جنگ : محاذ پر اینکر تعینات کیے جائیں ۔۔۔۔ قاسم سید

 

اڑی میں فوجی کیمپ پر پاکستان کی پشت پناہی سے دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیاسی اور سفارتی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ (یہ ہندوستانی مصنف کا موقف ہے: مدیر) اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں حملہ کا جواب دینے کے ہر ممکن متبادل پر غورو خوض ہو رہا ہے۔ سرکار نے پہلے مرحلہ میں پاکستان کوالگ تھلگ کرنے کے لئے سفارتی مہم کا فارمولہ تیار کیا ہے اور اس پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ پوری قوم متحد ہے، دنیا کے اہم ممالک ہندوستان سے اظہاریکجہتی کر رہے ہیں، اس مہم کے تحت کئی اقدامات کئے جائیں گے تاکہ پاکستان اقتصادی، سیاسی اور سفارتی سطح پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے، مگر کئی حلقے ایسے بھی ہیں جو جنگ پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان میں گھس کر مارنے پر اکسا رہے ہیں۔ مودی جی کے 56 انچ کے سینے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کے انتخابی دعوؤں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایک کے بدلے دس سر لانے کا وعدہ یاد دلا کر غصہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں ہمارے سابق معزز فوجی افسران اور بعض نام نہاد تجزیہ دانشور حضرات پیش پیش ہیں۔ فوجی کارروائی کو پہلا اور آخری متبادل قرار دینے کے لئے دلائل کا انبار لگایا جارہا ہے۔ کوئی مودی کو دوسرا اٹل بہاری واجپی کہہ کر طنز کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان آیا ہوا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے ٹی وی چینل بھی پیچھے نہیں ہیں۔ وہ آگ میں گھی ڈال کر ٹی آر پی کی لڑائی میں مصروف ہیں۔ بعض اینکروں کے غیض و غضب کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ فوجی سربراہ بنا دیئے جائیں یا بچہ سقہ کی طرح ملک کی کمان چند گھنٹوں کے لئے دے دی جائے تو وہ پڑوسی ملک کا منٹوں میں نام و نشان مٹا دیں۔ انہیں نہ عالمی برادری کے رد عمل کی پرواہ ہے نہ ہندوستان کی شبیہ کی۔ زیادہ تر نیوز چینل شہیدوں کے ورثا کے آنسوؤں کو آگ بجھانے کے لئے نہیں، پٹرول بنا کر صورت حال کو دھماکہ خیز بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا ہے۔

یہی رنگ پٹھان کوٹ حملہ کے بعد بھی دیکھنے کو ملا تھا۔ پاکستان کو خاک میں ملانے، صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور وقت ان کے نزدیک ہو نہیں سکتا۔ کسی نے بہت اچھا لکھا ہے کہ ’چلو جنگ کے لئے چلتے ہیں لیکن تبھی جب ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے لوگ حملہ کی قیادت کریں، کس طرح یہ لوگ آسانی سے بھول جاتے ہیں کہ سرحد پار پر تعینات جوان بھی کسی کا بیٹا ہے۔ ایک شخص نے لکھا ہے کہ صرف اس وجہ سے ہم جنگ سے بچے ہوئے ہیں کیونکہ مکیش امبانی جانتے ہیں کہ یہ ان کے کاروبار کے لئے برا ہے۔

بہر کیف نیوز چینلوں میں کئی تو بہت بدنام ہیں انہیں تعصب و نفرت کی گھٹی پلائی گئی ہے۔ ان کی پرورش میں زہرہ کا زیادہ استعمال ہوا ہے اور یہ وش کنیا سے زیادہ خطرناک ہوگئے۔ بعض نیوز چینلوںنے اس میدان میں خوب نام کمایا ہے، مگر وہ یہ بھی جانتے ہوں گےکہ آگے کوئی بھی جنگ اپنے نتائج کے اعتبار سے کہیں بھیانک اور تباہ کن ہوگی اور اینکر ناظرین کو ڈھونڈتے پھریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ آج تک کسی مسئلے کا حل نہیں ثابت ہوئی بلکہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے۔ یہ جذباتی لوگوں کی پہلی پسند ہوتی ہے لیکن دنیا نے اس کے خطرناک نتائج بھگتے ہیں۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ہندوستان کے سنجیدہ دفاعی امور کے ماہرین کسی بھی ایسی کارروائی کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں، ایک سابق فوجی سربراہ کا کہنا ہے کہ سرکاریں جذبات میں فیصلے نہیں کرتیں اور مودی سرکار بھی اس بات کو بخوبی جانتی ہے، اس لئے کہ اگر غلطی سے کوئی ایسا قدم اٹھالیا گیا تو اس کے لینے دینے پڑسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اڑی واقعہ نے ہر ہندوستانی کے دل کو زخمی کردیا ہے۔ مگر اس کا علاج اپنے انداز سے ڈھونڈنا ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply