

کسی نے پوچھا :- کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے؟
فرمایا:-“ایک تو سودا اور دوسرا یہ خاکسار ہے (تامل کے بعد) اور آدھے خواجہ میر درد.”
کوئی شخص بولا:- حضرت! اور میر سوز صاحب؟؟
چیں بجبیں ہوکر پوچھا:- میر سوز صاحب بھی شاعر ہیں؟
انہوں نے کہا:- آخر نواب آصف الدولہ کے استاد ہیں.
فرمایا:- خیر یہ ہے تو پونے تین سہی.مگر شرفا میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سنے.

مرزا محمد تقی خاں ترقی کے مکان پر ایک مشاعرہ تھا, جس میں شہر کے سب نامی رئیس اور شاعر جمع تھے. جرات نے جو غزل پڑھی اس پر بہت واہ واہ ہوئی اور بہت تعریفیں ہوئیں. وہ ازراہِ تبختر یا شوخی سے میر صاحب کے سامنے آ بیٹھے اور اپنے کلام کی داد چاہی کہ غزل کیسی لگی؟.
میر صاحب نے ایک دو مرتبہ ٹالا مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو تیوری چڑھا کر فرمایا:-“تم شعر کہنا کیا جانو , اپنے تئیں چوما چاٹی کرلیا کرو.”

میر کی عمر اور سنِ وفات میں غیر محتاط تذکرہ نگاروں کی مہربانیوں سے بہت اختلافات موجود ہیں. جس کا جی چاہا اس نے اندازے سے سو سال عمر لکھ دی , کسی نے اسی سال غرضکہ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہے. البتہ معتبر محققین کے مطابق 1810ء میر کا سنِ وفات ہے.

اردو شاعری بالخصوص غزل میں میر کی استادی متفق علیہ ہے. ان کے معاصرین سے لیکر بعد میں آنے والے تمام شعراء نے ان کی استادی کا اعتراف کیا ہے.ریختہ کو رشکِ فارسی بنانے کا دعویٰ کرنے والے غالب جو ریختہ گویان تو کیا سبک ہندی (فارسی) شعرا کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے. ان کا اعتراف ہی مثال کیلئے کافی ہے.
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو , غالب!!!!
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

غالب , اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
“آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں”

میر تقی میر کا طرزِ شاعری نہ صرف عوام بلکہ شعرا میں بھی بہت مقبول ہوا. میر سکول آف تھاٹ کے شعرا میں سے ناصر کاظمی اور ابنِ انشاء جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں.

کلامِ میر:-

جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گورِ غریباں میں در آوے
کیا جانیں وہ مرغان گرفتار چمن کو
جن تک بصد ناز نسیمِ سحر آوے
ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے
دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے
اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سرِ راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میر بلا کش ادھر آوے

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے
لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے کیا بات بڑھائی ہے
آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے
دل سے نزدیک اور اتنا دور
کسے اس کو کچھ آشنائی ہے
بے ستوں کیا ہے کوہ کن کیسا
عشق کی زور آزمائی ہے
جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے
ایسا ہوتا ہے زندہ جاوید
رفتہ یار تھا جب آئی ہے
مرگ مجنون سے عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قدخم ہمارا
زمین و آسماں زیر و زبر ہیں
نہیں کم حشر سے ادھم ہمارا
کسو کے بال پر ہم دیکھتے میر
ہوا ہے کامِ دل برہم ہمارا

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply